حکومت سے تعاون کیلئے پرعزم بلاول حکومت پر ہی برس پڑے
تجزیے
کورونا پر سیاست کے رجحان کا کسی کو فائدہ ہو نہ ہو’ نقصان متاثرین کورونا کا ہوگا
وزیراعظم عمران خان کو کورونا وائرس کی آمد پر سیاست چھوڑ کر حکومت سے مل کر چیلنج سے مقابلہ کی یقین دہانی کرانے والے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم عمران خان پر ہی برس پڑے ۔ بلاول بھٹو کی میڈیا بریفنگ میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی ان کے ساتھ بیٹھے تھے ۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم لاک ڈاؤن ختم کرتے ہیں تو ہسپتالوں پر دباؤ آئے گا۔ مئی ہمارے لئے اہم مہینہ ہے ۔ ابھی وائرس کا عروج ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری وفاقی حکومت اور وزیراعظم عمران خان کی پالیسی اور اقدامات کے حوالہ سے تحفظات ظاہر کرتے ہیں کہ کورونا جیسے چیلنج سے نمٹنے کیلئے جس اتفاق رائے کی ضرورت تھی وہ موجود نہیں۔کورونا پر سیاست عروج پر ہے اور سب کارکردگی کے حوالہ سے آگے بڑھنے کے بجائے کارکردگی کو میڈیا کے ذریعہ نمایاں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کورونا وائرس سے نمٹنے کے حوالہ سے سامنے آنے والی کمزوریوں کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے ہوئے خود سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔ کورونا پر سیاست کے رجحان کا کسی کو فائدہ ہو نہ ہو’ نقصان متاثرین کورونا کا ہوگا۔ اس صورتحال کے بعد ایک مرتبہ پھر وہی سوال ابھرتا ہے کہ کیا ہم نے تاریخ سے سبق حاصل نہیں کیا اور کورونا جیسی جان لیوا وائرس سے نمٹنے کیلئے بھی ہم نے اتفاق رائے سے آگے بڑھنے کے بجائے اپنی اپنی دکان لگا کر اسے چمکانے کی کوشش کر رہے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ کورونا وائرس کے کروڑوں متاثرین کیلئے شاید خوراک کا بندوسبت ہو گیا ہو لیکن ان کے روزگار پر پڑنے والی آنچ کا مداوا نہیں ہو پایا اور اب نئے مرحلہ پر اپوزیشن کو خصوصاً سندھ حکومت چاہتی ہے کہ دنیا بھر سے کورونا کے حوالہ سے آنے والی امداد میں انہیں بھی حصہ ملنا چاہئے لیکن اس حوالہ سے وفاق ان کی ایسی مدد سے گریزاں ہے ۔ دوسری جانب اپوزیشن بھی حکومت کی مخالفت کیلئے صرف میڈیا کا محاذ استعمال کرتے ہوئے بیانات اور اعلانات تک محدود رہی جس کی وجہ سے حکومت پر بڑا سیاسی دباؤ نہ آیا اور کورونا وائرس کے حوالہ سے کہا جا سکتاہے کہ حکومت خصوصاً وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اختیار کی جانے والی حکمت عملی اور دنیا میں انہیں ملنے والی پذیرائی کے حوالہ سے کہا جا سکتا ہے کہ انہیں اس صورتحال کاسیاسی فائدہ ملا وہ اس صورتحال میں اپنی پارٹی اراکین اسمبلی اور ورکر ز کو فعال بنانے میں کامیاب رہے اور اگر وہ اس صورتحال پر سیاست کے بجائے صرف خدمت تک سرگرمیاں مرکوز رکھتے اور اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلتے تو ان کی مقبولیت اور سیاسی طاقت میں اور اضافہ ہو سکتا تھا لیکن یہ شاید ان کے سیاسی کلچر کا حصہ نہیں جبکہ اپوزیشن کی لیڈرشپ شہباز سریف اور بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر رہنما کورونا کے بحران پر حکومت سے تعاون کی بات کرتے نظر آئے مگر ان کے اس جذبہ کو پذیرائی نہ ملی اور اب جبکہ بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف نیا محاذ کھولا گیا ہے تو ضرور اس کی بڑی وجہ ہوگی ویسے بھی کورونا وائرس آنے کے بعد پہلا حملہ چونکہ سندھ پر ہوا تو سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی تگ دو اور غیر معمولی خدمات کے باعث ملک بھر میں انہیں پذیرائی ملی جو وفاقی حکومت ہضم نہ کر سکی اور تحریک انصاف نے سندھ میں کورونا کے محاذ پر تگ دو اور متاثرین کیلئے سرگرمیوں پر انحصار کرنے کے بجائے سندھ حکومت اور وزیراعلیٰ سندھ کو ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا جس پر سیاسی محاذ گرم ہوا اور اس پر سیاست کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بلاول بھٹو زرداری کی پریس کانفرنس پر وفاقی حکومت کے ترجمان کا یہ بیان کہ سندھ کو کوئی پیسہ نہیں ملے گا اس لئے کہ یہ چور ہیں۔ یہ جلتی پر تیل کے مترادف ہے اور سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کبھی حکومتیں بحران طاری نہیں کرتی بلکہ بحرانوں کا خاتمہ ان کی ذمہ داری ہی ہوتی ہے لیکن یہ پہلی حکومت ہے جو ایک ہی وقت میں حکومت بھی ہے اور اپوزیشن کا طرزعمل اختیار کرتے ہوئے سیاسی محاذ گرم رکھنا چاہتی ہے ۔ یہ امر اور کسی کے فائدے میں ہو یا نہ ہو البتہ یہ متاثرین کورونا کیلئے نقصان کا باعث ہوگا۔ کورونا سے نمٹنے کیلئے جس ذمہ دارانہ کردار کی وزیراعظم عمران خان سے توقعات تھی وہ پوری نہیں ہو پائیں اور اب ان کایہ بیان کہ لاک ڈاؤن اشرافیہ کا کام ہے ۔ یہ ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے کہ فیصلہ سازی میں ان کے علاوہ بھی کچھ فورسز ہیں جو سرگرم ہیں اور ان کے اس بیان سے ان کی اپنی اہمیت کم ہوتی نظر آتی ہے ویسے بھی انہیں قوم کو ضرور اعتماد میں لینا چاہئے کہ یہ اشرافیہ کون ہے یہ کس کے سگنل پر سرگرم ہوتی ہے اور کس کے اشاروں پر اپنا رخ تبدیل کرتی ہے اور اگر اشرافیہ تگڑی ہے تو پھر چیف ایگزیکٹو کا کیا کردار ہے کہ ان سے بالا بالا بڑے فیصلے ہو رہے ہیں۔