آج تم یاد بے حساب آئے! ساغرصدیقی
اسپیشل فیچر
٭...1928ء میں انبالہ میں پیدا ہونے والے ساغر صدیقی کااصل نام محمد اختر تھا۔
٭...تیرہ چودہ سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کیا ،شروع میں قلمی نام ناصر حجازی تھا ۔
٭... 1944ء میں پہلی بار امرتسر میں ہونے والے ''آل انڈیا مشاعرہ‘‘ میں شرکت کی ۔
٭...تقسیمِ ہند کے بعد لاہور آ گئے۔
٭...1947ء سے 1952ء تک کا زمانہ ان کیلئے سنہرا دور ثابت ہوا۔ کئی روزناموں، ماہوار ادبی جریدوں اور ہفتہ وار رسالوں میںان کا کلام بڑے نمایاں انداز میں شائع ہوتا رہا۔
٭...ساغر کی غزلوں کے 5 مجموعے ''زہر آرزو‘‘ (1960ء) ، ''غم بہار‘‘ (1964ء) ، ''لوح جنوں‘‘(1970ء ) ، شیشہ دل ‘‘ اور ''شب آگہی‘‘( 1972ء)ان کی زندگی میں شائع ہوئے۔ ''مقتل گل‘‘ ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔
٭...تقریباً35فلمی گیت لکھے ۔1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں کے دوران ترانے بھی لکھے، نعتیں بھی کہیں جو ''سبز گنبد ‘‘ کے نام سے مجموعے کی صورت میں طبع ہوئیں۔
٭... 1952ء کے بعد ساغر کی زندگی خراب صحبت کی بدولت ہر طرح کے نشے کا شکار ہو گئی۔
٭...عالم مدہوشی میں بھی مشقِ سخن جاری رہتااور ہر صنف سخن میں شاہکار تخلیق کرتے جاتے۔
٭...زندگی کے آخری ایام داتا دربار کے سامنے فٹ پاتھ پر گزارے ،19 جولائی 1974ء کو اسی فٹ پاتھ پر ان کا انتقال ہوا، میانی صاحب قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
ساغر کے مشہور فلمی گیت
٭...موجیں تڑپ رہی ہیں،کنارے اداس ہیں(انوکھی داستان)
٭...میرے ٹوٹے من کی بات زمانہ کیا جانے(شالیمار)
٭...آگ من کو لگائیں نظارے،سجنوا ہمارے بسیں پردیس (باپ کا گناہ)
٭...کوئی اپنی نشانی دے گیا، دل لے گیا(دو آنسو)
٭...محفلیں لٹ گئیں، جذبات نے دم توڑ دیا(سرفروش)
٭...اب شمع اکیلی جلتی ہے، اور روٹھ گئے ہیں پروانے(غلام)
٭...چاندچمکا تھا پیپل کی اوٹ میں(انجام)
٭...دل کو ملا دل دار(باغی)
٭...دیکھے زمانہ میرا نشانہ
٭...میری زلفوں کی لٹ بڑی جادوگر
ساغر کے چند اشعار
بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
٭٭٭
ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
٭٭٭
اب کہاں ایسی طبیعت والے
چوٹ کھا کر جو دعا کرتے تھے
٭٭٭
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
٭٭٭
کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
٭٭٭
آہن کی سرخ تال پہ ہم رقص کر گئے
تقدیر تیری چال پہ ہم رقص کر گئے
٭٭٭
پنچھی بنے تو رفعت افلاک پر اڑے
اہل زمیں کے حال پہ ہم رقص کر گئے
٭٭٭
فقیہ شہر نے تہمت لگائی ساغر پر
یہ شخص درد کی دولت کو عام کرتا ہے
٭٭٭
بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجئے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجئے
منزل نہیں ہوں خضر نہیں، راہزن نہیں
منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجئے
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
یاد رکھنا ہماری تربت کو
قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا
غم کے مجرم خوشی کے مجرم ہیں
لوگ اب زندگی کے مجرم ہیں
دشمنی آپ کی عنایت ہے
ہم فقط دوستی کے مجرم ہیں