زمین کی تہہ میں چھپے راز
اسپیشل فیچر
دنیا میں آتش فشانی دھماکے قدرت کا ایک ایسا مظہر ہیں جنہوں نے صدیوں سے انسانی تہذیب اور ماحول پر ناقابل یقین اثرات مرتب کیے ہیں۔ زمین کی سطح سے ہزاروں کلومیٹر نیچے گرم چٹانوں کی ایک ٹھوس تہہ ہے جسے زیریں مینٹل کہا جاتا ہے۔ نصابی کتابوں کے خاکوں میں لوئر مینٹل کو ہموار اور یک رنگ بتایا جاتا ہے، حقیقت میں وہاں دو بہت بڑے بلاکس ہیںجن کا رقبہ شاید پورے براعظم کے برابر ہے ۔مذکورہ تحقیق کی رہنما، آسڑیلیا کی Wollongong یونیورسٹی سے وابستہ وولکینوجسٹ اینالیسی ککیرو(Annalise Cucchiaro) اور ان کے ساتھی محقق نکولس فلیمنٹ(Nicholas Flament) کے مطابق یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ یہ بلاکس ایک مقررہ مقام پر ہیں یا مستقل حرکت میں، تاہم جدید ڈیٹا ماڈلنگ سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ یہ حرکت پذیر ہوسکتے ہیں اور ان سے سطح زمین پر مینٹل اخراج(Mantle plumes) کا امکان ہو سکتا ہے، جو آتش فشاں کی شکل اختیار کر سکتا ہے اور سطح زمین پر طاقتور دھماکو ں کا سبب بن سکتاہے۔
زمین کے اندر سے تقریباً تین ہزار کلومیٹر کی گہرائی سے اُٹھنے والے Mantle plumes کے سطح پر پہنچ کر آتش فشانی صورتحال پیدا ہونے کے واقعات ماضی میں بھیانک واقعات کا واقعات سبب بنے تھے ، جیسا کہ ڈائنوسار کا خاتمہ۔ ککیرو کے ماڈلز بتاتے ہیں کہ یہ بلاکس ہی وہ مقام ہیں جہاں سے میگما کی لہر ابھرتی ہے ۔مذکورہ تحقیق میں آتش فشانوں کے ارتقاکا مطالعہ کیا گیا اور معلوم ہوا کہ تقریباً 30 کروڑ سال پہلے ہونے والے عظیم اخراج کے مقامات ان بلاکس اور ان سے اٹھنے والے میگمائی پلیومز سے اچھی طرح میل کھاتے ہیں ۔ ماڈلز کے مطابق کہیں پر ان دھماکوں نے بلاک کے ٹھیک اوپر سے میگما نکالا اور کہیں سے افقی لہر نکلی۔
مستقبل کے لیے تحقیق کی سمت
اب مرکزی سوال یہ ہے کہ آیا یہ BLOBS حقیقت میں حرکت پذیر ہیں یا ایک جگہ ٹھہرے رہتے ہیں؟ اگر یہ حرکت کرتے ہیں توحرات کے عملِ اتصال اور زمین کی پرتوں میں تبدیلی ان پر کیا اثرات مرتب کر رہی ہے؟ مستقبل میں ان سوالات کا جواب دینے کے لیے Tomographic ڈیٹا اور جدید ماڈلنگ پر انحصار کیا جائے گا۔
آتش فشانی تباہی کے واقعات
بڑے آتش فشانی دھماکے نہ صرف سطح زمین اور ماحول کو متاثر کرتے ہیں بلکہ عالمی آب و ہوا پر بھی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ایک خوفناک مثال 25 کروڑ سال پہلے کی Permian-Triassic extinction ہے جس میں ممکنہ طور پر سیاہ لاوے نے عالمی موسمیاتی تبدیلیاں، ماحول کا تباہی اور زندگی کے بڑے پیمانے پر خاتمے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
حالیہ مطالعے نے ان واقعات کا تعلق بھی گہرے میگمائی ڈھانچوں سے جوڑ کر نیا زاویہ دیا ہے اوریہ تحقیق volcanologists اور geophysicists کی دلچسپی کا باعث بنی ہے جنہوں نے اسے زمین کی ساخت اور میگماکے ارتقاکے نئے باب کے طور پر دیکھا ہے۔ انہوں نے مذکورہ بلاکس کو ''زمین کے اندر چھپے قدرتی بیک اَپ پلان‘‘ سے تعبیر کیا ہے ۔
یہ تحقیق نہ صرف یہ بتاتی ہے کہ اجرام فلکی یا موسمی عوامل کی طرح زمین کے اندرونی اجزاآتش فشانی عمل کو کنٹرول کرتے ہیں بلکہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ ان عوامل کی تحقیق اور تجزیہ عالمی خطرات اور قیمتی ذخائر کے حوالے سے نئے راستے کھول سکتا ہے۔ اگلے چند برسوں میں اگر ہم نے زمین کی اندرونی ساخت کو بہتر طور پر سمجھ لیا تو شاید ہمیں مستقبل میں بڑے آتش فشانی واقعات سے بروقت خبردار ہونے اور زلزلوں کی شدت کو کم کرنے کے امکانات کا نسبتاً بہتر ادراک ہو سکے۔
اس دریافت کا اطلاق محض آتش فشانی پیشین گوئی پر ہی نہیں بلکہ صنعتی و اقتصادی شعبوں پر بھی مثبت اثرات مرتب کر سکتا ہے، جیسا کہ ہیرے اور قیمتی معدنیات kimberlite کی تلاش میں، جو میگما کے ساتھ منسلک ہوتی ہیں ۔ علاوہ ازیں میگما کے حرارت کے ذخائر سے گرین انرجی کے لیے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔