چاند کی مٹی سے پانی اور ایندھن تیار
اسپیشل فیچر
چین کے سائنس دانوں نے چاند کی سطح پر انسانی زندگی کو ممکن اور پائیدار بنانے کی جانب ایک اور بڑا قدم اٹھا لیا ہے۔ حالیہ تجربات کے دوران چینی ماہرین نے چاند کی مٹی سے نہ صرف پانی کشید کرنے بلکہ اسی پانی اور خلانوردوں کے سانس سے خارج ہونے والی گیسوں کو قابل استعمال ایندھن میں تبدیل کرنے کا کامیاب طریقہ دریافت کیا ہے۔
یہ پیش رفت ایک نئے ''فوٹو تھرمل نظام‘‘ پر مبنی ہے، جو روشنی کو حرارت میں بدل کر کیمیائی ردعمل کو ممکن بناتی ہے۔ سادہ الفاظ میں، اس عمل کے ذریعے چاند کی مٹی سے حاصل کردہ پانی کو استعمال کرتے ہوئے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو آکسیجن، ہائیڈروجن اور کاربن مونو آکسائیڈ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یہ تمام عناصر مستقبل کے خلائی مشنز کیلئے ایندھن یا زندگی کے بنیادی وسائل کے طور پر استعمال ہو سکتے ہیں۔
یہ تحقیق بین الاقوامی سائنسی جریدے Joule میں شائع ہوئی ہے۔ تحقیق کی سربراہی چینی یونیورسٹی آف ہانگ کانگ شینزین کے ممتاز سائنس دان پروفیسر لو وانگ (Professor Lu Wang) نے کی۔ ان کا کہنا ہے کہ چاند کی مٹی میں موجود معدنیات کی غیر متوقع کیمیائی خصوصیات نے تحقیقاتی ٹیم کو حیران کر دیا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس نئے نظام میں پانی نکالنے اور گیس کی تبدیلی کا عمل ایک ہی مرحلے میں انجام پاتا ہے، جس سے توانائی کی بچت ہوتی ہے اور مشینری کو آسان اور مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔ اس سے مستقبل میں چاند پر طویل قیام کرنے والے خلا نوردوں کیلئے خود انحصاری کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔
یہ تجربات چینی خلائی مشن''شینگ ای 5‘‘ (Chang'E-5)سے حاصل کردہ اصلی چاندکی مٹی کے نمونوں پر کیے گئے، جو 2020ء میں چاند کی سطح سے جمع کیے گئے تھے۔ تجربہ گاہ میں ان نمونوں کی مدد سے فوٹو تھرمل نظام کو جانچا گیا اور اس نے کامیابی سے پانی کشید کرنے اور گیسوں کی تبدیلی کا عمل مکمل کیا۔
یہ سائنسی کامیابی صرف چین کیلئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کیلئے امید کی کرن ہے۔ اگر خلا میں مقامی وسائل سے زندگی گزارنے کے یہ تجربات کامیابی سے جاری رہے تو مستقبل میں مریخ اور دیگر سیاروں پر بھی انسانی بستیاں قائم کرنا ممکن ہو جائے گا۔
زمین پر انحصار کم ،اخراجات میں بڑی بچت
اس وقت خلا میں استعمال ہونے والا ہر گیلن پانی زمین سے بھیجنے پر تقریباً 83 ہزارامریکی ڈالر میں پڑتا ہے۔ چینی ماہرین کی یہ ایجاد مستقبل میں ان اخراجات کو صفر کے قریب لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ چاند پر قیام کرنے والے انسانوں کو زمین سے پانی اور ایندھن کی فراہمی کیلئے بھاری بھرکم اخراجات نہیں اٹھانے پڑیں گے۔
عملی نفاذ کے چیلنجز
اگرچہ یہ دریافت غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے، لیکن سائنس دانوں نے اس پر عمل درآمد کے راستے میں کئی چیلنجز کی نشاندہی بھی کی ہے۔ ان میں چاند کی سطح پر مائیکرو گریوٹی (microgravity)، شدید تابکاری اور درجہ حرارت میں انتہائی اتار چڑھاؤ جیسے مسائل شامل ہیں، جو مشینوں اور مواد پر اثر ڈال سکتے ہیں۔
چین کا چاند مشن
چین تیزی سے چاند پر خلا باز بھیجنے کے ہدف کی جانب بڑھ رہا ہے۔ صرف دو دہائیاں قبل خلا میں تحقیق کے میدان میں نسبتاً خاموش ملک آج چاند پر پائیدار انسانی موجودگی کی دوڑ میں امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو ٹکر دے رہا ہے۔چینی خلائی ایجنسی ''CNSA‘‘ (چائنا نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن) کا ہدف ہے کہ 2035ء تک چاند پر ایک مستقل انسانی اڈاقائم کر لیا جائے۔ اس منصوبے کے تحت نہ صرف انسانی بستیاں قائم کی جائیں گی بلکہ چاند کو ایک ''ریسرچ اور ایندھن کی پیداوار‘‘ کے مرکز میں بدلا جائے گا۔
چین صرف چاند کی کھوج نہیں کر رہا، بلکہ وہ ایک عالمی سائنسی برادری بھی قائم کر رہا ہے۔ چند ماہ قبل چین نے سات اداروں کو اپنے لائے ہوئے چاندکے نمونوں کے مطالعے کی اجازت دی تھی ۔ یہ ادارے چھ ممالک فرانس، جرمنی، جاپان، پاکستان، برطانیہ اور امریکہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اب تک 17 ممالک اور 50 سے زائد تحقیقاتی مراکز چین کی قیادت میں''انٹرنیشنل لونر ریسرچ سٹیشن‘‘(ILRS) میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ یہ منصوبہ چاند پر سائنسی و تکنیکی تعاون کے سب سے بڑے پلیٹ فارمز میں سے ایک بننے جا رہا ہے۔