ہاسٹل میں پڑنا
اسپیشل فیچر
گھر والوں کو یہ سوچنے کی عادت پڑ گئی کہ لڑکے کو کالج میں داخل کرایا جایا لیکن ہاسٹل میں نہ رکھا جائے۔ کالج ضرور مگر ہاسٹل میں ہر گز نہیں۔ کالج مفید، مگر ہاسٹل مضر۔ جب انہوں نے اپنی زندگی کا نصب العین ہی بنا لیا کہ کوئی ایسی ترکیب ہی سوچی جائے، جس سے لڑکا ہاسٹل کی زد سے محفوظ رہے تو کوئی ایسی ترکیب کا سوجھ جانا کیا مشکل تھا۔
ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ از ہد غور و خوض کے بعد لاہور میں ہمارے ایک ماموں دریافت کیے گئے اور ان کو ہمارا سر پرست بنا دیا گیا۔ میرے دل میں ان کی عزت پیدا کرنے کیلئے بہت سے شجروں کی ورق گردانی سے مجھ پر یہ ثابت کیا گیا کہ وہ واقعی میرے ماموں ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ جب میں شیرخوار بچہ تھا تو وہ مجھ سے بے انتہا محبت کیا کرتے تھے، چنانچہ فیصلہ یہ ہوا کہ ہم پڑھیں کالج میں اور رہیں ماموں کے گھر۔
اس سے تحصیل علم کا جو ایک ولولہ سا ہمارے دل میں اٹھ رہا تھا، وہ کچھ بیٹھ سا گیا۔ ہم نے سوچا یہ ماموں لوگ اپنی سر پرستی کے زعم میں والدین سے بھی زیادہ احتیاط برتیں گے، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمارے دماغی اور روحانی قویٰ کو پھلنے پھولنے کا موقع نہ ملے گا اور تعلیم کا اصلی مقصد فوت ہو جائے گا، چنانچے وہی ہوا جس کا ہمیں خوف تھا۔ ہم روز بروز مرجھاتے چلے گئے اور ہمارے دماغ پر پھپھوند سی جمنے لگی۔
سنیما جانے کہ اجازت کبھی کبھار مل جاتی تھی لیکن اس شرط پر کہ بچوں کو بھی ساتھ لیتا جاؤں۔ اس صحبت میں بھلا میں سینماسے کیا اخذ کر سکتا تھا۔ تیرنا ہمیں نہ آیا کیوں کہ ہمارے ماموں کا ایک مشہور قول ہے کہ ''ڈوبتا وہی ہے جو تیراک ہو‘‘جسے تیرنا نہ آتا ہو وہ پانی میں گھستا ہی نہیں۔ گھر آنے جانے والے دوستوں کا انتخاب ماموں کے ہاتھ میں تھا۔ کوٹ کتنا لمبا پہنا جائے اور بال کتنے لمبے رکھے جائیں، ان کے متعلق ہدایات بہت کڑی تھیں۔ ہفتے میں دو بار گھر خط لکھنا ضروری تھا۔ سگریٹ غسل خانے میں چھپ کر پیتے تھے۔ گانے بجانے کی سخت ممانعت تھی۔
یہ سپاہیانا زندگی ہمیں راس نہ آئی۔ یوں تو دوستوں سے ملاقات بھی ہو جاتی تھی، سیر کو بھی چلے جاتے تھے، ہنس بول بھی لیتے تھے لیکن وہ جو زندگی میں ایک آزادی، ایک فراخی، ایک وارفتگی ہونی چاہئیے وہ ہمیں نصیب نہ ہوئی۔ رفتہ رفتہ ہم نے اپنے ماحول پہ غور کرنا شروع کیا کہ ماموں جان عموماً کس وقت گھر میں ہوتے ہیں، کس وقت باہر جاتے ہیں، کس کمرے میں سے کس کمرے تک گانے کی آواز نہیں پہنچ سکتی، کس دروازے سے کمرے کے کس کونے میں جھانکنا ناممکن ہے، گھر کا کون سا دروازہ رات کے وقت باہر کھولا جا سکتا ہے، کون سا ملازم موافق ہے، کون سا نمک حلال ہے۔
جب تجربے اور مطالعے سے ان باتوں کا اچھی طرح اندازہ ہو گیا تو ہم نے اس زندگی میں بھی نشو و نما کیلئے چند گنجائشیں پیدا کر لیں لیکن پھر بھی ہم روز دیکھتے تھے کہ ہاسٹل میں رہنے والے طلبہ کس طرح اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر زندگی کی شاہراہ پر چل رہے ہیں۔ ہم ان کی زندگی پر رشک کرنے لگے۔ اپنی زندگی کو سدھارنے کی خواہش ہمارے دل میں روز بروز بڑھتی گئی۔ ہم نے دل سے کہا، والدین کی نہ فرمانی کسی مذہب میں جائز نہیں لیکن ان کی خدمت میں درخواست کرنا، ان کے سامنے اپنی ناقص رائے کا اظہار کرنا، ان کو صحیح واقعات سے آگاہ کرنا میرا فرض ہے اور دنیا کی کوئی طاقت مجھے اپنی ادائیگی سے باز نہیں رکھ سکتی۔
چنانچہ جب گرمیوں کی تعطیلات میں، میں وطن کو واپس گیا، چند مختصرمگر جامع اور موثر تقریریں اپنے دماغ میں تیار رکھیں۔ گھر والوں کو ہاسٹل پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ وہاں کی آزادی نو جوانوں کیلئے از حد مضر ہوتی ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کیلئے ہزار ہا واقعا ت ایسے تصنیف کئے جن سے ہاسٹل کے قوائد کی سختی ان پر اچھی طرح روشن ہو جائے۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب کے ظلم تشدد کی چند مثالیں، رقت انگیز پیرایے میں سنائیں۔ آنکھیں بند کر کے ایک آہ بھری اوربے چارے اشفاق کا واقعہ بیان کیا کہ ایک دن شام کے وقت بے چارہ ہاسٹل کو واپس آرہا تھا۔ چلتے چلتے پاوں میں موچ آ گئی۔ دو منٹ دیر سے پہنچا۔ صرف دو منٹ۔ بس صاحب اس پر سپرنٹنڈنٹ صاحب نے فوراً تار دے کر اس کے والد کو بلوا لیا۔ پولیس سے تحقیقات کرنے کو کہا اور مہینے بھر کیلئے اس کا جیب خرچ بند کر دیا۔ توبہ ہے الٰہی!
لیکن یہ واقعہ سن کر گھر کے لوگ سپرنٹنڈنٹ صاحب کے مخالف ہو گئے۔ ہاسٹل کی خوبی ان پر واضح نہ ہوئی۔ پھر ایک دن موقع پا کر بے چارے محمود کا واقعہ بیان کیا کہ ایک دفعہ شامت اعمال بے چارہ سنیما دیکھنے چلا گیا۔ قصور اس سے یہ ہوا کہ ایک روپے والے درجے میں جانے کے بجائے وہ دو روپے والے درجے میں چلا گیا۔ بس اتنی سی فضول خرچی پر اسے عمر بھر سنیما جانے کی ممانعت ہو گئی ہے۔لیکن اس سے بھی گھر والے متاثر نہ ہوئے۔ انھیں نا کام کوششوں میں تعطیلات گزر گئیں اور ہم نے پھر ماموں کی چوکھٹ پر آ کر سجدہ کیا۔