دنیا کا سب سے سخت جان جانور ٹارڈیگریڈز
اسپیشل فیچر
یہ سخت اور خطرناک حالات برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں
ٹارڈیگریڈز آٹھ ٹانگوں والے چھوٹے مائیکروسکوپک جاندار ہیں، جو عام طور پر پانی والی جگہوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان کی ناقابلِ یقین بقا کی صلاحیت انہیں دوسرے تمام جانداروں سے منفرد بناتی ہے۔
یہ ننھے پانی میں رہنے والے جاندار پہلی بار 1777ء میں جرمن ماہر حیوانات جوہان آگسٹ ایفریم گوزے (Johann August Ephraim Goeze) نے بیان کیے تھے۔ ان کی ریچھ جیسی شکل نے انہیں ''کلائنر واسر بئیر‘‘ (kleiner Wasserbär) کا نام دیا جس کا مطلب ''چھوٹے پانی کے ریچھ‘‘ ہے۔ بعد میں اطالوی حیاتیات دان لازارو اسپالانزانی (Lazzaro Spallanzani) نے انہیں ''ٹارڈیگریڈ‘‘ یعنی ''آہستہ قدم رکھنے والے‘‘کا نام دیا، کیونکہ ان کی حرکت کچھوے کی طرح سست ہوتی ہے۔
ٹارڈیگریڈز میں 40ہزار تک خلئے پائے جاتے ہیں، حالانکہ ان کا سائز بیکٹیریا جیسے یک خلوی جانداروں کے برابر ہوتا ہے۔ ٹارڈیگریڈز کی 900 سے زائد اقسام دریافت ہو چکی ہیں، جن میں سب سے بڑی قسم ''Echiniscoides sigismundi,‘‘ ہے، جو یوریشیائی پانیوں میں پائی جانے والی ایک سمندری قسم ہے اور بالغ ہونے پر اس کا سائز 1.5 ملی میٹر (0.05 انچ) تک پہنچ جاتا ہے۔
''واٹر بیئرز‘‘ (ٹارڈیگریڈز) دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں۔ انٹارکٹیکا کی برف کے نیچے 5 میٹر (16 فٹ) گہرائی سے لے کرٹروپیکل رین فارسٹ تک وہ مختلف اقسام کے ماحول میں زندہ رہ سکتے ہیں، جیسے سمندر کی تہہ، پہاڑوں کی چوٹیاں، گرم چشمے، یہاں تک کہ آتش فشاں کے اندر بھی۔
حیرت انگیز طور پر، یہ نہایت سخت جان مخلوق تجربہ گاہ میں بغیر خوراک کے 30 سال تک زندہ رہ چکی ہے۔یہ پودوں اور جانوروں کے خلیات، بیکٹیریا اور بعض اوقات دوسرے ٹارڈیگریڈز کو بھی کھاتی ہے۔
اگرچہ یہ انتہائی لچکدار ہوتے ہیں، لیکن فعال رہنے کیلئے ان کے جسم کے گرد پانی کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ خشک ہونے سے بچ سکیں ۔ اسی وجہ سے یہ اکثر ایک باریک آبی تہہ میں رہتے ہیں، مثلاً گیلی کائی یا لچن (lichen) پر۔ٹارڈیگریڈز جن خطرناک حالات میں زندہ بچ سکتے ہیں، ان کی فہرست انسانوں کو حیران کر دیتی ہے۔ یہ حرارت برداشت کرنے والے تمام جانداروں میں سب سے زیادہ سخت جان ہیں۔ 150 ڈگری سینٹی گریڈ (302 ڈگری فارن ہائیٹ) سے زیادہ یامنفی200 ڈگری سینٹی گریڈ (منفی328 ڈگری فارن ہائیٹ) تک کی شدید سردی بھی برداشت کر سکتے ہیں۔
یہ منجمد حالت میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔ برف میں جمنے کی حالت میں کسی ٹارڈیگریڈ کے زندہ رہنے کا سب سے طویل ریکارڈ 32 سال سے زائد ہے۔ یہ ایک جوڑا تھا جو نومبر 1983ء میں منجمد ہوا اور 25 دسمبر 2015 ء کو جاپانی سائنس دانوں نے اسے دوبارہ زندہ کیا۔
ٹارڈیگریڈز وہ دباؤ بھی برداشت کر سکتے ہیں جو سمندر کی سب سے گہری تہوں سے چھ گنا زیادہ ہو، لیکن وہ آکسیجن کی عدم موجودگی اور خلا کے کم دباؤ کو بھی جھیل سکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ خلا میں زندہ رہنے والے سب سے سخت جان جاندار ہیں۔ 2007ء میں سائنس دانوں نے ٹارڈیگریڈز کی دو اقسام کو یورپی خلائی ادارے کے ''فوٹون ایم تھری ‘‘(FOTON-M3) خلائی جہاز میں مدار میں بھیجا، جہاں انہیں خلا کی فضا اور اتنی زیادہ شعاعوں کا سامنا کروایا گیا جو انسان کو جلا سکتی ہیں۔ ان میں سے ایک تہائی جاندار زندہ واپس زمین پر لوٹے اور ان میں سے 10 فیصد نے بعد میں افزائش نسل بھی کی۔ یہ سب وہ کرتے کیسے ہیں؟جب ماحول سخت ہو جائے، مثلاً خشکی کی حالت میں تو ٹارڈیگریڈز ''کریپٹو بائیوسس‘‘ (Crypto biosis) کی حالت میں چلے جاتے ہیں۔ یہ اپنے جسم کو سکیڑ کر ایک چھوٹا سا ڈھکن نما منہ بنا لیتے ہیں جسے ''ٹن‘‘ (tun) کہا جاتا ہے، اور ان کی میٹابولک سرگرمیاں عارضی طور پر رک جاتی ہیں۔ یہ حالت گویا موت جیسی ہوتی ہے، لیکن یہ عمل قابلِ واپسی ہے اور جیسے ہی ماحول بہتر ہوتا ہے، ٹارڈیگریڈز کا میٹابولزم دوبارہ سرگرم ہو جاتا ہے۔
ٹارڈیگریڈز کی یہ صلاحیت انہیں زمین پر ممکنہ طور پر آخری زندہ بچ جانے والے جانداروں میں سے ایک بنا دیتی ہے، چاہے زمین پر موسمیاتی تباہی آئے، نیو کلیئر جنگ ہو یا سورج ختم ہو جائے۔