کرپشن پر قابو پائے بغیر جمہوریت نہیں پنپ سکتی
تجزیے
موثر احتساب پر زور دینے کے بجائے ادارے کے خاتمے کا مطالبہ کیوں؟احتسابی ادار ہ حکومتی و سیاسی اثر سے آزاد ہو،نگران تعینات ہونا چاہیے
جمہوریت کو قومی اور عوامی مسائل کے حل کے ساتھ جوابدہی اور موثر احتسابی عمل کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔ جمہوری ممالک میں احتسابی اداروں کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ میں کمیشن اور کمیٹی کی صورت میں سیاستدانوں اور حکمرانوں پر تلوار لٹک رہی ہوتی ہے کہ اگر ان کے خلاف کسی قسم کی کرپشن یا لوٹ مار کے الزامات سامنے آئے تو انہیں ایسے کمیشن یا پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔ پاکستان میں کرپشن کے
بڑھتے ہوئے رجحانات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی قرار دی جاتی ہے کہ منتخب حکومتوں نے اس حوالے سے سنجیدگی نہیں دکھائی اور پارلیمنٹ کو بھی موثر احتسابی عمل کیلئے کسی مضبوط ادارے کے قیام کیلئے بروئے کار نہ لایا گیا۔دو بڑی جماعتوں کے درمیان چارٹر آف ڈیموکریسی میں ایک مضبوط احتسابی کمیشن کی بات تو کی گئی لیکن برسراقتدار آنے کے بعد اس حوالے سے کسی پیش رفت کیلئے سنجیدگی ظاہر نہ کی گئی، لہٰذا سب کو قومی احتساب بیورو پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ موجودہ حکومت نے بھی برسراقتدار آنے کے بعد موثر اور بے رحم احتساب کے دعوے تو کئے مگر اس عمل کیلئے احتسابی ادارے نیب کی کارروائیوں پر بڑی جماعتوں نے تحفظات کا اظہار شروع کر دیا ،نیب کے خاتمے کا مطالبہ کرنیوالی یہ دونوں اپوزیشن جماعتیں ابھی تک یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ان کے اپنے ادوار میں نیب کے حوالہ سے قانون سازی کیوں نہ کی گئی اور اب جبکہ احتساب کا شکنجہ خود ان کی لیڈرشپ کے گرد کسا جا رہا ہے تو پھر وہ نیب پر ہی برستے نظر آ رہے ہیں تویہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر سیاسی قوتیں احتسابی عمل سے خوفزدہ کیوں ہیں۔ انہیں تو احتسابی عمل کو اور زیادہ موثر، شفاف اور آزادانہ بنانے کی بات کرنی چاہیے اور اگر ان کا زور نیب کے خاتمہ کی جانب ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوگا کہ کیا وہ نیب کا خاتمہ چاہتے ہیں یا ملک کے اندر موثر احتساب کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔ملک میں احتساب کا کلچر پیدا کرنے کی ضرورت ہے ،ضرورت اس امرکی ہے کہ تحقیق، تفتیش اور مقدمہ پیش کرنے کے الگ الگ شعبے قائم ہونے چاہئیں جن میں اچھی صلاحیت اور دیانت کی شہرت رکھنے والے افسر متعین ہوں۔ احتسابی ادارے پر شفاف نگران کا اہتمام ہو اور اسے سیاست اور حکومت کے سائے سے آزاد ہونا چاہیے ۔ تاہم احتساب کا عمل دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے مترادف نہیں ہونا چاہیے ۔احتساب کے عمل میں پلی بارگین کے نظام کو ختم کرنا چاہیے ۔ جہاں جرم ثابت ہو وہاں پوری رقم قومی خزانہ میں واپس آنی چاہیے ۔ پاکستان میں کرپشن نے ام الخبائث کی شکل اختیار کر لی ہے اور زندگی کے ہر شعبہ میں بگاڑ اور خسارے کا ذریعہ بنی ہے ، اسے قابو میں لائے بغیر نہ تو ملک چل سکتا ہے نہ جمہوریت پنپ سکتی ہے اور نہ ہی گورننس کا خواب حقیقت بن سکتا ہے ۔