طنزومزاح سسرالی رشتہ دار
اسپیشل فیچر
میں ایک داماد ہوں اور میں نے جلدبازی سے کام لے کر شادی کے معاملے میں صرف بیوی کے سلسلے میں تو ضروری تحقیقات کرلی تھیں کہ کیا عمر ہے، صحت کیسی ہے، صورت و شکل کا کیا عالم ہے، تعلیمی استعداد کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ مگر اب سرپر ہاتھ رکھ کر رونا پڑتا ہے کہ یہ کیوں نہ پوچھا تھا کہ ان میں کتنی خالائیں، کتنی نانیاں، دادیاں، چچیاں، تائیاں، بہنیں اور بھاوجیں ہیں۔ اور کتنے اسی قسم کے مرد رشتہ دار ہیں، اور ان رشتہ داروں کے کتنے ایسے رشتہ دار ہیں جن کو جبراً اپنا رشتہ دار سمجھنا پڑے گا۔ اور کتنے ایسے عزیز ہیں جن کو اخلاقاً عزیز ماننا پڑے گا۔ پھر ان کے بعد ان عزیزوں کی باری آتی ہے جن کو انتظاماً عزیز کہا جاتا ہے۔ پھر انتقاماً عزیز بن جانے والوں کی باری آتی ہے۔ اور آخر میں جغرافیائی رشتہ دار آتے ہیں، مثلاً خالہ، ہمسائی، اور چچا پڑوسی وغیرہ، اس کی تحقیقات نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب۔
دل غریب ادھر ہے ادھر زمانہ ہے
ایک سے ایک سسرالی رشتہ دار روز دیکھ لیجیے جو محبت چھڑکنے دھرا ہوا ہے۔ غریب خانے پر دفتر سے تھکے ہارے بھوکے پیاسے دماغ کا عرق نکلوائے ہوئے سکون کی تلاش میں گھر پہنچے ہیں، کہ دیکھتے کیا ہیں، میٹھے پانی کی بوتلیں بھقابھق کھل رہی ہیں، مرغ ذبح ہو رہا ہے، خانساماں باورچی خانہ میں پتیلیوں سے ورزش کر رہا ہے۔ اور اندر سے ایسے قہقہوں کی آوازیں آرہی ہیں گویا کوئی بے چارہ آسیبی خلل میں مبتلا ہے۔ کسی ملازم سے پوچھا کہ یہ گھر کس کے نام الاٹ ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ بیگم صاحبہ کے کوئی پھوپھا معہ اہل و عیال تشریف لائے ہیں۔ جل تو جلال تو۔۔۔ صاحب کمال تو، آئی بلا کو ٹال تو۔ کا وظیفہ پڑھتے ہوئے جو گھر میں داخل ہوئے تو بیگم صاحبہ خوشی سے بدحواس دوڑی ہوئی تشریف لائیں۔ ارے آپ کو خبر بھی ہے کون آیا ہے۔ پھوپھا میاں۔ پھوپھی۔ نجو۔ جگنو۔ چھمی۔ لاڈو۔ رانی۔ آئیے نا آپ نے تو دیکھا بھی نہ ہوگا ان سب کو۔ بڑا انتظار کر رہے ہیں سب آپ کا۔ عرض کیا۔ کچھ بتائیے تو سہی یہ کون پھوپھا تصنیف کرلیے آج وہ جو پرسوں آئے تھے۔ وہ بھی تو پھوپھا تھے۔ احمق سمجھ کر مسکرائیں۔ ارے وہ تو ذرا دور کے پھوپھا تھے۔ یہ ان سے ذرا قریب کے پھوپھا ہیں۔
ابا جان کی رشتہ میں خالہ زاد بہن کی سگی نند ہیں۔ یہ تو ہماری شادی میں نہ آسکی تھیں۔ پھوپھا میاں بیچارے پر ایک جھوٹا مقدمہ چل گیا تھا ان دنوں، مطلب یہ ہے کہ اب آئے ہیں یہ لوگ، بڑی محبت کے لوگ ہیں آپ بہت خوش ہوں گے۔ چلیے میں چائے لگواتی ہوں سب کے ساتھ آپ بھی پی لیجیے۔
اب جو ہم ذرا ان کے قریب پھوپھا کے پاس پہنچے تو جی چاہا کہ ان سے مزاج پوچھنے کے بجائے گھی کا بھاؤ پوچھ لیں۔ چڑھی ہوئی داڑھی۔ بڑا سا پگڑ۔ خوفناک آنکھیں، پہاڑ کا پہاڑ انسان۔ ہماری شادی کے زمانے میں اس شخص پر جھوٹا نہیں بلکہ ڈکیتی کا سچا مقدمہ چل رہا ہوگا۔ آنکھیں چار ہوتے ہی ڈر کے مارے عرض کیا۔ السلام علیکم۔ وہ حضرت ایک دم سے وعلیکم السلام کا بم رسید کرکے حملہ آور ہوگئے اور اس زور سے مصافحہ فرمایا ہے کہ بھتیجی کا سہاگ ٹمٹما کر رہ گیا۔ ابھی ان حضرت سے زور کر ہی رہے تھے کہ ان کی اہلیہ محترمہ بلائیں لینے کو جو آگے بڑھی ہیں تو بیساختہ کلمہ شہادت زبان پر آگیا کہ اس سے بڑی سعادت اور کیا ہے کہ مرنے سے پہلے کلمہ پڑھ سکے آدمی۔ مگر یہ محترمہ یعنی۔ یکے از خوشدامن دعائیں دیتی ہوئی ہٹ گئیں۔ اب جو نظر پڑتی ہے تو ان کے ایک صاحبزادے ہمارا ٹینس کا بلاّ لئے ایک سڈول قسم کے پتھر سے کھیل رہے ہیں اور ہم پر وہ وقت پڑا ہے کہ ہم ان سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ وہ بلا ہے جس سے ہم کو لان ٹینس چیمپئن شپ کے میچ کھیلنا ہیں۔ ٹینس کے اس بلے پر فاتحہ بھی پڑھنے نہ پائے تھے کہ ایک نہایت گھناؤنی سی صاحبزادی ایک اس ہاتھ میں اور ایک اس ہاتھ میں دو پیپرویٹ لیے ہوئے نظر آئیں جو ظاہر ہے کہ لکھنے کی میز سے اٹھائے گئے ہوں گے۔ لپک کر لکھنے کی میز کی جو دیکھتے ہیں۔ تو وہاں روشنائی کا سیلاب آچکا ہے اور اکثر ضروری کاغذات روشنائی میں ڈوب کر خشک بھی ہوچکے تھے۔ ابھی رونے کا ارادہ ہی کر رہے تھے کہ ڈریسنگ ٹیبل پر زلزلہ سا آگیا۔چھوٹی بڑی شیشیاں آپس میں ٹکرانے لگیں اور ایک آدھ گر بھی گئی۔ دیکھتے کیا ہیں کہ ایک برخوردار اس کے نیچے سے برآمد ہورہے ہیں۔
جی چاہا کہ سرپیٹ لیں، مگر بیگم نے باہر ہی سے آوازدی کہ چائے لگ گئی ہے۔ لہٰذا خون کے گھونٹ پیتے ہوئے چائے کی اس میز پر آگئے جو مہاجرین کا کیمپ بنی ہوئی تھی۔