تحریک پاکستان میں ادیبوں کا کردار
تحریک پاکستان کے حوالے سے اگر شاعروں اور ادیبوں کے کردار پر گفتگو کی جائے تو یہ کوئی آسان موضوع نہیں یہ تفصیل چاہتا ہے اور پھر ان تمام ناموں کا احاطہ کرنا بھی نا ممکن جو کسی نہ کسی شکل میں اپنے خون، جگر سے حرف کی کھیتی سینچتے رہے اور لفظوں میں جان ڈالی کر اس تحریک کو پاکستان نامی ملک پر منتج کیا۔ کیوں کہ 1857 کی جنگ آزادی کی ابتدا کے فوراً بعد ہی قیام پاکستان کی جدو جہد کا آغاز ہوچکا تھا اور اگر چہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں لیکن یہ اردو اور صرف اردو کی ہمہ گیریت اور مقبولیت ہی تھی جس نے غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں میں ئی روح پھونک دی تھی اس پورے تاریخ ساز عہد پر نظر ڈالنے کے بعد کوئی بھی شخص یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا کہ علامہ اقبال ہی دراصل مفکر پاکستان کہلانے کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ علامہ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اس میں مسلمانوں کی حالتِ زار کو بدلنے کے لیے ہمارے قومی رہنا اپنے اپنے طور پر مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو کام میں لارہے تھے مولانا الطاف حسین حالی ہوں یا مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی ہوں یا سرسید احمد خاں سبھی ایک رخ ہوکر سوچ رہے تھے کہ مسلمانوں کو غلامی کے طوق سے کس طرح نکالیں لیکن ان سب زعماء میں سب سے زیادہ کلیدی کردار علامہ کی فکر حرمت نے ادا کیا ہے۔دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاںنہیں ہےکھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگاتمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گیجو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہوگاعلامہ اقبال نے اگر ایک طرف اپنے اذکار سے لبریز شاعری کے ذریعے ملت اسلامیہ کے قافلوں میں اتحاد و یگانگی کی نئی روح پھونکی تو دوسری جانب غیر منقسم ہندوستان کے گوشے گوشے میں گھوم گھوم کر تاریخی جلسوں کے تناظر میں دلوں کو تڑ پانے اور گر مانے کا جتن کیا۔بے خبر تو جو ہرآئینہ ایام ہےتو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہےتری زندگی اُمی سے تری آبرواُسی ہےجورہی خودی تو شاہی نہ رہی جب ہم تحریک پاکستان کے اُس زمانے پر مرحلے نظر ڈالتے ہیں تو کئی ایسے مراحل بھی سامنے آتے ہیں جہاں قائداعظم سے انتہائی عقیدت نے ہر چھوٹے بڑے شاعر سے ایسے نعرے لکھوائے یا ایسی نظمیں کہلوائیں جو بعد میں تاریخ کا حصہ بن گئیں۔ نعروں میں ایک ایسا ہی نعرہ ’’لے کے رہیں گے پاکستان۔ بن کے رہے گا ہندوستان‘‘ اور نظموں میں ایک ایسی ہی نظموں مرحوم کیف بنارسی کی تخلیق تھی جو آج بھی ریڈیو اور ٹی ۔ وی پر ہی نغمگی نہیں بکھیرتی بلکہ ہر ملّی و قومی تقریب میں کورس میں گائی جاتی ہے۔ ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح ’’یہاں یہ کہنا مناسب سمجھوتا ہوں کہ ہم اپنی تاریخ کے اُن ابواب کوٹٹولیں اور اُن پر سے زمانے کی گرد کو صاف کریں تو شاید زنجیر کی کئی انمول ٹوٹی کڑیاں ہمیں مل جائیں اور تحریک پاکستان اپنے سیاق و سباق کے ساتھ ہمیں نظر آجائے۔خوش قسمتی سے مولانا حسر موہانی جیسی با اصول، کھری اور ادبی شخصیت پر ہماری تاریخ خاموش نہیں ہے وہ اپنی انفرادی حیثیت میں جس قدر سادہ اور صاف ستھرے کردار کے مالک تھے اُسی قدر سیاسی طور پر بھی وہ بلند و بالا اور سے سے الگ تھلگ نظر آتے تھے۔ تحریک پاکستان میںایسی پیاری و ہردل عزیز شخصیت دور دور تک نظر نہیں آتی۔ وہ اگر چہ 1904 میں کانگریس میںشامل ہوئے لیکن جلدہی بال گنگادھر تلک کی انتہا پسندی نے انہیںکانگریس چھوڑنے پر مجبور کردیا جس کے بعد علی گڑھ سے ہی انہوںنے ایک ماہنامہ ’’اردوئے معلی‘‘ شائع کیا انہیں اپنے اصولوں سے انتہائی عشق تھا۔ ان کا پہلا امتحان اس وقت ہوا۔جب ایک مصری اخبار میںعربی میںشائع شدہ مضمون کو انہوںنے اردو میں ترجمہ کرکے اپنے اخبار میں شائع کردیا۔ یہ مضمون دراصل مصر میں قائم برطانوی حکومت کے خلاف تھا انگریزی حکومت نے ان سے اس مضمون کے مصنف کا نام دریافت کیا تو انہوںنے بتانے سے صاف انکار کردیا جس کے نتیجے میںانہیں دو سال قید با مشقت اور 500 روپے جرمانے کی سزا دی گئی اس زمانے میں قید کے دوران ان کا کہا گیا یہ شعر آج تک زبان زد عام ہے۔ ہے عشقِ سخن جاری، چکی کی مشقت بھی اک طرفہ تاشا ہے حسرت کی طبیعت بھیقید میں انہیں متعدد مرتبہ متعدد مقامات پر رکھا گیا تھا ایک مرتبہ جب وہ علی گڑھ سے للت پور لے جائے گئے تو ان کی قادر الکلامی نے ان سے یہ شعر کہلوایا۔سر یہ حاضر ہے جو ارشاد ہو مرجانے کو کون ٹالے گا بھلا آپ کے فرمانے کویوں تو مولانا حسرتؔ موہانی کو اُن کی عزلیہ شاعری کی بدولت اُن کی حیات میں ہی ’’رئیس المتغزلین‘‘کا لقب دیا جاچکا تھا لیکن ان کی شاعری نے اس عہد کی تحریک میں اس جادو کا کام دکھاتا جو بڑی بڑی تقریریں کرنہ پائیں۔ ان کا اردوئے معلی ’’مولانا محمد علی جو ہرکے‘‘ کامریڈ( Comrade )اورمولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جو تاریخ میں علی برادران کے ناموں سے مشہور ہوئے اگرچہ خلافت تحریت نے مسلمانوںکے دلوں میں ہلچل مچادی اور اس کا رخ پاکستان کی بنیاد کا سبب بناوہ بنیادی طورپر ایک شاعر اور ادیب تھے اور ایک عرصے سے مسلمانوں کے انگریزی داں طبقے کے لیے ایک انگریزی اخبار کی ضرورت محسوس کررہے تھے اس طرح کا مریڈ کی داغ بیل ڈالی گئی جس کے ادارے آج بھی حوالوں میں وقت پاتے ہیں انہوںنے ہم درد ’’نامی اردو اخبار بھی اُسی زمانے میں شائع کیا جب سرسید احمد خان سیاسی منظر پر آئے۔ آج سابق صدر مشرف کی روشن خیالی کےجن الفاظ نے عوام میں ہلچل پیدا کردی تھی یہ اصطلاح صرف معنوی حد تک نہیں بلکہ سر سید احمد خاں کی عملی جدوجہد کا ایک نعرہ ا س عہد میں بنا جب مسلمان گھرانوں میں انگریزی پڑھنا لکھنا متروک ہوچکا تھا۔یہاں میںعلی گڑھ میں ان کے جدوجہد سے قائم کیےگئے ایم اے او کالج کا ذکر چھپڑوں جو بعد میں مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کا اختصاس حاصل کرچکا اور آج بھی ہندو ستان میں مسلمانوں کا منفرد تعلیمی ادارہ ہے تو بات دور تک چلی جائے گی۔ سرسید احمد خاں نے اسی عہد میںایک اخبار’’ تہذیب الا خلاق‘‘ بھی شائع کیا جس نے مسلم گھرانوںمیں بے داری اور کردار سازی کا کام انجام دیا۔ یہاں میں برسبیل تذکرہ حیدر آباد دکن (بھارت) کی عثمانیہ یونیورسٹی کے کردار کو بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ساتھ جوڑتے ہوئے اگر یہ کہوں کہ ان دونوں یونیورسٹیوں نے پاکستان بننے سے بہت پہلے ہی اس نوزائیدہ ملک کی ضرورت پوری کرنے میں اس بنیادی ڈھانچےکا کام کیا جس پر پاکستان کی عمارت تعمیر کی گئی۔ اس مختصر سی تحریر میں، میں اگر میں نواب بہادر یار جنگ کا ذکر نہ کروں تو یہ ادھوری لکھت بھی مزید نا مکمل رہ جائے گی۔ اپنی علمی استعداد اور شعلہ بیانی کی ماورائی صلاحیت کے پس منظر میں نواب صاحب بہت جلد ہی قائد اعظم کے دست ریاست بن گئے اور اکثر مقامات پر انہوںنے قائداعظم کی انگریزی تقریروں کا فی البدیہہ اردو ترجمہ عوام کی داد و تحسین کے شورمیں پیش کیا ان کے اصل نام محمد بہادر خان کے ساتھ نظام دکن کا دیا ہوا خطاب ’’بہادر یار جنگ‘‘ دراصل اس تاریخی تقریر کا نتیجہ ہے جو انہوںنے سیرت کے ایک جلسے میں فتح میدان میں کی تھی۔ نظامِ دکن اس مقدس جلسے میں موجود تھے انہوںنے تقریر کے کئی حصے دوبارہ ان سے سننے اور پھر اگلے دن یہ خطاب ان کے نام کا لاحق بن گیا۔ وہ بنیادی طورپر ایک شاعر تھے اور اردو ادب سے ان کا لگائو قدرتی تھا ان کی خطیبانہ شعلہ بیانی سے الگ ہٹ کر بھی ہم دیکھیں تو ان کے عشقِ رسولؐ کی تابند گی آپ کو ان کی اس نعت:اے کہ ترے وجود پر خالقِ دو جہاں کو نازاے کہ ترا وجود ہے وجیہہ وجود کائنات میں بدر جہ اتم نظر آئے گی۔ یہ نعت آج بھی ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن کے مختلف چینلوں کے دینی پروگراموں کا اختصاص بنی ہوئی ہے۔ بہرحال بات ہورہی تھی ان کی تقریری صلاحیت کی جو اس دور میں مقبولیت حاصل کرسکی جس دور میں مولانا محمد علی جوہر، سید عطا اللہ بخاری ابو الکلام آزاد اور ڈاکٹر نذیر احمد جیسے نابغہِ روز گار ہستیوں کا طوطی بول رہا تھا۔میں اپنی تجریہ کو محدود وقت کے پیش نظر یہیں ختم کرتا ہوں ورنہ تحریک پاکستان کی جدوجہدمیں شریک ہونے والوں میںمولانا آزاد سبحانی، عبدالباری فرنگی محلی اور ظفر علی خان جیسے ادیبوں کی ایک طویل توجہ طلب فہرست بھی ہنوزتشنہ تحریر ہے۔