طنزو مزاح، اقتباسات: کار بکائو ہے!
اسپیشل فیچر
ہمارے کارفروشی کے فعل کو سمجھنے کیلئے کار سے تعارف لازم ہے۔ یہ کاران کاروں میں سے نہ تھی جو خود بک جاتی ہیں۔ اس متاعِ ہنرکے ساتھ ہمارا اپنا بکنا بھی لازم تھا۔ یعنی اس کار کے بیچنے کے لے ایک پنچ سالہ منصوبے کی ضرورت تھی لیکن ہمارے پاس صرف تین دن تھے کہ چوتھے روز ہم نے فرنگ کوپرواز کرجانا تھا۔ سوہم نیاز راہِ مجبوری ایک سہ روزہ کریش پروگرام بنایا،جس کا مختصر اور مقفی لبِ لباب یہ تھا۔ ا?ج اشتہار، کل خریدار، پرسوں تیس ہزار! سو ہم نے اشتہاردے دیا،
''کار بکاو ہے‘‘
''ایک کار، خوش رفتار، آزمودہ کار، قبول صورت، فقط ایک مالک کی داشتہ، مالک سمندر پارجارہا ہے۔ فون نمبر 62209 سے رابطہ قائم کریں‘‘۔
یہ سب کچھ صحیح تھا لیکن جو اس سے بھی صحیح تر تھا اور جسے ہم اشتہار میں بالکل گول کر گئے تھے۔ وہ موصوفہ کی عمر تھی جس کا صحیح اندازہ حضرت خضر کے سوا کسی کو نہ تھا۔ وہ طویل مسافت تھی جو محترمہ طے کرتے کرتے لڑکھڑانے لگی تھی اور اس کے اندرونی اعضاء کی وہ باہمی شکر رنجیاں تھیں جنہیں شیر وشکر کرنے میں ممدوحہ کے مالک اور گرد و نواح کے جملہ مستری بے بس تھے۔
دوسری صبح اشتہار کے جواب میں ٹیلیفون آیا، ''السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ‘‘۔ اس متشرع سلام کے جواب میں ہم نے صرف وعلیکم السلام کہا۔ جو بہت ناکافی محسوس ہوا۔ ہمیں ذرا شک سا تھا کہ وعلیکم السلام کے ساتھ بھی برکاتہ وغیرہ لگ سکتے ہیں یا نہیں، ورنہ جی تو چاہا کے سلام کا دمدار ستارہ بنا کر پیش کریں۔
ایک دو اور فون بھی آئے لیکن کار کی عمر رفتہ اور سفرِ گزشتہ کا ذکر آیا تو بامقصد گفتگو کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ اسی طرح شام ہوگئی۔ ٹیلی فون ہمارے پہلو میں پڑا تھا لیکن چپ۔ سامنے آخری شب تھی، یعنی پروازیورپ میں چند ساعتیں باقی تھیں۔ ہم نے سوچا اگر کار نہ بکی اور اس عالمِ پیری میں اسے تین ماہ گیراج میں گزارنے پڑ گئے تو جوڑوں کے درد کا شکار ہو جائے گی اور پھر شاید کوئی مولوی غفور بھی میسر نہ آئے۔ چلو مولوی صاحب سے ہی رجوع کریں لیکن فون اٹھایا تو ساتھ ہی مولوی صاحب کی ہنسی اور گنگناہٹ یاد آئی۔ سوچا، سبک سر ہو کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو،مگر اندر سے آوازآئی کہ میاں، غالب کا پرابلم تمہارے پرابلم سے سراسر مختلف تھا۔ وہ عشق کا معاملہ تھا۔ یہ تجارت کی بات تھی۔ بے تکلف فون کرو۔ ہم نے بے تکلف مولوی صاحب کا نمبر ملایا اور سلام اور رحمتیں اور برکات بھیجنے کے بعد کہا، ''مولانا ساڑھے تین ہزارمیں کار آپ کی ہے۔چاہیں توآج ہی لے جائیں۔‘‘
تین پرساڑھے کااضافہ محض مولوی صاحب کی فتح کوجزوی شکست دینے کی خاطر تھا۔
لیکن قاری محترم، قصہ کوتاہ،اسی شام مولوی صاحب ایک سوکم تین ہزار میں کار لے گئے۔ ایک سو کم اس لئے کہ بقول مولوی صاحب پچھلی بات چیت کے بعد کارچند قدم چل کراور بوڑھی ہو چکی تھی اور کچھ یہ بھی کہ مولوی صاحب کی خودی ہماری خودی سے ٹکرا کر ذرا پائیدار نکلی تھی۔