گندم کا بحران کسی نہ کسی شکل میں سر اٹھاتا رہے گا
تجزیے
قیمتوں میں اضافے کے تسلسل کیوجہ سے گندم کی ذخیرہ اندوزی ہوئیگندم کی سمگلنگ روک دی تو ملک بحران سے جزوی طور پر بچ جائے گا
(تجزیہ:سلمان غنی) پنجاب اور سندھ خریداری کا اپنا ٹارگٹ حاصل کرنے کے بعد فلور ملز کو گندم کی فراہمی شروع کر چکے ہیں۔د وسری جانب حکومت کی جانب سے سستے داموں آٹے کی فراہمی کے تمام تر اقدامات پر عملدرآمد نہیں ہو پا رہا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک زرعی ملک میں مسلسل دوسرے سال بھی گندم کا بحران سر اٹھا رہا ہے ؟۔ جہاں تک خریداری مہم کا سوال ہے تو پنجاب نے 41 لاکھ ٹن کی خریداری کا ٹارگٹ حاصل کیا۔ اڑھائی لاکھ ٹن پہلے سے موجود ہونے کے باعث اب اس کے پاس ساڑھے 43 لاکھ ٹن گندم محفوظ ہے اور سندھ نے گزشتہ سال کے برخلاف اس سال 12لاکھ ٹن گندم خریدی لہٰذا گندم کا بحران ان دو صوبوں میں نہیں جبکہ پختونخوامیں ٹارگٹ ساڑھے چار لاکھ ٹن تھا مگر خریداری صرف 30ہزار ٹن ہوئی جس کی وجہ وہ موسمی حالات قرار دیتے ہیں اور اسی طرح شمالی علاقہ جات میں بھی گندم کی پیداوار متاثر ہوئی لہٰذا اصل بحران اس وجہ سے پیدا ہو رہاہے کہ گندم کی فصل آنے کے ساتھ ہی سٹیک ہولڈرز میں پریشانی پائی جا رہی ہے کیونکہ پنجاب سے گندم پختونخوا اور اس سے آگے افغانستان تک جاتی رہی ہے لیکن پنجاب نے سمگلنگ کنٹرول کر کے خود کو محفوظ بنا لیا لیکن پختونخوا میں گندم کی کمی کو کیسے پورا کرنا ہے یقیناً وفاقی حکومت اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اس کیلئے اقدامات کرے گی ۔واضح ہو گیا کہ اب جوں جوں وقت گزرتا جائے گا گندم کا بحران کسی نہ کسی شکل میں سر اٹھاتا رہے گا کیونکہ گندم ابھی کھیت کھلیانوں سے اٹھائی جا چکی تھی تو منڈیوں اور بازاروں میں اس کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا تھا۔ اس کی دو بنیادی وجوہات تھیں۔ ایک تو پنجاب کی خوراک کیلئے اہم علاقے جنوبی پنجاب میں گندم کی فصل بارشوں اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تباہ ہوئی اور فی ایکڑ گندم کی پیداوار انتہائی مایوس کن حد تک کم ہو رہی ہے ۔ منڈی اور بازار میں آڑھتی کو پیغام گیا کہ سیزن کے شروع میں اگر یہ حالت ہے تو آگے جا کر گندم ضرور مہنگی اور کم ہوگی۔اس وجہ سے مارکیٹ میں گندم کے ریٹ بڑھے اور ذخیرہ اندوزی نے زور پکڑا اور تاریخ میں پہلی بار جون اورجولائی کے مہینے میں دو ہزار روپے کے عوض گندم کا ایک من ہو گیا۔ اب ہر گزرتے مہینے اس کا فی من ریٹ کم از کم دو سو روپے بڑھے گا جس کا لازمی اثر چکی اور فلور ملوں کے آٹے پر بھی پڑے گا اور اس ماہ آٹے کی قیمت بھی بڑھ چکی ہے ۔اب وقت ہے جس طرح ماحولیاتی تبدیلیوں کے سلسلے میں اقدامات کر کے دنیا بھر کی تحسین حاصل کی گئی اس طرح زراعت پر قومی ایمرجنسی کا اعلان کر کے اسے ایک قومی صنعت کا درجہ دیا جائے ۔ زرعی تحقیق کے شعبے اور بینکنگ کے شعبہ کو کسان کے شانہ بشانہ کھڑا کر دیا جائے تو پھر پاکستان نہ صرف ملکی ضروریات کو پورا کرے گا بلکہ دالوں اور خوردنی تیل کیلئے قیمتی زرمبادلہ بچایا جا سکتا ہے ۔