سائبورگ شہد کی مکھیاں چینی سائنس دانوں کا انقلابی اقدام
اسپیشل فیچر
چینی سائنس دانوں نے شہد کی مکھیوں کو ''سائبورگ‘‘ میں تبدیل کر دیا ہے، جنہیں مستقبل میں جاسوسی، ریسکیو مشنز اور فوجی آپریشنز میں استعمال کیا جا سکے گا۔ چینی سائنسدانوں نے ایک ایسا جدید آلہ تیار کیا ہے جو عام شہد کی مکھی کو سائبورگ میں بدل دیتا ہے۔ اس چھوٹی سی ڈیوائس کا وزن 74 ملی گرام ہے، اس طرح یہ ڈیوائس شہد کی مکھی کے پیٹ میں موجود اس خانے سے بھی ہلکی ہے جس میں مکھی شہد جمع کرتی ہے۔
یہ جدید آلہ جو ایک چٹکی بھر نمک سے بھی کم وزنی ہے، مکھی کی پشت پر باندھا جاتا ہے اور باریک سوئیوں کے ذریعے براہِ راست اس کے دماغ سے منسلک کیا جاتا ہے۔ برقی سگنلز کے ذریعے مکھی کی سمت اور حرکت کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ یہ تحقیق سائبورگ ڈریگن فلائیز اور کاکروچز کی تیاری کے بعد سامنے آئی ہے۔
یہ ننھا آلہ کیمروں، سننے والے آلات اور مختلف سینسرز سے لیس کیا جا سکتا ہے، جن کی مدد سے یہ مکھیاں مخصوص مقامات پر جا کر معلومات اکٹھی کرنے، آوازیں سننے اور ویڈیو ریکارڈ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اپنے انتہائی چھوٹے سائز کی وجہ سے یہ سائبورگ مکھیاں ایسے مقامات تک بھی باآسانی پہنچ سکتی ہیں جہاں کسی انسان یا بڑے روبوٹ کی رسائی ممکن نہیں ہوتی۔
چین کے علاوہ امریکہ، جاپان اور دیگر کئی ممالک بھی سائبورگ کیڑوں کی دوڑ میں شامل ہیں۔ جاپانی سائنس دان اس سے قبل ایک ریموٹ کنٹرول کاکروچ تیار کر چکے ہیں، جو شمسی توانائی سے چلنے والا ''بیگ‘‘ پہنے ہوتا ہے۔ یہ کاکروچ خطرناک علاقوں میں داخل ہونے، ماحول کا جائزہ لینے اور سرچ اینڈ ریسکیو مشن انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے ، اسے بار بار چارج کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
اگرچہ پروفیسر ژاؤ کی ٹیم نے شاندار پیشرفت کی ہے، لیکن ٹیکنالوجی کو عملی طور پر مکمل فعال بنانے کیلئے اب بھی کچھ چیلنجز درپیش ہیں۔ موجودہ بیٹریاں مختصر وقت تک ہی کام کرتی ہیں اور بڑی بیٹریاں مکھیوں کیلئے بہت بھاری ہو جاتی ہیں۔ مزید یہ کہ ایک ہی قسم کا آلہ ہر کیڑے پر یکساں مؤثر نہیں ہوتا، کیونکہ مختلف کیڑے اپنے جسم کے مختلف حصوں سے سگنلز محسوس کرتے ہیں۔اس سے قبل سب سے ہلکا سائبورگ کنٹرولر سنگاپور میں بنایا گیا تھا اوراس کا وزن چینی آلے سے تین گنا زیادہ تھا۔
بیجنگ انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر ژاؤ جئی لیانگ (Zhao Jieliang) نے اس ٹیکنالوجی کی تیاری میں بطور انچارج کام کیا۔ پروفیسر ژاؤ کے مطابق یہ روبوٹس زیادہ خاموشی، لمبے وقت تک کام کرنے کی صلاحیت اور خفیہ نگرانی کے مشنوں میں غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جیسے خانہ جنگی، دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں، منشیات کی روک تھام اور اہم قدرتی آفات میں امدادی کام۔
یہ پیشرفت نہ صرف حیاتیاتی سائنس اور انجینئرنگ کے امتزاج کی عکاس ہے، بلکہ یہ مستقبل کی خفیہ ٹیکنالوجی، قدرتی آفات میں امداد اور دفاعی حکمت عملیوں میں ایک انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ دنیا اب اس دور میں داخل ہو چکی ہے جہاں قدرت اور ٹیکنالوجی کا انضمام ہمارے اردگرد کے ماحول کو جانچنے اور کنٹرول کرنے کیلئے نئی راہیں کھول رہا ہے۔