9ہزار سال قبل خواتین کی حکمرانی !
اسپیشل فیچر
ترکی کے قدیم شہر بارے ماہرین کے حیران کن انکشافات
''گرل پاور‘‘ شاید آج سے 9ہزار سال پہلے شروع ہو چکی تھی۔ماہرین آثارِ قدیمہ نے ترکی کے ایک قدیم اور ہزاروں سال سے دفن شدہ شہر میں ایسے شواہد دریافت کیے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ اس بستی پر مردوں کے بجائے خواتین کی حکمرانی تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دریافت انسانی تہذیب کے ابتدائی دور اور تاریخ میں صنفی کرداروں کے بارے میں ہمارے علم کو یکسر بدل سکتی ہے۔معروف جریدے Science میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ماہرین نے جنوبی ترکی میں واقع ایک حیرت انگیز طور پر محفوظ نو ہزارسال پرانی بستی ''چَتال ہْیوک‘‘ (Çatalhöyük) سے تقریباً 400 ڈھانچوں کے ڈی این اے کا تجزیہ کیا اور ایسے شواہد حاصل کیے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تہذیب ممکنہ طور پر ایک نسوانی نظامِ حکومت کے تحت چلتی تھی۔
یہ بستی، جو مٹی کی اینٹوں سے بنے گھروں اور دیویوں کے مجسموں پر مشتمل تھی اور جس کی تاریخ 7100 قبل مسیح تک جاتی ہے، طویل عرصے سے محققین کیلئے حیرت اور تجسس کا باعث رہی ہے۔ ماہرین پہلے بھی یہ قیاس کرتے رہے تھے کہ یہ زرعی معاشرہ خواتین اور لڑکیوں کے گرد گھومتا تھا۔ اب ڈی این اے کے تجزیے سے تصدیق ہوئی ہے کہ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ قیمتی اشیاء کے ساتھ دفن کیا گیا اور بیٹیاں اپنے مادری خاندان کے ساتھ رہتی تھیں، جبکہ بیٹے اکثر بستی چھوڑ دیتے تھے۔یہ حیران کن دریافت آثارِ قدیمہ کی دنیا میں ایک ہلچل کا باعث بنی ہے اور انسانی تاریخ کے ابتدائی شہروں میں اقتدار کس کے ہاتھ میں تھا ، اس بارے میں صدیوں پرانے نظریات کو چیلنج کیا ہے۔ اس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ دنیا کی اوّلین شہری تہذیبوں کی بنیاد شاید خواتین نے رکھی تھی۔
یہ وسیع و عریض بستی، جو 32.5 ایکڑ (13.2 ہیکٹر) پر پھیلی ہوئی تھی، پہلے ہی اپنے پیچیدہ گھروں، دلکش فن پاروں اور پراسرار دیوی نما مجسموں کی وجہ سے مشہور تھی۔اب جدید جینیاتی شواہد سے یہ اشارے ملے ہیں کہ خواتین نہ صرف چَتال ہْیوک کی روحانی علامات تھیں بلکہ ممکن ہے کہ وہی اس شہر کی اصل حکمران بھی تھیں۔یہ انکشاف ایک طویل اور محنت طلب تحقیق کے نتیجے میں سامنے آیا جو دس سال سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ اس تحقیق میں جینیات کے ماہرین، ماہرین آثارِ قدیمہ اور حیاتیاتی بشریات دانوں کی ٹیم نے 35 مختلف گھروں کے فرشوں کے نیچے دفن 130 سے زائد افراد کے ڈھانچوں سے ڈی این اے نکالا۔مجموعی طور پر، چَتال ہْیوک کے قبروں سے تقریباً 400 افراد کے باقیات برآمد ہو چکی ہیں۔ یہ وہ شہر ہے جو ایک ہزار سال سے زائد عرصے تک زندگی سے بھرپور رہا۔
تحقیقی ٹیم نے جو کچھ دریافت کیا وہ حیرت انگیز تھا۔ ایک مضبوط جینیاتی نظام جو مادری تعلقات کو ظاہر کرتا ہے، خاص طور پر عمارتوں کے اندر خواتین اور ان کی بیٹیوں کو مستقل طور پر ایک ساتھ دفن کیا گیا، جبکہ مرد زیادہ تر باہر سے آئے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ شادی کے بعد اپنی بیویوں کے گھروں میں آ کر رہتے تھے۔محققین کا خیال ہے کہ 70 سے 100 فیصد تک خواتین نسل در نسل اپنی مادری گھروں سے جڑی رہیں، جبکہ مرد دوسری جگہوں پر منتقل ہو جاتے تھے۔خواتین کی اعلیٰ سماجی حیثیت کے شواہد یہیں ختم نہیں ہوتے۔ قبروں سے برآمد ہونے والی قیمتی اشیاء ، جیسے زیورات، اوزار اور نذرانے، خواتین کی قبروں میں مردوں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ پائے گئے۔ جو زندگی میں ان کے سماجی رتبے اور طاقت کا آئینہ دار ہے۔
تحقیق کی شریک مصنفہ ڈاکٹر ایلائن شوٹسمینز(Dr Eline Schotsmans) نے موجودہ دور کے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ قدیم صنفی کرداروں سے متعلق فرسودہ تصورات پر نظر ثانی کریں۔اس دریافت کے اثرات صرف ترکی تک محدود نہیں۔ کچھ عرصہ قبل برطانیہ کے قدیم دور(Late Iron Age) کا مطالعہ کرنے والے ایک تحقیقی گروہ نے اپنی تحقیق میں یہ شواہد پیش کیے کہ سیلٹک (Celtic) برادریوں میں خواتین کو بھی مادری رشتے داری کے ذریعے طاقتور حیثیت حاصل تھی۔
یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا ایٹ چیپل ہل کے ماہرِ آثارِ قدیمہ، بینجمن آربکل(Benjamin Arbuckle) کہتے ہیں کہ یہ اس مشکل کی عکاسی کرتا ہے جس کا سامنا بہت سے محققین کو ہوتا ہے۔ وہ ایک ایسی دنیا کا تصور کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں جہاں خواتین کے پاس اصل طاقت ہو، حالانکہ آثارِ قدیمہ، تاریخی اور نسلیاتی شواہد وافر مقدار میں موجود ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ نسوانی اقتدار کے نظام نہ صرف موجود تھے بلکہ بڑے پیمانے پر پھیلے ہوئے بھی تھے۔