بکھرا گھر ذہنی دبائو کا سبب؟
اسپیشل فیچر
بے ترتیبی پر مبنی گھر تشویشناک ذہنی بیماری کو جنم دے سکتا ہے
گھریلو بے ترتیبی اور بکھراہوا سامان اکثر ہمیں معمولی مسئلہ لگتا ہے، لیکن ماہرین نفسیات خبردار کرتے ہیں کہ یہ عادت ذہنی صحت کیلئے نہایت نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک بے ترتیب اور غیر منظم گھر انسان کے اعصاب پر دباؤ ڈالتا ہے، جس کے نتیجے میں اضطراب، ڈپریشن اور دیگر ذہنی امراض پیدا ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، ایک منظم اور صاف ستھرا ماحول نہ صرف جسمانی سکون کا باعث بنتا ہے بلکہ ذہنی آسودگی اور مثبت طرزِ زندگی کی ضمانت بھی فراہم کرتا ہے۔
برطانوی ماہر نفسیات ڈاکٹر کیٹی بارج کا کہنا ہے کہ پرانا مقولہ ''صاف ستھرا گھر، سکون بھرا ذہن‘‘ محض ایک قول نہیں بلکہ تحقیق سے ثابت شدہ حقیقت ہے۔ یہ اثر خاص طور پر خواتین، ذہنی امراض میں مبتلا افراد اور اے ڈی ایچ ڈی کے مریضوں میں زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ جتنا انسان دباؤ اور اضطراب کا شکار ہوگا، اتنا ہی اس کا گھر بے ترتیبی کا شکار ہوگا، اور یہی بکھراہوا سامان اس کے ذہنی دباؤ کو مزید بڑھائے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ بے ترتیبی کو ''بصری شور‘‘ کے طور پر لیتا ہے، جس کی وجہ سے توجہ مرکوز کرنا اور سکون حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بکھرا ہوا سامان انسان کو تھکا دیتا ہے اور فیصلہ سازی کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے۔ اکثر لوگ یہ سوچنے کے بجائے کہ ''اب میرا اگلا کام کیا ہے؟‘‘ اس کشمکش میں پڑے رہتے ہیں کہ ''کیا پہلے مجھے یہ بکھراؤ ختم کرنا ہے؟‘‘
اکثر گھروں کو عجائب گھر سے تشبیہ دی جا سکتی ہے، جہاں تحائف، کم استعمال ہونے والے کپڑے اور بے ربط اشیاء سے بھری درازیں موجود ہوتی ہیں۔ بظاہر یہ سامان ماضی کی خوشگوار یادوں کو تازہ کرتا ہے، مگر ماہرین کے مطابق ضرورت سے زیادہ بکھرا سامان صحت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ڈاکٹر بارج کا کہنا ہے کہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب گھر کی بے ترتیبی دماغ پر اس قدر بوجھ ڈال دیتی ہے کہ انسان یہ طے ہی نہیں کر پاتا کہ صفائی کہاں سے شروع کرے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیاکی ایک تحقیق کے مطابق بکھرے ہوئے گھروں اور تناؤ پیدا کرنے والے ہارمون ''کورٹیسول‘‘ (cortisol) کی بلند سطحوں کے درمیان براہِ راست تعلق پایا گیا ہے۔ تحقیق کے مطابق، گندے اور بکھرے ہوئے گھروں میں رہنے والی خواتین نسبتاً صاف ستھرے ماحول میں رہنے والی خواتین کے مقابلے میں زیادہ کورٹیسول پیدا کرتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گھروں میں سامان کے ڈھیر لگنے کی کئی وجوہات ہیں۔ کبھی یہ جذباتی وابستگی کا نتیجہ ہوتا ہے، کبھی غیر استعمال شدہ اشیاء پر خرچ ہونے والی رقم کا احساسِ جرم اور کبھی اس بے بنیاد امید کا کہ یہ چیزیں شاید مستقبل میں کام آئیں گی۔خاندانوں کو اضافی مشکلات بھی درپیش رہتی ہیں کیونکہ بچے اس تیزی سے بڑے ہو جاتے ہیں کہ ان کے کھلونے اور ملبوسات استعمال ہی نہیں ہو پاتے ۔ نتیجتاً گھروں میں مزید بے ترتیبی بڑھ جاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق گھروں میں موجود بکھراؤ صرف فرد تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ نسلوں تک منتقل بھی ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر بارج کہتی ہیںاگر ہم بکھرے ہوئے گھروں میں بڑے ہوئے ہیں تو زیادہ امکان ہے کہ ہمارا اپنا گھر بھی بکھرا ہوا ہو گا۔انگرڈ جانسن (Ingrid Jansen)کے مطابق:بکھرے ہوئے ماحول میں جینا دراصل ہر روز سیکڑوں چھوٹے فیصلے کرنے کے مترادف ہے۔ یہ چیز کہاں ہے؟ کیا مجھے اس کی ضرورت ہے؟ اس کے ساتھ کیا کرنا چاہیے؟ یہ عمل ذہنی طور پر تھکا دینے والا ہوتا ہے۔ پرانی اشیاء،جیسے کپڑے، کتابیں یا سجاوٹی سامان کو سنبھال کر رکھنا اکثر لوگوں کو ان کی ماضی کی شکلوں سے جوڑے رکھتا ہے۔ یادوں کو زندہ رکھنے کے بجائے یہ سامان انسان پر بوجھ بن جاتا ہے اور اسے آگے بڑھنے سے روک دیتا ہے۔
ایک صاف اور منظم گھر نہ صرف آنکھوں کو بھلا لگتا ہے بلکہ ذہن و دماغ پر بھی مثبت اثرات ڈالتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، گھر کی ترتیب اور صفائی کو معمول کا حصہ بنا کر ذہنی صحت کے بڑے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔