قلعہ ملوٹ

قلعہ ملوٹ

اسپیشل فیچر

تحریر :


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

کوہستان نمک اور پوٹھوہار میں لاتعداد چھوٹے اور بڑے قلعے ہیں ان قلعوں میں حکمرانوں کی قسمت کے فیصلے ہوتے رہے ہیں مقامی حکمران یہ قلعے پہاڑیوں کی چوٹیوں پر تعمیر کرکے اپنے آپ کو کسی حد تک حملہ آوروں سے محفوظ خیال کیا کرتے۔ یہ قلعے تراشے ہوئے پتھروں سے تعمیر کیے گئے ہیں۔ اس دور میں انسان کتنا جفاکش اور مضبوط جسم کامالک ہوتا تھا۔ بلند سے بلند پہاڑ پر تعمیرات کا سامان لے کر چڑھ جاتا، کوہستان نمک کے ایسے ہی قلعوں میں قلعہ ملوٹ اور اس کے مندر کسی حد تک صحیح حالت میں ہیں۔ کلرکہار سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر چواسیدن شاہ، کٹاس روڈ پر جلیبی چوک سے ایک سڑک ملوٹ گائوں کی طرف جاتی ہے۔ جلیبی چوک سے ملوٹ تقریباً چودہ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔قلعہ ملوٹ اور مندر کے لیے کوئی راستہ نہیں۔ ہر طرف قلعہ کے تراشے ہوئے پتھر بکھرے پڑے ہیں ملوٹ گائوں سے تقریباً ڈیڑھ دو کلو میٹر کے فاصلے پر پہاڑ کے عین چوٹی پر قلعہ اور مندر تعمیر کیے گئے ہیں مندر تعداد میں دو ہیں مغرب کی جانب مندر صحیح حالت میں ہے دوسرے مندر کے نقش و نگار صحیح حالت میں ہیں۔ سرخ پتھر تراش کر چاروں اطراف خوبصورتی پیدا کی گئی ہے۔ یہ مندر تقریباً چھ سات فٹ بلند چبوترے پر تعمیر کیے گئے ہیں چاروں کونوں پر پتھروں کو تراش کر مینار تعمیر کیے گئے ہیں دیواروں پر مورتیاں بنائی گئی ہیں مورتیوں کے نیچے چھوٹی مورتیاں شیر اور دوسرے جانوروں کی شکلیں بنائی گئی ہیں۔ یہ فن سنگ تراشی کا بہترین نمونہ ہیں۔ پتھروں کی تراش اور صفائی اپنی مثال آپ ہے یہ مندر جو کشمیری اسلوب تعمیر کا نمونہ ہے اس میں ریتلا پتھر استعمال ہوا ہے جو موسم کے اثرات سے متاثر ہوتا ہے چنانچہ سنگ تراشی کے نمونے ریتلا پتھر ہونے کی وجہ سے ختم ہو رہے ہیں۔ اس کے بارے میں جنرل کنگھم کا کہنا ہے کہ یہ مندر اندر کی طرف 18 مربع فٹ تھا مشرق کی طرف دروازے کے قریب ایک محرابی شکل کی عمارت تھی، باہر کی طرف چاروں کونے سجائے گئے تھے اور ایسے محراب جن پر آرائش و تزئین کی گئی تھی ہر مینارے پر دو زانوں شکل نظر آتی تھی۔ چبوترے کے ارد گرد نقوش کے آثار ملتے ہیں اس کا مجموعی تاثر شاندار اور خوبصورت ہے البتہ زمانے نے اس کے قدیم حسن کو مجروح کر دیا ہے۔ اس کی بلندی 350 فٹ تک ہے۔ مندر کا داخلی حصہ سادہ نظر آتا ہے اور اس میں کسی بت کے آثار دکھائی نہیں دیتے روایت ہے کہ اس جگہ شیولنگ نصب تھا اور غالباً یہ روایت صحیح ہے کہ یہ بدھ کا مندر نہیں تھا۔ اس کا دروازہ مندر سے 58 فٹ مشرق کی طرف تھا یہ بڑی بھاری اور مضبوط عمارت ہے 25 فٹx 22 فٹ اس میں دو کمرے8x15 کے ہیں ستون خالص کشمیری فن تعمیر کا نمونہ ہیں کشمیری مندروں کی نسبت ان پر یونانی فنی تعمیر کا زیادہ اثر ہے ستونوں کے ارد گرد نیم دائرے کی وسعت میں ابھرے ہوئے نقش بنے ہیں جو کسی زمانے میں بہت خوبصورت ہوں گے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مندر کو پانڈیوں نے تعمیر کیا تھا اور کشمیر کے مندروں کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے۔ جہاں تک ملوٹ کے وجہ تسمیہ کا تعلق ہے اس سلسلہ میں ایک اساطیری روایت کے مطابق جنجوعہ راجپوتوں کے ایک مورث اعلیٰ کے نام ’’ملودیویا ملو‘‘ کی نسبت سے اس کا نام ملوٹ پڑا لیکن تاریخ راجپوتاں کے مصنف کے مطابق ملوٹ ملک کوٹ کا مخفف ہے۔ اس کے مطابق مسلم سلاطین ملک کا خطاب اس راجہ کو دیتے تھے جو اس کی بالادستی کو قبول کر لیتا تھا اور خودمختار بھی ہوتا تھا اس بیان کی تائید تزک بابری سے بھی ہوتی ہے۔(پاکستان کے آثارِ قدیمہ)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
عظیم مسلم سائنسدان علی بن عیسیٰ امراض چشم کے ماہر

عظیم مسلم سائنسدان علی بن عیسیٰ امراض چشم کے ماہر

علی بن عیسیٰ کا شمار عظیم مسلمان سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ وہ امراض چشم کے ماہرتھے۔ خصوصی مشاہدے، تجربے اور تحقیق کے بعد قوتِ بصارت کو قائم رکھنے نیز آنکھوں کیلئے مفید ترین دوائیں، مناسب غذائیں اور پرہیز تجویز کرکے ان کی مکمل فہرست بنا کر پیش کرنے والا، آنکھوں کے امراض اور اسباب و علامات پر بحث کرنے والا، آنکھوں کی حفاظت اور احتیاط کے طریقے بیان کرنے والا ایک ضخیم اور مکمل کتاب کا مصنف اور طبیب حاذق۔ابتدائی زمانہ، علمی خدمات اور کارنامےقابل ترین اور باصلاحیت حکما میں وہ سائنسداں جنہوں نے خاموشی کے ساتھ علمی اور فنی کام کئے ان میں علی بن عیسیٰ بھی ہے۔ بغداد میں اس دانشور نے گوشۂ گمنامی میں زندگی گزاری۔ اس کی زندگی کے حالات سے کتابیں خاموش ہیں لیکن اس کے تحقیقی کام ہمارے سامنے ہیں۔ علی بن عیسیٰ عباسی خلیفہ قائم باللہ کے عہد کا ایک ماہرِ امراض چشم تھا۔علی بن عیسیٰ نے اجزائے جسم میں صرف آنکھ کو منتخب کیا اور جسم کے اس نازک ترین لیکن اہم ترین حصے پر تحقیقی کام کئے۔ اس نے آنکھ کے امراض پر زبردست تحقیقات کیں اور پھر اپنے جملہ ذاتی تجربات اور مشاہدات اور نظریات اپنی ضخیم اور معیاری کتاب تذکرۃ الکحلین میں جمع کردیں۔ ہم یہاں تذکرہ الکحلین سے کچھ معلوم پیش کرتے ہیں۔تذکرہ الکحلین نہایت مفصل اور ضخیم کتاب ہے گویا یہ انسانی آنکھ کی انسائیکلوپیڈیا ہے۔ اس کی تین جلدیں ہیں، کتاب کا بڑا حصہ امراض چشم کے اس ماہر ڈاکٹر کے ذاتی تجربات اور مشاہدات پر مبنی ہے۔آنکھ کا ماہر سرجن:علی بن عیسیٰ ایک ماہر کی طرح اپنی معلومات پیش کرتا ہے۔ اس کی کتاب تذکرہ الکحلین کی پہلی جلد میں آنکھ کے حصوں کی مفصل تشریح اور منافع اعضاء یعنی ہر جزو اور ہر حصے کو بیان کیا ہے اور اس کے فوائد بتائے ہیں جس کو انگریزی میں اناٹومی اور فزیالوجی کہتے ہیں۔ اس ماہر سرجن نیخ آنکھ کی بناوٹ پتلی، حصے، روشنی سب پر سیر حاصل بحث کی ہے۔دوسری جلد میں آنکھ کی ان بیماریوں کا علاج ہے جو ظاہری طور پر نظر آ جاتی ہیں علی بن عیسیٰ نے آنکھ کی جملہ ظاہری بیماریوں کا بتایا، اسباب اور علامات تفصیل سے لکھے اور مکمل بحث کی۔تذکرۃ الکحلین کی تیسری جلد نہایت اہم ہے۔ اس میں آنکھ کے ان جملہ امراض کو تفصل سے بیان کیا ہے جو آنکھ کے اندرونی حصوں میں کہیں پیدا ہو جاتے ہیں اور جن سے آنکھ کو نقصان پہنچتا ہے یا آئندہ کبھی پہنچ سکتا ہے۔ لیکن باہر سے دیکھنے میں کچھ پتا نہیں چلتا۔تذکرہ الکحلین یا آنکھ کی انسائیکلو پیڈیاکتاب تذکرہ الکحلین آنکھ سے متعلق ایک جامع کتاب ہے اسے انسائیکلوپیڈیا کا درجہ حاصل ہے۔ اس میں آنکھ سے متعلق جملہ معلومات بڑی تحقیق کے ساتھ جمع کر دی گئی ہیں۔ آنکھ کے تحفظ اور احتیاط کو بتایا گیا ہے، آنکھ کی روشنی اور قوت بصارت کو قائم رکھنے کے طریقے بیان کئے گئے ہیں۔اس کتاب میں امراض چشم پر بحث بڑی تفصیل اور تحقیق سے کی گئی ہے۔ یہ کتاب امراض چشم پر ضخیم اور معیاری ہے اس میں آنکھ سے متعلق جملہ مسائل پر نہایت عمدہ بحث ہے اور کم و بیش آنکھ کی ایک سو تیس بیماریوں کا ذکر ہے اور تفصیل سے ان کے اسباب اور ان کی علامتوں کو بتایا گیا ہے۔کتاب میں 143 ایسی دوائوں اور جڑی بوٹیوں کے نام، ان کی پہچان، ان کے خواص اور اثرات اور فوائد بیان کئے گئے ہیں جو آنکھوں کیلئے مفید ہیں اور ان کو آنکھ کے امراض اور شکایتوں کے سلسلے میں استعمال کیا جاتا ہے یا کیا جا سکتا ہے۔کتاب کے ایک حصے میں احتیاط اور پرہیزی غذائوں کا بھی مفصل بیان ہے۔ آنکھ کے مریضوں کیلئے جو غذائیں مفید اور اچھی ہیں ان کو بتایا گیا ہے اور جن غذائوں سے نقصان ہوتا ہے یا نقصان اور تکلیف کا اندیشہ ہے ان کو بھی لکھ دیا ہے۔ غذا پر اس ماہر مصنف نے اچھی بحث کی ہے اور مفید معلومات کا ذخیرہ پیش کردیا ہے۔علی بن عیسیٰ آنکھ کاا یک زبردست معالج تھا۔ اس نے دوائوں کے ذریعے امراض کا علاج کیا اور اس فن میں وہ ماہر تھا، اس نے دوائوں کے ذریعے علاج کو ترجیح دی۔ آپریشن کے ذریعے کسی مرض کا دور کرنا اور آنکھ کا آپریشن کرنا اس کے طریق علاج سے باہر تھا۔تذکرۃ الکحلین یورپ میںآنکھ کے سلسلے میں یہ کتاب مفصل، معیاری اور مستند تسلیم کی گئی۔ اس فن میں یہ دوسری قابل ِذکر کتاب ہے۔ 1499ء میںاس کتاب کا ترجمہ لاطینی زبان میںشائع ہوااور یورپ کے ڈاکٹروں نے اس کی اہمیت کو سمجھا۔ دورِ جدید کے دانشوروں نے اسے جب غور سے پڑھا تو اس کی افادیت کا احساس ہوا ۔ 1903ء میں اس کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ شائع ہوا۔اس کے بعد اس مفید ترین کتاب کو 1904ء میں جرمن زبان کے قالب میں ڈھالا گیا۔ 

موسم بہار

موسم بہار

بہار کا موسم نہ صرف پھولوں اور خوشبوؤں کا موسم ہے بلکہ اس کے پیچھے کئی دلچسپ اور عجیب حقائق بھی چھپے ہیں۔ آئیے کچھ انوکھی رسومات اور حقائق کے بارے جانتے ہیں۔ بہارSpringکیسے ہوئی؟اس موسم کو انگریزی میں Spring اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب پودے زمین سے اچانک(Spring forth) باہر نکلتے ہیں۔ یہ اصطلاح 16ویں صدی میں عام ہوئی۔اس سے پہلے اسےLent یا ''نئی کلیوں کا موسم‘‘ کہا جاتا تھا۔بہاریہ اعتدال (Vernal Equinox)اور علمِ فلکیات بہار کے پہلے دن (20-23 مارچ) کو Vernal equinoxکہا جاتا ہے جب سورج بالکل خطِ استوا کے اوپر ہوتا ہے۔ اس وقت دن اور رات تقریباً برابر ہوتے ہیں۔ قدیم مصریوں کا عقیدہ تھا کہ اس دن ابوالہول کا مجسمہ سورج کی سمت میں مکمل طور پر سیدھ میں ہوتا ہے۔جاپان میں چیری بلاسم کا جنون جاپان میں ساکورا (چیری بلاسم) کے پھول کو بہار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جاپانی موسمیات کے محکمے پھول کھلنے کی پیشگوئی کرتے ہیں اور لوگ ''ہنامی‘‘(پھول بینی) کے لیے پارکوں میں جمع ہوتے ہیں۔ ایک درخت کے پھول صرف سات دن تک کھلتے ہیں۔جانوروں پر بہار کا جادو بہار میں جانوروں کے رویے بھی بدل جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر پرندے 20 ہزار کلومیٹر تک کا ہجرتی سفر کرتے ہیں۔ کچھ ممالیہ جانور (جیسے ریچھ) ہائیبرنیشن سے جاگتے ہیں کیونکہ دن لمبے ہونے سے ان کے جسم میں میلاٹونن ہارمون کم ہو جاتا ہے۔انڈے کا توازن؟ ایک مشہور myth یہ ہے کہ Vernal equinox کے دن انڈے کو عمودی طور پر کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کسی بھی دن ممکن ہے، بس صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ اعتدال کی کششِ ثقل سے نہیں بلکہ انڈے کے خول کی سطح کی ہمواری سے تعلق رکھتا ہے۔بہار اور آئس کریم کا تعلق قدیم فارس (ایران) میں بہار کے موسم میں برف اور پھلوں کے شربت کو ملا کر ایک ٹریٹ بنایا جاتا تھا جو آئس کریم کی ابتدائی شکل سمجھا جاتا ہے۔دنیا کے الٹے موسم جب شمالی نصف کرہ میں بہار ہوتی ہے، تو جنوبی نصف کرہ (جیسے آسٹریلیا، ارجنٹائن) میں خزاں کا موسم ہوتا ہے۔بہار اور انسانی موڈ سورج کی روشنی میں اضافہ انسانی دماغ میں سیروٹونن (خوشی کا ہارمون) بڑھاتا ہے جس سے لوگ زیادہ متحرک اور خوش نظر آتے ہیں۔ قدیم رومی اسے ورنا لٹرجیا(بہار کی دیوانگی) کہتے تھے۔بہار اور الرجی کا تعلق کیا آپ جانتے ہیں کہ بہار میں نکلنے والے پولن صرف پھولدار پودوں سے نہیں بلکہ زیادہ تر درختوں (جیسے دیودار، چیڑ) اور گھاس سے آتے ہیں۔ دنیا بھر میں 10سے 30 فیصدلوگ پولن الرجی (Hay fever) کا شکار ہوتے ہیں۔دنیا کی بہاریہ رسومات ٭ہولی (بھارت): رنگوں کا تہوار جہاں لوگ ایک دوسرے پر رنگ پھینکتے ہیں۔ ٭کوپرز ہِل چیڑولنگ (انگلینڈ): ایک پہاڑی سے پنیر کا ڈھیر لڑھکایا جاتا ہے اور لوگ اس کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ ٭سونگکران (تھائی لینڈ):دنیا کا سب سے بڑا پانی کا تہوار جہاں لوگ ایک دوسرے پر پانی پھینکتے ہیں۔   

رمضان کے پکوان: جنجرلائم فز

رمضان کے پکوان: جنجرلائم فز

یہ مشروب ان لوگوں کے لیے ہے جو صحت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ادرک پیٹ پھولنے اور گیس کا عارضی علاج ہے۔ترکیب: یہ مشروب صرف تین اجزا سے بنتا ہے، یعنی ادرک کا جوس، پروفیشنل لائم سیزننگ پاؤڈر اور پانی۔ یہ ملاپ ذائقہ اور پیٹ دونوں کے لیے آئیڈیل ہے۔خوریشی فسنجان اجزاء:چکن ایک عدد، وزن ڈیڑھ کلو( صاف کرواکے ثابت رکھیں اور کٹ لگوالیں)،کالی مرچ کٹی ہوئی آدھا کھانے کا چمچ،پیاز ایک بڑی سائز کی ( باریک کٹی ہوئی)،اخروٹ گری باریک پسی ہوئی آدھی پیالی ،انار کا جوس ڈیڑھ پیالی ،برائون شکر تین کھانے کے چمچ ،دار چینی کے ٹکڑے دوعدد، نمک حسب ذائقہ ،لیموں کا عرق ایک کھانے کا چمچ، آئل دوکھانے کے چمچترکیب : چکن اچھی طرح سے دھوکر بالکل خشک کرلیں اور نمک لگاکر رکھ دیں۔ ایک بڑے اور ذرا گہرے فرائنگ پین میں بناسپتی گھی گرم کریں، پھر چکن کو برائون تل کر نکال لیں۔ پھر اسی فرائنگ پین میں پیاز ڈال کر ہلکی گلابی کرلیں۔ پھر انار کا جوس، دار چینی کے ٹکڑے، اخروٹ گری، برائون شکر ڈالر کر تھوڑی دیر پکالیں، بالکل ہلکی آنچ کردیں۔ چکن ڈال کر ڈھکن ڈھانک دیں پھر ڈھائی گھنٹے تک پکنے دیں۔ اس دوران دوتین مرتبہ چمچہ ضرور چلائیں ۔ جب بالکل پک جائے تو چکن کو ایک ڈش میں رکھیں، اوپر سے بچی ہوئی ساس ڈال دیں، لیموں کاعرق چھڑک دیں، باریک کی ہوئی اخروٹ کی گری ڈال دیں۔ اس کو فوراً ہی گرم گرم چاولوں کے ساتھ پیش کریں۔ 

حکایت سعدیؒ :حسد

حکایت سعدیؒ :حسد

کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے ایک بار کوتوال کے بیٹے کو دیکھا تو ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مترادف، اسے اپنے مصاحبین میں شامل کر لیا۔ یہ نیک فطرت نوجوان دانا بادشاہ کی توقعات کے عین مطابق ثابت ہوا۔ وفا شعاری، دیانت داری اور شرافت میں وہ اپنی مثال آپ تھا۔ جو کام بھی اس کے سپرد کیا جاتا وہ اسے بخیر و خوبی انجام دیتا تھا۔قابلیت اور شرافت کے باعث جہاں بادشاہ کی نظروں میں اس کی قدرو منزلت زیادہ ہوتی چلی جا رہی تھی وہاں حاسدوں کی پریشانیوں اور دکھوں میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ آخر انہوں نے صلاح مشورہ کر کے نوجوان کے سر ایک تہمت دھری اور بادشاہ کے کانوں تک یہ بات پہنچائی کہ حضور جس شخص کو ہر لحاظ سے قابلِ اعتبار خیال فرماتے ہیں وہ حد درجہ بد فطرت اور بدخواہ ہے۔اگرچہ حاسدوں نے یہ سازش بہت خوبی سے تیار کی تھی اور انھیں یقین تھا کہ بادشاہ نوجوان کو قتل کروا دے گا لیکن دانا بادشاہ نے یہ بات محسوس کر لی کہ قصور نوجوان کا نہیں بلکہ حاسدوں کا ہے۔ چنانچہ اس نے نوجوان کو بلایا اور اس سے پوچھا، کیا وجہ سے کہ لوگ تمہارے متعلق خراب رائے رکھتے ہیں۔ نوجوان نے جواب دیا، اس کا باعث اس کے سوا کچھ نہیں کہ حضور اس خاکسار پر نوازش فرماتے ہیں۔ بس یہی بات ان کے لیے باعثِ حسد ہے۔حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں ایک درس یہ دیا ہے کہ انسان میں اگر واقعی کوئی خوبی اور ہنر ہو تو وہ قدر دانی سے محروم نہیں رہتا۔انہوں نے دوسری بات یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر خوش بختی سے کسی کو عروج حاصل ہو تو اسے بد خواہوں اور حاسدوں کی طرف سے لاپروا نہیں رہنا چاہیے۔ حاسد کسی بھی وقت کوئی سازش تیار کر سکتے ہیں لہٰذا چوکنا رہنا لازم ہے۔ تیسری بات یہ کہ اگر کسی کے بارے میں یہ بتایا جائے کہ اس نے فلاں جرائم کیے ہیں تو تحقیق اور سوچ بچار کیے بغیر رائے قائم نہیں کرنی چاہیے۔ کسی بے گناہ کو سزا دینا کسی طور درست نہیں۔ اس لیے حاکموں کوالزامات کی جانچ پڑتال کر لینی چاہیے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

چڑیوں کا عالمی دن20مارچ کو دنیا بھر میں چڑیوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد ماحو لیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے چڑیوں پر ہونے والے اثرات کو اجاگر کرنا اور ان کیلئے بہترین ماحول فراہم کرنا ہے۔اس دن کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنے کیلئے تقریبات منعقد کی جاتی ہیں ۔جیوٹن کے ذریعے سزائے موت 1792ء میں آج کے دن فرانسیسی حکومت نے '' جیوٹن‘‘ نامی دوا کے ذریعے سزائے موت کو قانونی حیثیت دی۔ اس سزائے موت کا نام اس دوا کے مؤجد ڈاکٹر جوزف اگنیس جوئیلوٹن کے نام پر ہی ''جیوٹن‘‘ رکھا گیا۔اس دوا کا پہلی مرتبہ استعمال 25 اپریل 1792ء کو کیا گیا۔ سزائے موت دینے کا یہ طریقہ قدیم وقتوں میں بھی استعمال کیا جاتا تھا ۔ بوسٹن میں 349عمارتیں جل گئیں 1970ء میں آج کے دن امریکی ریاست میسا چوسٹس کے شہر بوسٹن میں بہت بڑی آگ لگی ۔ یہ آگ بوسٹن سے شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے شہر کے ایک بڑے رقبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ا س آگ نے واشنگٹن سٹریٹ اور فورٹ ہل کے درمیان349عمارتوں کو جلا کر راکھ کر دیا۔ارجنٹائن میں زلزلہ20مارچ 1861ء کو ارجنٹائن کے علاقے منڈوزا میں شدید زلزلہ آیا۔ آدھی رات کے قریب آنے والے اس زلزلے کی شدت 7.2 ریکارڈ کی گئی۔اس کا مرکز زمیں سے30کلومیٹر گہرائی میں واقع تھا۔اس زلزلے نے ارجنٹائن کے صوبائی دارالحکومت مینڈوزا کو تباہ و برباد کردیا۔اس زلزلے میں تقریباً 4ہزار شہری ہلاک اور800کے قریب زخمی ہوئے۔ 

چین کی بڑی تین مساجد

چین کی بڑی تین مساجد

نیو جی مسجد، بیجنگ خیال کیا جاتا ہے کہ چین میں اسلام ساتویں صدی میں متعارف ہو چکا تھا تاہم بیجنگ میں پہلی مسجد Tangسلطنت کے دور حکومت میں 996ء میں تعمیر ہوئی جو نیو جی مسجد کہلاتی ہے۔ ٹانگ خاندان کا دور حکمرانی 960ء سے 1279ء تک رہا۔ بیجنگ شہر میں یہ مسجد آکس سٹریٹ پر واقع ہے۔ چینی میں نیو(Niu) کا مطلب ہے بیل یا گائے اور جی (Jie)کا مطلب ہے سٹریٹ۔ اس لئے اس مسجد کا نام نیو جی (Niu Jie)پڑ گیا۔ یہ چین کی سب سے پرانی مسجد ہے۔ آغاز سے لے کر آج تک اس میں مرمت اور تزئین و آرائش کا کام جاری رہا اور آج یہ اپنے خوبصورت رنگ و روغن کی وجہ سے نمایاں ہے۔ اس مسجد کا کل رقبہ ڈیڑھ ایکڑ ہے جبکہ اندرونی رقبہ64600مربع فٹ ہے۔ اس میں ایک ہی وقت میں ایک ہزار نماز نماز ادا کر سکتے ہیں۔ یہ مسجد بیجنگ کے ضلع Xuanwuمیں واقع ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ اس وقت بیجنگ میں مسلمانوں کی تعداد 210,000ہے۔ شمالی چین میں یہ مسلمانوں کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس وقت چین میں 35ہزارمساجد ہیں اور صرف بیجنگ شہر میں چھوٹی بڑی مساجد کی کل تعداد 68ہے۔ نیو جی مسجد 1442ء میں دوبارہ تعمیر کی گئی اور پھر تنگ عہد میں 1696ء میں اس مسجد کے سات سو سال مکمل ہونے پر اس میں توسیع کی گئی۔ اب پانچوں وقت یہاں باقاعدگی سے نماز ادا کی جاتی ہے۔ صبح اور شام کے وقت نمازیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ غیر مسلموں کو یہ تاریخی مسجد دیکھنے کی اجازت ہے لیکن انہیں امام کی اجازت لینا پڑتی ہے لیکن جب مسجد میں نماز جاری ہو تو انہیں اندر آنے کی اجازت نہیں۔ غیر مسلم مرد و خواتین کا مسجد میں داخلے کے وقت مناسب لباس میں ہونا لازمی ہے۔ژیننگ شہر کی مسجدیہ مغربی چین میں صوبہ چنگھائی کا دارالحکومت ہے اس کی آبادی 22لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ قدیم شہر ماضی کی شمالی شاہراہ ریشم پر واقع تھا۔ پہلے یہ صوبہ گانسو کا حصہ تھا۔1928ء میں اسے صوبہ چنگھائی میں شامل کیا گیا۔ یہاںڈونگو آن سٹریٹ میں تاریخی ڈونگو آن مسجد واقع ہے۔ژیننگ میں بدھوں کی مشہور خانقاہ ''تائر‘‘ نامی ہے۔ یہ شہر دریائے ہوانگ شوئی کی وادی میں واقع ہے اور بذریعہ ریل تبت کے صدر مقام لہاسہ اور گانسو کے صدر مقام لانژو، سیان اور شنگھائی سے ملا ہوا ہے۔ ژیننگ سے ستر اسی کلو میٹر مغرب میں چنگھائی نامی ایک بڑی جھیل ہے جس سے صوبے کا نام موسوم ہےکولون مسجد، ہانگ کانگ ہانگ کانگ کی کولون مسجد ان میں سے ایک ہے۔ یہ مسجد ایک اسلامی مرکز بھی ہے۔1896ء میں مقامی مسلمانوں کی دینی ضروریات کے پیش نظر یہ مرکز قائم کیا گیا۔ پھر تقریباً 90سال بعد 1986ء میں مسجد نئے سرے سے تعمیر کی گئی۔ اس میں روزانہ پانچوں وقت کی اذان اور نماز باجماعت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مسجد میں3500نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں یہ ہانگ کانگ میں سب سے بڑی مسجد ہے۔ یہ مسجد ناتھن اور ہے فونگ روڈ کے سنگم پر واقع ہے، اس کے قریب ہی تھوڑے فاصلے پر کولون پارک ہے۔ اس مسجد کی عمارت میں کچھ نقائص اس وقت سامنے آئے جب اس کے زیر زمین (انڈر گرائونڈ) ماس ٹرانزٹ ریلوے بچھائی جانے لگی۔ گو بعد ازاں ماس ٹرانزٹ ریلوے نے معاوضہ ادا کر دیا اور مسلمانوں کے عطیات سے مسجد کی مرمت کر دی گئی مسجد کی دوسری منزل پر بھی نماز ادا کی جا سکتی ہے۔ مسجد کا گنبد بالائی منزل سے 30فٹ بلند ہے اور اس کا قطر 16.5فٹ ہے۔ دوسری منزل کا ایک حصہ خواتین کیلئے مخصوص کیا گیا ہے۔