تحریک پاکستان میں ادیبوں کا کردار

تحریک پاکستان میں ادیبوں کا کردار

اسپیشل فیچر

تحریر : غالب عرفان


تحریک پاکستان کے حوالے سے اگر شاعروں اور ادیبوں کے کردار پر گفتگو کی جائے تو یہ کوئی آسان موضوع نہیں یہ تفصیل چاہتا ہے اور پھر ان تمام ناموں کا احاطہ کرنا بھی نا ممکن جو کسی نہ کسی شکل میں اپنے خون، جگر سے حرف کی کھیتی سینچتے رہے اور لفظوں میں جان ڈالی کر اس تحریک کو پاکستان نامی ملک پر منتج کیا۔ کیوں کہ 1857 کی جنگ آزادی کی ابتدا کے فوراً بعد ہی قیام پاکستان کی جدو جہد کا آغاز ہوچکا تھا اور اگر چہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں لیکن یہ اردو اور صرف اردو کی ہمہ گیریت اور مقبولیت ہی تھی جس نے غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں میں ئی روح پھونک دی تھی اس پورے تاریخ ساز عہد پر نظر ڈالنے کے بعد کوئی بھی شخص یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا کہ علامہ اقبال ہی دراصل مفکر پاکستان کہلانے کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ علامہ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اس میں مسلمانوں کی حالتِ زار کو بدلنے کے لیے ہمارے قومی رہنا اپنے اپنے طور پر مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو کام میں لارہے تھے مولانا الطاف حسین حالی ہوں یا مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی ہوں یا سرسید احمد خاں سبھی ایک رخ ہوکر سوچ رہے تھے کہ مسلمانوں کو غلامی کے طوق سے کس طرح نکالیں لیکن ان سب زعماء میں سب سے زیادہ کلیدی کردار علامہ کی فکر حرمت نے ادا کیا ہے۔دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاںنہیں ہےکھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگاتمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گیجو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہوگاعلامہ اقبال نے اگر ایک طرف اپنے اذکار سے لبریز شاعری کے ذریعے ملت اسلامیہ کے قافلوں میں اتحاد و یگانگی کی نئی روح پھونکی تو دوسری جانب غیر منقسم ہندوستان کے گوشے گوشے میں گھوم گھوم کر تاریخی جلسوں کے تناظر میں دلوں کو تڑ پانے اور گر مانے کا جتن کیا۔بے خبر تو جو ہرآئینہ ایام ہےتو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہےتری زندگی اُمی سے تری آبرواُسی ہےجورہی خودی تو شاہی نہ رہی جب ہم تحریک پاکستان کے اُس زمانے پر مرحلے نظر ڈالتے ہیں تو کئی ایسے مراحل بھی سامنے آتے ہیں جہاں قائداعظم سے انتہائی عقیدت نے ہر چھوٹے بڑے شاعر سے ایسے نعرے لکھوائے یا ایسی نظمیں کہلوائیں جو بعد میں تاریخ کا حصہ بن گئیں۔ نعروں میں ایک ایسا ہی نعرہ ’’لے کے رہیں گے پاکستان۔ بن کے رہے گا ہندوستان‘‘ اور نظموں میں ایک ایسی ہی نظموں مرحوم کیف بنارسی کی تخلیق تھی جو آج بھی ریڈیو اور ٹی ۔ وی پر ہی نغمگی نہیں بکھیرتی بلکہ ہر ملّی و قومی تقریب میں کورس میں گائی جاتی ہے۔ ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح ’’یہاں یہ کہنا مناسب سمجھوتا ہوں کہ ہم اپنی تاریخ کے اُن ابواب کوٹٹولیں اور اُن پر سے زمانے کی گرد کو صاف کریں تو شاید زنجیر کی کئی انمول ٹوٹی کڑیاں ہمیں مل جائیں اور تحریک پاکستان اپنے سیاق و سباق کے ساتھ ہمیں نظر آجائے۔خوش قسمتی سے مولانا حسر موہانی جیسی با اصول، کھری اور ادبی شخصیت پر ہماری تاریخ خاموش نہیں ہے وہ اپنی انفرادی حیثیت میں جس قدر سادہ اور صاف ستھرے کردار کے مالک تھے اُسی قدر سیاسی طور پر بھی وہ بلند و بالا اور سے سے الگ تھلگ نظر آتے تھے۔ تحریک پاکستان میںایسی پیاری و ہردل عزیز شخصیت دور دور تک نظر نہیں آتی۔ وہ اگر چہ 1904 میں کانگریس میںشامل ہوئے لیکن جلدہی بال گنگادھر تلک کی انتہا پسندی نے انہیںکانگریس چھوڑنے پر مجبور کردیا جس کے بعد علی گڑھ سے ہی انہوںنے ایک ماہنامہ ’’اردوئے معلی‘‘ شائع کیا انہیں اپنے اصولوں سے انتہائی عشق تھا۔ ان کا پہلا امتحان اس وقت ہوا۔جب ایک مصری اخبار میںعربی میںشائع شدہ مضمون کو انہوںنے اردو میں ترجمہ کرکے اپنے اخبار میں شائع کردیا۔ یہ مضمون دراصل مصر میں قائم برطانوی حکومت کے خلاف تھا انگریزی حکومت نے ان سے اس مضمون کے مصنف کا نام دریافت کیا تو انہوںنے بتانے سے صاف انکار کردیا جس کے نتیجے میںانہیں دو سال قید با مشقت اور 500 روپے جرمانے کی سزا دی گئی اس زمانے میں قید کے دوران ان کا کہا گیا یہ شعر آج تک زبان زد عام ہے۔ ہے عشقِ سخن جاری، چکی کی مشقت بھی اک طرفہ تاشا ہے حسرت کی طبیعت بھیقید میں انہیں متعدد مرتبہ متعدد مقامات پر رکھا گیا تھا ایک مرتبہ جب وہ علی گڑھ سے للت پور لے جائے گئے تو ان کی قادر الکلامی نے ان سے یہ شعر کہلوایا۔سر یہ حاضر ہے جو ارشاد ہو مرجانے کو کون ٹالے گا بھلا آپ کے فرمانے کویوں تو مولانا حسرتؔ موہانی کو اُن کی عزلیہ شاعری کی بدولت اُن کی حیات میں ہی ’’رئیس المتغزلین‘‘کا لقب دیا جاچکا تھا لیکن ان کی شاعری نے اس عہد کی تحریک میں اس جادو کا کام دکھاتا جو بڑی بڑی تقریریں کرنہ پائیں۔ ان کا اردوئے معلی ’’مولانا محمد علی جو ہرکے‘‘ کامریڈ( Comrade )اورمولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جو تاریخ میں علی برادران کے ناموں سے مشہور ہوئے اگرچہ خلافت تحریت نے مسلمانوںکے دلوں میں ہلچل مچادی اور اس کا رخ پاکستان کی بنیاد کا سبب بناوہ بنیادی طورپر ایک شاعر اور ادیب تھے اور ایک عرصے سے مسلمانوں کے انگریزی داں طبقے کے لیے ایک انگریزی اخبار کی ضرورت محسوس کررہے تھے اس طرح کا مریڈ کی داغ بیل ڈالی گئی جس کے ادارے آج بھی حوالوں میں وقت پاتے ہیں انہوںنے ہم درد ’’نامی اردو اخبار بھی اُسی زمانے میں شائع کیا جب سرسید احمد خان سیاسی منظر پر آئے۔ آج سابق صدر مشرف کی روشن خیالی کےجن الفاظ نے عوام میں ہلچل پیدا کردی تھی یہ اصطلاح صرف معنوی حد تک نہیں بلکہ سر سید احمد خاں کی عملی جدوجہد کا ایک نعرہ ا س عہد میں بنا جب مسلمان گھرانوں میں انگریزی پڑھنا لکھنا متروک ہوچکا تھا۔یہاں میںعلی گڑھ میں ان کے جدوجہد سے قائم کیےگئے ایم اے او کالج کا ذکر چھپڑوں جو بعد میں مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کا اختصاس حاصل کرچکا اور آج بھی ہندو ستان میں مسلمانوں کا منفرد تعلیمی ادارہ ہے تو بات دور تک چلی جائے گی۔ سرسید احمد خاں نے اسی عہد میںایک اخبار’’ تہذیب الا خلاق‘‘ بھی شائع کیا جس نے مسلم گھرانوںمیں بے داری اور کردار سازی کا کام انجام دیا۔ یہاں میں برسبیل تذکرہ حیدر آباد دکن (بھارت) کی عثمانیہ یونیورسٹی کے کردار کو بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ساتھ جوڑتے ہوئے اگر یہ کہوں کہ ان دونوں یونیورسٹیوں نے پاکستان بننے سے بہت پہلے ہی اس نوزائیدہ ملک کی ضرورت پوری کرنے میں اس بنیادی ڈھانچےکا کام کیا جس پر پاکستان کی عمارت تعمیر کی گئی۔ اس مختصر سی تحریر میں، میں اگر میں نواب بہادر یار جنگ کا ذکر نہ کروں تو یہ ادھوری لکھت بھی مزید نا مکمل رہ جائے گی۔ اپنی علمی استعداد اور شعلہ بیانی کی ماورائی صلاحیت کے پس منظر میں نواب صاحب بہت جلد ہی قائد اعظم کے دست ریاست بن گئے اور اکثر مقامات پر انہوںنے قائداعظم کی انگریزی تقریروں کا فی البدیہہ اردو ترجمہ عوام کی داد و تحسین کے شورمیں پیش کیا ان کے اصل نام محمد بہادر خان کے ساتھ نظام دکن کا دیا ہوا خطاب ’’بہادر یار جنگ‘‘ دراصل اس تاریخی تقریر کا نتیجہ ہے جو انہوںنے سیرت کے ایک جلسے میں فتح میدان میں کی تھی۔ نظامِ دکن اس مقدس جلسے میں موجود تھے انہوںنے تقریر کے کئی حصے دوبارہ ان سے سننے اور پھر اگلے دن یہ خطاب ان کے نام کا لاحق بن گیا۔ وہ بنیادی طورپر ایک شاعر تھے اور اردو ادب سے ان کا لگائو قدرتی تھا ان کی خطیبانہ شعلہ بیانی سے الگ ہٹ کر بھی ہم دیکھیں تو ان کے عشقِ رسولؐ کی تابند گی آپ کو ان کی اس نعت:اے کہ ترے وجود پر خالقِ دو جہاں کو نازاے کہ ترا وجود ہے وجیہہ وجود کائنات میں بدر جہ اتم نظر آئے گی۔ یہ نعت آج بھی ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن کے مختلف چینلوں کے دینی پروگراموں کا اختصاص بنی ہوئی ہے۔ بہرحال بات ہورہی تھی ان کی تقریری صلاحیت کی جو اس دور میں مقبولیت حاصل کرسکی جس دور میں مولانا محمد علی جوہر، سید عطا اللہ بخاری ابو الکلام آزاد اور ڈاکٹر نذیر احمد جیسے نابغہِ روز گار ہستیوں کا طوطی بول رہا تھا۔میں اپنی تجریہ کو محدود وقت کے پیش نظر یہیں ختم کرتا ہوں ورنہ تحریک پاکستان کی جدوجہدمیں شریک ہونے والوں میںمولانا آزاد سبحانی، عبدالباری فرنگی محلی اور ظفر علی خان جیسے ادیبوں کی ایک طویل توجہ طلب فہرست بھی ہنوزتشنہ تحریر ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
یادرفتگاں: فاروق قیصر : فن و ادب کا روشن ستارہ

یادرفتگاں: فاروق قیصر : فن و ادب کا روشن ستارہ

31 اکتوبر 1945ء کو لاہور میں پیدا ہونے والے فاروق قیصر 14مئی 2021ء کواسلام آباد میں فوت ہوئے ، آج ان کی تیسری برسی منائی جا رہی ہے۔وہ ایک مزاح نگار اور فنکار ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ مصنف، کالم نگار، کارٹونسٹ، پروڈیوسر، سکرپٹ رائٹر، شاعر، صداکار اور استاد بھی تھے۔ سب سے بڑھ کر ایک متاثر کن انسان تھے۔اگر یہ کہا جائے کہ معروف کریکٹر ''انکل سرگم‘‘ کے تخلیق کار فاروق قیصر فن و ادب کی دنیا کاایک روشن ستارہ تھے اور ان کی شخصیت سے بے پناہ کرنیں پھوٹتی تھیں تو بے جا نہ ہو گا۔ ماسی مصیبتے، بونگا بخیل، ہیگا، رولا اور شرمیلا جیسے یادگار کردار بھی ان کی تخلیق تھے۔ لاہور میں پیدا ہوئے مگر پرورش پاکستان کے مختلف شہروں میں پائی۔ جس کی وجہ والد کی سرکاری نوکری تھی ۔ فاروق قیصر کا تعلیمی سفر بھی مختلف شہروں میں تکمیل تک پہنچا، یعنی میٹرک پشاور سے، ایف اے کوئٹہ سے اور ٹیکسٹائل ڈیزاننگ میں گریجویشن نیشنل کالج آف فائن آرٹس لاہور سے کیا ۔فائن آرٹس میں ماسٹرز انہوں نے رومانیہ سے کیاجبکہ 1999ء میں کیلیفورنیا امریکہ سے ماس کمیونی کیشن میں بھی ماسٹرز کیا ہے۔ان کا شمار پاکستان کے معروف مزاح نگاروں میں ہوتا تھا، جنہوں نے کپڑے کے بنے ہوئے پتلوں کے ذریعے مزاح پیش کیا اور پھر کارٹون کے ذریعے بھی اس فن کی آبیاری کی۔ انہیں ٹی وی پرفیض احمد فیض کی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی نے پروگرام ''اکڑ بکڑ‘‘ سے متعارف کروایا تھا۔ مشہور پروگرام ''کلیاں ‘‘ ان کی پہچان بنا،جس میں انکل سرگم کے کردار نے انہیں شہرت کے بام عروج پر پہنچادیا۔ یہ شو ویسے تو بچوں کیلئے تھا لیکن اس میں موجود ہلکا پھلکا طنز و مزاح بڑوں کی بھی توجہ حاصل کیے رکھتا۔ انکل سرگم اور ماسی مصیبتے کے علاوہ ہیگا، رولا اور شرمیلا جیسے پتلی تماشا کے کرداروں نے بھی مقبولیت حاصل کی۔تمام کرداروں کی ڈیزائننگ ان کی اپنی تھی اور انکل سرگم کا وائس اوور بھی وہ خود کرتے تھے۔ ان کا پروگرام ''کلیاں‘‘ 1976ء میں، ''ڈاک ٹائم‘‘ 1993ء میں، ''سرگم سرگم‘‘ 1995ء میں ،''سیاسی کلیاں‘‘ 2010ء میں اور ''سرگم بیک ہوم‘‘ 2016ء میںنشر ہوا۔فاروق قیصر علم و ادب کی دنیا کا ایک ایسا نام ہیں، جنہوںنے '' پتلیوں ‘‘ سے وہ باتیں کہلوا دیں جو انسان حکمرانوں اور اداروںکے سامنے بیان کرنے کی جسارت نہیں کرسکتا تھا۔انہوں نے سابق صدر ضیاء الحق کے دور میں سرکاری ٹی وی کے ذریعے سے محکمانہ خرابیوں، بدعنوانیوں اور نااہلیوں کو اس خوبصورتی سے بے نقاب کیا کہ سبھی عش عش کر اٹھے۔ فاروق قیصر عوامی مسائل کو طنزومزاح سے بیان کرنے کے ماہر تھے۔ انہوں نے اپنے کرداروں سے معاشرے کو اس کا اصل چہرہ دکھایا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ''فرد ہر بات کہہ سکتا ہے بس کہنے کا ڈھنگ آنا چاہئے‘‘۔ وہ وژنری آدمی تھے، پینتالیس سال پہلے جو کچھ کہہ دیا،حالات آج بھی ویسے ہی ہیں۔ پپٹ شوز کے ذریعے انہوں طنز کے نشتر ہی نہیں برسائے بلکہ بچوں اور بڑوں کو ہنسنا سکھایا اور بھلائی کا ناقابل فراموش پیغام دیا۔فاروق قیصر کے کریڈٹ پر ایک اور بہت شاندار تخلیقی اقدام ہے جس نے پاکستان میں مزاح بالخصوص ٹیلی وژن پر مزاح کو ایک نیا رجحان عطا کیا اور وہ تھا مزاحیہ صدا کاری کا، جس میں وہ انگریزی فلموں پر پنجابی فلموں کے انداز کی پنجابی زبان میں ڈبنگ کرتے تھے۔ ''حشر نشر‘‘ کے نام سے پیش کیے جانے والے پروگرام نے پاکستان میں ایک نیا رخ دیا جس سے متاثر ہوکر اس شعبے میں بہت کام ہوا بلکہ آج تک مختلف انگریزی فلموں اور کلپس پر مزاحیہ ڈبنگ کا کام جاری ہے۔ پاکستان میں اس کام کے خالق فاروق قیصر ہی تھے۔فاروق قیصر نے زندگی میں بہت سارے کام کیے، وہ پاکستان اور انڈیا میں یونیسیکو کے منصوبوں سے جڑے رہے۔ انہوں نے دیہی علاقوں میں صحت و صفائی، تعلیم اور فنون کی آگاہی کیلئے عملی طور پر خدمات فراہم کیں۔ وہ لوک ورثہ کے سابق بورڈ آف گورنر بھی رہے۔ ان کی ٹیلی وژن کے ساتھ مختلف حیثیتوں میں وابستگی رہی۔ وہ نیشنل کالج آف آرٹس اور فاطمہ جناح یونیورسٹی برائے خواتین سمیت کئی جامعات سے بھی جز وقتی منسلک رہے۔ کئی اخبارات کیلئے مستقل طور پر کالم نویسی کرنے کے ساتھ حالات حاضرہ پر کارٹون بھی تخلیق کیے۔ انہوں نے 40 ڈرامے اور بے شمار نغمات بھی لکھے۔ ان کی تحریروں پر مبنی 4 کتابیں بھی شائع ہوئیں، جن میں ''ہور پوچھو‘‘،''کالم گلوچ‘‘،''میٹھے کریلے‘‘ اور ''میرے پیاے اللہ میاں‘‘ شامل ہیں۔ لازوال شخصیت کے حامل فاروق قیصر کی بہترین خدمات اور کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے انہیں ''تمغہ امتیاز ‘‘اور'' تمغہ حسن کارکردگی‘‘ سے نوازا گیا۔پاکستان میں پتلی تماشا کے بانی سمجھے جانے والے فاروق قیصر کو 2021ء میں عید الفطرکے دوسرے روزپڑنے والا دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا اور یوں وہ موت کی آغوش میں چلے گئے۔انہوں نے 75 برس کی عمر پائی۔فاروق قیصر کی زندگی اور ان کے فن کے بارے میں ہم جتنی بات کریں، کم ہے۔ 50 برسوں پر پھیلے ان کے فنی منظرنامے پر جگہ جگہ ہمارا بچپن بکھرا پڑا ہے، فنون لطیفہ کیلئے فاروق قیصر کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ 

 چھیمبہ :  تاریخی سرائے

چھیمبہ : تاریخی سرائے

قدیم ادوار سے ہی ہماری سرزمین کئی شاہراہوں پر سے گزرنے والے جنگجوئوں، فاتحین اور بادشاہوں کی گزر گاہ رہی ہے۔ راجپوتانہ تا بنگال کو افغانستان کی سر بلند سرزمین کو ملانے والے راستے کو چوتھی صدی قبل مسیح کی دستاویزات کے مطابق جی ٹی روڈ (جرنیلی سڑک) کا نام دیا گیا تھا۔ مختلف قصبوں اور شہروں کو باہم ملانے والی شاہرات قدیم دور میں بہت اہمیت کی حامل رہیں۔صدیوں سے موجود رہنے والی اس طرح کی قدیمی شاہ راہ(موجودہ جدید شکل میں لاہور، ملتان ہائی وےN-5)کی اہمیت مغلوں کے دور میں بہت بڑھ گئی۔ جب مغل سلطنت امن کی بہاریں دیکھ رہی تھی اسی دور میں شمال میں واقع لاہور، مغلوں کے متبادل دارالحکومت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا اور ملتان نسبتاً دارالحکومت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا اور ملتان نسبتاً امیر صوبے اور تجارتی مرکز کے طور پر سامنے آیا۔ مغلوں کے تیسرے فرماں روا، اکبر اعظم کے دور میں تجارت کے مقاصد، جنگی مہمات، شاہی دوروں کو سہولت بخشنے کیلئے اس قدیمی لاہور، ملتان کے درمیان واقع جرنیلی سڑک کو خصوصی توجہ کا مستحق گردانا گیا۔ ان شاہراہوں کے نظام کے گھوڑے، پیادے، سکیورٹی کا انتظام کے ساتھ ساتھ یہاں لاتعداد نئی ''کاروان سرائے‘‘ تعمیر کی گئی جہاں پرانی سائیں موسمی یا جنگی حالات کی وجہ سے عدم وجود سے دوچار تھیں۔اس دور میں ان سرائوں کا باہم فاصلہ، طے کئے جانے والے سفر کے مطابق رکھا جاتا تھا جو عموماً25تا 30کلو میٹر( اس دور میں طے ہونے والا روزانہ فاصلہ) ہوتا تھا۔ لاہور کے اندرون (مرکز حکومت) سے نکلتے تو پہلا پڑائو ملتان جانے والی جرنیلی سڑک پر ضلع قصور کے تاریخی قصبے ہنجروال میں سرائے کی صورت میں ہوتا تھا۔ ہنجروال کی یہ سرائے امتداد زمانہ کے ہاتھوں کب کی وجود کھو چکی ہے۔سیاحوں اور ماہرین آثاریات کی نظروں سے ذرا اوجھل، بغیر منصوبے کے تعمیر ہونے والے دیہات گھروں اور زرعی زمینوں میں گھری''سرائے چھیمبہ‘‘ کی آثاریات ہنجروال سے مزید 30 کلو میٹر دور N-5پر ''سراں‘‘ کے سٹاپ کے مغرب میں تقریباً ایک کلو میٹر دور قدیم جرنیلی سڑک کی نشانی کے طور پر آج بھی موجود ہے۔ قارئین کیلئے یہ امر باعث دلچسپی ہو گا کہ ''سرائے چھیمبہ‘‘، '' سرائے ہنجروال‘‘، '' سرائے مغل‘ جیسی سرائیں اٹک قلعہ سے منسلک ''بیگم کی سرائے‘‘ ٹیکسلا راولپنڈی کے درمیان ''سرائے خربوزہ‘‘ راولپنڈی کے مشرق میں ''سرائے روات‘‘ روہتاس قلعہ کے عین باہر ''راجو پنڈ‘‘ نامی جگہیں قلعہ بند حالت میں آج بھی سیاہ راتوں کے درمیان قزاقوں اور مقامی دیہاتی لٹیروں سے بچائو کیلئے دروازے بند کر کے محفوظ ہو جانے والے شاہی کاروانوں کی یاد تازہ کر دیتی ہے۔ دور حقیقت اس خطہ میں یہ کوئی انوکھی تعمیراتی حیرت گاہ نہ تھی بلکہ وسطی ایشیا، ایران اور ہندو پاک میں تعمیر ہونے والی اسی طرح کی سرائوں سے مشابہہ، موٹی، بڑی دیواروں اور مشرق اور مغرب کی جانب مرکزی دروازوں، قلعہ نما بلندی اختیار کئے ہوئے کئی تعمیرات موجود ہیں۔حد بندی کے طور پر کام آنے والی موٹی، بیرونی دیواروں کے اندر کی طرف گنبد نما چھتوں والے اندھیرے لیکن ٹھنڈے، بڑے بڑے کمروں کے لمبے سلسلے میں مسافروں کے کاروان، شاہی مصاحب ، سامان لانے لے جانے والے ایک یا دو دن کیلئے آرام کرنے اور تازہ دم ہونے کیلئے یہاں ٹھہرا کرتے تھے۔ ان کے جانور( گھوڑے اور گدھے اور ہاتھی) سرائوں کے کونے پر واقع وسیع اصطبل میں ٹھہرا دیئے جاتے تھے۔مشرق اور مغربی سمتوں میں تعمیر شدہ محراب نما وسیع اور بلند دروازے اکبر کے دور کے تعمیر شدہ ہیں۔ مغربی دروازہ پر قبضہ ہو چکا ہے اور یہ رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے جبکہ مشرقی دروازہ آنے اور جانے کیلئے مستعمل ہے۔ چند سال قبل تک دروازہ کے عالی شان مضبوط لکڑی سے تعمیر پٹ( کواڑ) موجود تھے، لیکن بعد ازاں جب پختہ گلیاں اور سولنگ لگاتے ہوئے گلیوں کو اونچا کیا گیا تو یہ نہ کھل سکنے کی وجہ سے اتار کر غائب کر دیئے گئے۔سرائے کے شمالاً جنوباً چند(کل چار عدد) چوکور عمارت کی پسلی پر ایستادہ گنبد وسطی ایشیا اور افغانستان (ثمر قن اور ہرات) دو دروازوں پر اور دو چھتوں پر کی مختلف مساجد اور مزارات پر تعمیر گنبدوں سے ہو بہو مشابہت رکھتے ہوئے ان کی یاد دلاتے ہیں۔ ان گنبد میں سے کسی ایک پر بھی نیلی ٹائیلون کے نشانات موجود نہیں ہیں جو کسی زمانے میں ان کا خاصہ تھے۔سرائے چھیمبہ کا ہر کونہ ہشت پہلو محافظی پوسٹ لئے ہوئے ہے، جس سے یہاں کا دفاعی نظام نکھر کر سامنے آتا ہے۔ مسافروں کے جانور جس طویل سلسلہ وار عمارت میں ٹھہرائے یا باندھے جاتے تھے، وہ آج کل جدید طرز کی گلیوں پر مشتمل عمارات میں گھری ہوئی ہے۔ بیرونی دیوار کے ساتھ ساتھ موجود کمرے مقامی راجپوت آبادی کے زیر استعمال ہیں، کیونکہ سرما میں گرم اور گرما میں ٹھنڈے رہتے ہیں۔جدھر نگاہ دوڑائیں سرائے میں مزید کمروں کا اضافہ کرنے کیلئے کی گئی لاتعداد تبدیلیاں اور بہتریاں نظر آتی ہیں۔ حتیٰ کہ دو سال قبل چھتوں پر نئے کمرے تعمیر کرنے کیلئے ثمر قند ہرات اور بخارا کے مشابہ مینار تک گرا دیئے گئے۔ مغلوں کے زمانے کی اینٹیں، چوناآج بھی گرائے گئے میناروں کی جگہ پر پڑے ملتے ہیں۔مقامی آبادی کو اس جگہ کی تاریخی اہمیت کا نہ تو اندازہ ہے نہ ہی اس سے انہیں کوئی سروکار، وہ صرف بڑھتی آبادی اور شہری سہولیات میں اضافہ پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ریل گاڑی اور لاری، موٹرکار وغیرہ کی ایجاد کے بعد پیدل، گھوڑوں یا ہاتھیوں پر سفر تو متروک ہوا ہی اور سرائوں کی اہمیت اور ضرورت میں بتدریج کمی آتی گئی۔ تقسیم ہندو پاکستان کے بعد مہاجرین کی اس علاقہ میں ہجرت کے بعد لوگوں نے اس سرائے پر ذاتی رہائش گاہوں کے طور پر اپنے ڈیرے جما لئے جو آج تک جاری ہیں۔ 1580ء میں تعمیر شدہ یہ سرائے ''زیر حفاظت آثار قدیمہ‘‘ تو ہے لیکن مسلسل بڑھتی آبادی، بے ضابطہ شہر سازی، کرنال اور روہتک سے آنے والے راجپوت مہاجرین کی آباد کاری اور یہاں کی ثقافت، تاریخ سے چشم پوشی جیسے امور کی وجہ سے یہ برائے نام ہی ''محفوظ‘‘ ہے۔  

آج کا دن

آج کا دن

چیچک کی ویکسین کی ایجاد 14 مئی 1796ء کو برطانوی طبیب و سائنسدان ایڈورڈ جینرنے چیچک کے مرض کیلئے ویکسین ایجاد کی۔ایڈورڈ جینرکو ویکسین کابانی تصور کیا جاتا ہے ، ان کی بنائی ہوئی چیچک کی ویکسین دنیا کی پہلی ویکسین کہلاتی ہے۔چیچک ایک ایسی بیماری تھی جو ویریولا وائرس کی وجہ سے ہوتی تھی ۔اس کے آخری کیس کی تشخیص 1977 ء میں ہوئی تھی اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے 1980ء میں اس بیماری کے عالمی خاتمے کی تصدیق کی تھی۔امریکی خلائی مشن ''سکائی لیب‘‘ کی روانگی 1973ء میں آج کے روز امریکہ نے اپنا پہلا خلائی اسٹیشن ''سکائی لیب‘‘ روانہ کیا۔یہ مشن 24ہفتوں پر مشتمل تھا جو مئی 1973ء سے فروری 1974ء تک جاری رہا۔اس دوران تین خلائی مشن ''سکائی لیب2‘‘، ''سکائی لیب 3‘‘ اور ''سکائی لیب 4‘‘ سر انجام دیئے گئے جن کا مقصد شمسی نظام اور زمین کا مشاہدہ کرنے کے ساتھ ساتھ سیکڑوں تجربات کرنا تھا۔پرتگال میں بغاوت14مئی1915ء میں برتگال میں ایک فوجی بغاوت ہوئی جس کی قیادت الوارو ڈی کاسترو اور جنرل سا کارڈوسونے کی۔اس بغاوت کا آغاز لزبن سے ہواجس کا واحد مقصد اس وقت کے حکمران جنرل پیمینٹاڈی کاسترو کی آمریت سے نجات حاصل کرنا تھا۔اس بغاوت کی قیادت کرنے والے رہنماؤں نے واضح کر دیا تھا کہ ہم کسی کو بھی غیر ضروری نقصان نہیں پہنچائیں گے ، جنرل کاسترو سے اقتدار چھین کرتحریک کا اختتام کر دیں گے۔ روٹر ڈیم پر حملہدوسری عالمی جنگ کے دوران نیدرلینڈز پر جرمن حملے کے دوران روٹرڈیم کو نازی افواج نے شدید فضائی بمباری کا نشانہ بنایا۔ اس کا مقصد شہر میں لڑنے والے جرمن فوجیوں کی مدد کرنا، ڈچ مزاحمت کو توڑنا اور ڈچ فوج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا تھا۔ بمباری 10 مئی کو شروع ہوئی اور 14 مئی کو تاریخی شہر کے مرکز کی تباہی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔اس بمباری کو روٹرڈیم بلٹز بھی کہا جاتا ہے، جس میں تقریباً 1150 لوگ مارے گئے۔امریکی خانہ جنگی''جیکسن جنگ‘‘ یعنی امریکی خانہ جنگی کے دوران14مئی1863ء کو وکسبرگ مہم کے ایک حصے کے طور پر جیکسن اور مسیسیپی کے درمیان لڑی گئی۔ ریاست مسیسیپی میں داخل ہونے کے بعد، یونین آرمی نے اپنی فورس کو اندرون ملک منتقل کر دیا تاکہ مسیسیپی کے سٹریٹجک شہر وِکسبرگ پر حملہ کیا جا سکے۔ شہر پر قبضہ کرنے کے بعد، یونین فوجیوں نے اقتصادی اور فوجی بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا اور شہریوں کے گھروں کو بھی لوٹ لیا۔  

یادرفتگاں: علاؤالدین :عوامی اداکار

یادرفتگاں: علاؤالدین :عوامی اداکار

پاکستان میں جن فنکاروں کے فلمی کریئر انتہائی قابل رشک رہے، ان میں ایک بہت بڑا نام اداکار علاؤالدین کا تھا۔ایک ایکسٹرا اور معاون اداکار سے چوٹی کے ولن شمار ہوئے۔ پھر مرکزی کرداروں سے ہوتے ہوئے ہیرو بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ تاریخی ، سماجی اور اصلاحی فلموں میں بھاری بھر کم سے ہلکے پھلکے کامیڈی رول تک کئے۔ بیک وقت ہیرو، ولن، کیریکٹرایکٹر اور کامیڈین کے روپ میں نظر آنے والے پہلے فنکار تھے۔ ساٹھ کا عشرہ تو علاؤالدین کے نام تھا وہ جس فلم میں ہوتے ، اس میں باقی اداکاروں کی حیثیت ثانوی ہوتی تھی۔ لیجنڈ کی حیثیت رکھنے والے علائوالدین 2فروری 1920ء کو راولپنڈی کے ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے، ان کا پورا نام علائوالدین بٹ تھا۔ ان کے والد فیروز الدین بٹ راولپنڈی کی ایک معزز شخصیت تھے۔ علائوالدین نے ابتدائی تعلیم راولپنڈی کے گورنمنٹ سکول سے حاصل کی۔ 1940ء میں وہ راولپنڈی سے گلوکار بننے کیلئے ممبئی پہنچے۔ ان کی گلوکار بننے کی کوششیں تو کامیاب نہ ہو سکیں لیکن اس دوران اس کی ملاقات نامور ہدایتکار اے آر کاردار سے ہوئی جن کا تعلق لاہور سے تھا۔انہوں نے انہیں اداکار بننے کا مشورہ دیا۔ انہیں 1940ء میں سب سے پہلے فلم پریم نگر‘‘ میں کاسٹ کیا گیا۔ پھر 1941ء میں پنجابی فلم کزماتی‘‘ میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ 1942ء میں نئی دنیا‘‘ اور 1943ء میں سنجوگ ‘‘ میں کام کیا۔ اس کے بعد انہوں نے 1948ء میں دلیپ کمار اور نرگس کی مشہور زمانہ فلم ''میلہ‘‘ میں اداکاری کی۔اس فلم میں وہ صرف 28 برس کی عمر میں نرگس کے باپ کے کردار میں جلوہ گر ہوئے تھے۔ان کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔ پھر وہ پاکستان آ گئے اور یہاں کئی عشروں تک اپنے آپ کو ایک ورسٹائل اداکار کے طور پر منوایا۔ انہیں فلمی صنعت میں ''پا جی‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔انہوں نے اردو اور پنجابی، دونوں زبانوں کی فلموں میں صلاحیتوں کو منوایا۔ ان کی مقبولیت کی وجہ سے انہیں عوامی اداکار‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ پاکستان میں سب سے پہلے علاؤالدین نے نذیر کی پنجابی فلم ''پھیرے‘‘ میں ولن کے طور پر کام کیا۔ یہ پاکستان کی نہ صرف پہلی پنجابی فلم تھی بلکہ کامیاب ترین فلم تھی۔سورن لتا اور نذیر نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ سورن لتا اور نذیر کی دوسری پنجابی فلم ''لارے‘‘ میں بھی علاؤالدین نے ولن کا کردار ادا کیا۔ ولن کے طور پر انہوں نے محبوبہ، محفل، انوکھی، وعدہ، مجرم، مکھڑا، چھومنتر، پینگاں، پلکاں، دربار اور آخری نشان میں بھی کام کیا۔''باغی‘‘ فلم کا تذکرہ بہت ضروری ہے۔ یہ فلم خالصتاً ویسٹرن سٹائل میں بنائی گئی اور اس میں سدھیر، مسرت نذیر اور یاسمین نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ یہ سلطان راہی کی بھی پہلی فلم تھی جس میں وہ ایکسٹرا کے طور پر سامنے آئے تھے۔ بعد میں پھر یہی سلطان راہی عروج کے آسمان تک جا پہنچے۔'' پتن‘‘ ان کی بڑی فلم تھی جس میں انہوں نے ولن کا نیم مزاحیہ کردار انتہائی مہارت سے نبھایا اس میں وہ استاد روح کھچ بنے تھے جو بے تکی شاعری کرتا ہے۔ ان پر فلمائے گئے ایک گیت کو بے بدل موسیقار بابا جی اے چشتی نے مختلف دھنوں میں پیش کیا۔ ''پتن‘‘ وہ فلم ہے جس پر پاکستانی پنجابی سینما ہمیشہ ناز کرتا رہے گا۔ 1953میں ''شہری بابو‘‘ ریلیز ہوئی یہ بھی نذیر کی فلم تھی زبیدہ خانم کو اسی فلم سے بریک ملا۔ یہ فلم سپرہٹ ثابت ہوئی اور اس میں بھی علائوالدین نے خوبصورت اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ عنایت حسین بھٹی کا گایا ہوا یہ گیت ''بھاگاں والیو نام جپو مولانا نام نام‘‘انتہائی مقبول ہوا۔ اس کے بعد علائوالدین نے پاٹے خان، دلا بھٹی اور حمیدہ میں بھی بہت شاندار اداکاری کی۔ حمیدہ میں انہوں نے ایک افیمی کا مزاحیہ اور منفی کردار نہایت خوبصورتی سے نبھایا۔یہ فلم اپنی کمزور موسیقی کے باوجود کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔1959میں ''کرتار سنگھ‘‘ ریلیز ہوئی جس نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ ''کرتار سنگھ ‘‘کو پنجابی فلموں کی سرتاج فلم قرار دیا جاتا ہے۔ سیف الدین سیف کی اس فلم میں علائوالدین نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا کردار ادا کیا ۔کہا جاتا ہے کہ بھارتی پنجاب میں یہ فلم تین سال تک نمائش پذیر رہی۔فلم ''سلمیٰ ‘‘ میں بھی ان کی اداکاری بہت پسند کی گئی۔ریاض شاہد کی فلم ''سسرال‘‘ علائوالدین کی ناقابل فراموش فلم ہے۔ انہوں نے اس فلم میں لازوال اداکاری کی۔'' سسرال‘‘ کو پاکستان کی بہترین آرٹ فلم بھی قرار دیا جاتا ہے۔اس فلم کے ایک گیت ''جس نے میرے دل کو درد دیا‘‘ کی پکچرائزیشن علائوالدین نے اتنی خوبصورتی سے کرائی کہ لوگ عش عش کر اٹھے۔ پھر ''شہید ‘‘نے بھی علائوالدین کے قد میں اضافہ کیا۔1963ء میں شباب کیرانوی کی مشہور زمانہ فلم ''تیس مار خان‘‘ ریلیزہوئی۔ اس فلم کے بارے میں شباب صاحب کو خدشات لاحق تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس فلم کا باکس آفس پر کامیاب ہونا مشکل تھا علائوالدین کے ساتھ ایک نئی ہیروئن تھی جس کا نام شیریں تھا۔سب فلمیں توقعات کے برعکس سپرہٹ ثابت ہوئی۔ علائوالدین کی اداکاری کو بہت پذیرائی ملی۔ولن سے ہیرو بننا پھر کامیڈی ہیرو اور پھر کریکٹر ایکٹر کی حیثیت سے کام کرنا ایک بالکل انوکھی بات تھی۔علاؤالدین نے تاریخی کرداروں میں بھی بڑا متاثر کیا۔ فلم ''شہید ‘‘(1962ء) میں ایک عرب شیخ ، فلم ''فرنگی‘‘ (1964ء) میں ایک باغی درویش ، فلم ''نظام لوہار‘‘ (1966ء) میں ایک ڈاکو ، فلم ''زرقا‘‘ (1969ء) میں ایک فلسطینی مجاہد لیڈر اور فلم ''یہ امن‘‘ (1971ء) میں ایک کشمیری حریت پسند کے روپ میں زبردست کردارنگاری کی۔ علائوالدین کی دیگر مشہور فلموں میں ''یتیم، جگری یار، بائوجی ،لاڈو ،مہندی، گناہگار، ایک سی چور ،غیرت تے قانون، بدنام ، خلش، انمول ،تلاش ،امرائو جان ادا اوربے مثال‘‘ شامل ہیں۔''پھنے خان، لاڈو، زرقا، بے مثال اور بدنام‘‘ میں بھی ان کی اداکاری قابل دید تھی۔ اردو فلموں میں اگر کسی فلم کے مکالمے عوامی سطح پر مقبول ہوئے تھے تو وہ اس فلم کے تھے جنھیں ریاض شاہد نے لکھا تھا ۔''بدنام‘‘ کا ان کا یہ مکالمہ تو ابھی تک لوگوں کو یاد ہے ''کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے ،کون لایا ہے یہ جھمکے‘‘۔ اس فلم میںعلاؤالدین پر مسعودرانا کا سب سے یادگار ترین گیت ''کوئی ساتھ دے کہ نہ ساتھ دے ‘‘ فلمایا گیا تھا۔اس فلم میں علاؤالدین کی کردارنگاری ضرب المثل بن گئی تھی جس نے انھیں ایک لیجنڈ کا مقام دے دیا تھا۔ یاد رہے کہ فلم ''بدنام ‘‘ کو روس کی 17 مختلف زبانوں میں ڈب کر کے نمائش کیلئے پیش کیا گیا تھا اور وہاں یہ فلم بے حد پسند کی گئی تھی۔چالیس سالہ فلمی کریئر میں انہوں نے مجموعی طور پر 319فلموں میں کام کیا جن میں 194فلمیں اردو زبان میں تھیں جبکہ 125 فلمیں پنجابی تھیں۔ فی الحقیقت علائوالدین ایک بڑے ہی باکمال اداکار تھے جنہوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبان کی فلموں میں اپنے بے مثال فن کا ڈنکابجایا۔13مئی 1983ء کو یہ عدیم النظیر اداکار عالم جاودواں کو سدھار گیا ان کی موت کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کا نوجوان بیٹا ایک حادثے میں جاں بحق ہو گیا تھا۔جوان بیٹے کی موت کا صدمہ علائوالدین کیلئے جان لیوا ثابت ہوا برصغیر پاک و ہند کی فلمی تاریخ کے آسمان پر وہ ہمیشہ ایک روشن ستارے کی طرح جگمگاتے رہیں گے۔

روم میں قتل عام

روم میں قتل عام

1527ء وہ سال ہے، جب اٹلی کے شہر روم میں خونریزی ہوئی اور پورے شہر کو تاخت و تاراج کردیا گیا۔ اسے ''سیک آف روم‘‘ (Sack of Rome) کہا جاتا ہے ۔ یہ واقعہ کیو ں پیش آیا اور اس کے محرکات کیا تھے؟ تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو جنگوں کا مقصد علاقوں پر قبضہ کرنا ، نوآبادیاں بنانا ، وسائل پر قبضہ اور طاقت میں اضافہ کرنا تھا۔ یہی کچھ روم میں ہوا۔ ظاہر ہے جنگ میں ایک فریق فتح سے ہمکنار ہوتا ہے جبکہ دوسرا شکست کے اندھیروں میں گم ہوجاتا ہے۔ اس جنگ میں دوسری طرف پوپ اور اس کے اتحادی شامل تھے ۔ پوپ کلیمنٹ ہفتم کے اتحادیوں میں فرانس شامل تھا۔ دراصل پوپ نے غیر دانش مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے ایک اتحاد بنایا جس کا نام ''دی لیگ آف کوگینک‘‘ تھا۔اس کا مقصد چارلس کی اٹلی میں برتری کو چیلنج کرنا تھا۔ روم پر شہنشاہ کے احکامات پر حملہ نہیں کیا گیا بلکہ یہ قدم شاہی فوجی دستوں نے خود اٹھایا تھا۔ ان فوجیوں میں جرمنی کے کرائے کے فوجی اور سپین کے فوجی شامل تھے جنہوں نے بغاوت کا علم بلند کیا۔ ان کی کمانڈ فرانسیسی اشرافیہ کا باغی رکن ڈیوک آف بوربن کررہا تھا۔ روم کی دیواروں کا اچھی طرح دفاع نہیں کیا گیا۔ شہر کی فوج صرف آٹھ ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی۔ ان میں دو ہزار سوئس گارڈ بھی شامل تھے جو پوپ کی بڑی فوجی طاقت تھے۔ 6 مئی 1527ء کو شاہی فوج نے بھرپور حملہ کیا۔ انہیں توپوں کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن یہ فوج بڑی بے جگری سے لڑی۔ ڈیوک آف بوربن کو گولی مارکر ہلاک کردیا گیا لیکن جن افراد کی اس نے قیادت کی انہوں نے شہر کو تاخت و تاراج کردیا۔ انہیں جو نظر آیا اسے موت کی وادی میں اتار دیا۔ سوئس گارڈز سینٹ پیٹر چرچ کے تحفظ کیلئے بڑی بہادری سے لڑے اور پوپ کلیمنٹ کے فرار کیلئے ایک سرنگ کھودی لیکن آخر اسے پکڑ لیا گیا۔ 6جون کو کلیمنٹ نے ہتھیار ڈال دیئے اور وہ اپنی زندگی کے بدلے بھاری تاوان دینے پر آمادہ ہوگیا۔ شرائط میں کئی دوسرے علاقے بھی رومن سلطنت کے حوالے کرنا تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب وینس نے صورت حال کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور سرویا اور ریونیا پر قبضہ کرلیا۔ اس جنگ کے بعد اٹلی کا نشاۃ ثانیہ کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ اس جنگ میں قتل عام کیا گیا اور پورا شہر تباہ کردیا گیا۔ تقریباََ پنتالیس ہزار شہری موت کے گھاٹ اتار ے گئے۔ کئی زخمی ہوئے اور کئی ہزار جلاوطن بھی ہوئے۔ بے شمار لوگ بیماریوں کی وجہ سے بھی ہلاک ہوئے۔ طاعون پھیل گیا جس نے ان گنت لوگوں کی جان لے لی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ جس بہادری اور پامردی سے سوئس گارڈز نے روم میں پوپ کا تحفظ کیا اس کی یاد میں ہر سال 6مئی کو سوئس گارڈز میں تازہ دم نوجوان بھرتی کئے جاتے ہیں ۔ اس طرح ان سوئس گارڈز کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے ۔ آج بھی اس بات پر اتفاق رائے کیا جاتا ہے کہ روم پر حملے کی اصل وجہ پوپ کلیمنٹ کا وہ غلط فیصلہ تھا جس کی وجہ سے اتحاد معرض وجود میں آیا تھا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پوپ چارلس پنجم کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے پر کیوں تلا ہوا تھا؟ بات پھر اقتدار کے استحکام اور غلبے کی آرزو پر ختم ہوتی ہے ۔ شاید انسان اپنی جبلت کے ہاتھوں مجبور ہے لیکن وہ اپنے انجام سے بے خبر کیوں ہوتا ہے ۔ آخر کیوں؟ 

کیا آپ یادداشت بڑھانا چاہتے ہیں؟

کیا آپ یادداشت بڑھانا چاہتے ہیں؟

انسان کی عمر جیسے جیسے بڑھے، اس کی یادداشت کمزور ہو جاتی ہے، لیکن ہر شخص احتیاطی تدابیر اپنا کر اپنی یادداشت کو طویل عرصہ تک برقرار رکھ سکتا ہے۔ ان تدابیر کو اختیار کرنا چنداں مشکل نہیں جو درج ذیل ہیں:دماغ مضبوط کرنیوالی غذائیں:ان غذائوں میں وہ سرفہرست ہیں جن میں اومیگا3فیٹس، گلوکوز (ثابت اناج) اور اینٹی آکسیڈنٹس پائے جاتے ہیں۔ مزیدبراں دن میں پانچ چھ بار کھانا کھائیے۔ وجہ یہ ہے کہ وقفے وقفے سے تھوڑا کھانا کھانے سے خون میں گلوکوز کی سطح برقرار رہتی ہے اور دماغ بنیادی طور پر گلوکوز ہی سے توانائی حاصل کرتا ہے۔دماغ کو مصروف رکھیے:ایسی سرگرمیاں اپنائیے جن سے دماغ کی ورزش ہومثلاً معمے حل کیجیے اور کراس ورڈ پزل کھیلیں۔ ان سرگرمیوں سے دماغ کی ورزش ہوتی ہے اور وہ چاق چوبند رہتا ہے۔ جسم کو فٹ رکھیے:روزانہ صبح سویرے یا شام کو تیز چہل قدمی کیجیے اور بدن پھیلانے والی ورزش کیجیے۔ ان ورزشوں کے ذریعے نہ صرف دماغ کا سفید مادہ بڑھتا ہے بلکہ مزید نیورون کنکشن بھی جنم لیتے ہیں۔ دبائو نہ بڑھنے دیں: ورزش سے ذہنی و جسمانی دبائو کم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ دراصل اس دبائو کے باعث جسم میں کورٹیسول کیمیائی مادہ پیدا ہوتا ہے جو دماغ کے مراکز یادداشت کو سکیڑ دیتا ہے۔ مزیدبراںعبادت اور مراقبہ بھی یادداشت بڑھانے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ فولاد کی سطح چیک کریں:ہمارے دماغ کے خصوصی خلیے نیوروٹرانسمیٹر ہماری یادداشت عمدہ حالت میں رکھتے ہیں۔ اور یہ خود فولاد کے ذریعے توانا رہتے ہیں۔ لہٰذا اپنے بدن میں اس اہم معدن کی کمی نہ ہونے دیجیے۔ جن مرد و زن میں فولاد کی کمی ہو، وہ عموماً بھلکڑ بن جاتے ہیں۔ایک وقت میں ایک کام:کئی مرد و زن ٹی وی پر خبریں سنتے ہوئے کھانا کھاتے اور کبھی کبھی تو اخبار بھی پڑھنے لگتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یوں انہیں سنی گئی خبریں یاد رہتی ہیں اور نہ ہی پڑھا گیا مواد۔ یہ کھانے کا صحت بخش طریقہ بھی نہیں۔دراصل جب ہم ایک وقت میں دو یا زائد کام کریں، تو دماغ پروسیسنگ کا عمل ایسے علاقوں میں منتقل کر دیتا ہے جو تفصیل سے یادیں محفوظ نہیں کرتے۔ لیکن ایک وقت میں ایک کام کیا جائے، تو دماغ اس کی جزئیات تک محفوظ رکھتا ہے۔ کولیسٹرول پر قابو پائیے:انسانی جسم میں کولیسٹرول کی زیادتی بڑا خطرناک عمل ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف دل کی شریانوں میں چربی جمتی ہے۔ بلکہ دماغ میں بھی خون کی نسوں میں لوتھڑے جنم لیتے ہیں۔ ان کی وجہ سے دماغ کو قیمتی غذائیت نہیں ملتی اور بتدریج یادداشت جاتی رہتی ہے۔ واضح رہے، دماغ میں تھوڑی سی چربی بھی نسیں بند کر ڈالتی ہے۔ لہٰذا اپنا کولیسٹرول اعتدال پر رکھیے۔ ادویہ پر نظر رکھیں:کئی ادویہ انسانی یادداشت پر منفی اثرات ڈالتی ہیں اور ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ انسان جتنا بوڑھا ہو، دوا اتنی ہی دیر تک اس کے بدن میں رہتی ہے۔ نظام یادداشت پر اثرانداز ہونے والی ادویہ میں اینٹی ڈیپریسنٹ، بیٹابلاکرز، کیموتھراپی، پارکنسن مرض کی دوائیں، نیند آور، دردکش، اینٹی ہسٹامائنز اور سٹاٹینس شامل ہیں۔ ایک سیب روزانہ کھائیے:سیب میں شامل ضد تکسیدی مادوں کی بلند مقدار زیادہ ایسیٹلکولین (Acetylcholine) کیمیائی مادہ پیدا کرتی ہے۔ دماغ میں ملنے والا یہ نیورو ٹرانسمیٹر عمدہ یادداشت کے لیے لازمی ہے۔ مزیدبرأں درج بالا ضد تکسیدی مادے دماغ کو مضرصحت آزاد اصلیوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔