آٹے کی قیمتوں میں اضافہ :روٹی بھی غریب کی پہنچ سے باہر
تجزیے
انتظامی مشینری کو صورتحال کا نوٹس لینے کی ہدایات کے باوجود عملاً کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا جس نے صرف روٹی کھا کربچوں کا پیٹ بھرنا، اس کیلئے یہ قیامت سے کم نہیں ہوگا
(تجزیہ: سلمان غنی)حکومت کی جانب سے گندم کے حوالے سے اپنا ہدف تقریباً مکمل کرتے ساتھ ہی پنجاب میں آٹے کے بحران اور اس کی قیمتوں میں نیا طوفان سامنے آ گیا ۔ فلور ملز مالکان نے آٹے کی قیمتوں میں من مانی کرتے ہوئے اس کی قیمت میں چھ سے سات روپے اور بیس کلو آٹے کا تھیلا ایک ہزار تک پہنچا دیا ۔ حکومت کی جانب سے انتظامی مشینری کو بار بار اس صورتحال کا نوٹس لینے کی ہدایات کے باوجود عملاً کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا اور اس طرح سے اب روٹی اور نان کی قیمتوں میں بھی چار اور چھ روپے تک اضافہ کا امکان ہے بلکہ بغیر کسی اعلان کے کئی تندور مالکان نے اضافی قیمت کی وصولی شروع بھی کر دی جس سے مسائل زدہ، مہنگائی زدہ عوام سخت پریشانی سے دو چار ہیں۔ صوبائی حکومت نے گندم کی خریداری اور اپنا ہدف ممکن بنا لیا اب چونکہ فلور ملز والوں کے پاس گندم کا کوٹہ نہ تھا اور انہوں نے اب پاس پڑی گندم اور زائد قیمت پر گندم کی خریداری کرتے ہوئے از خود آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کرایا اور اس طرح سے حکومت اور فلور ملز مالکان کے درمیان محاذ آرائی اور تناؤ کا نزلہ عام آدمی پر آ پڑا اور روٹی اور نان کی قیمت میں اضافے کا اعلان کر کے ان کی پریشانی میں اضافہ کر دیا گیا ، ایک جانب پنجاب حکومت کے پاس سر پلس گندم کا ذخیرہ ہے جو انہوں نے کسانوں سے خرید ی ہے تو دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ اب مارکیٹ میں گندم اٹھارہ سو سے دو ہزار میں فروخت ہونی شروع ہو چکی ہے ۔موسمی ناہمواریوں کے باعث امکان یہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ شاید اس دفعہ گندم کی فصل متاثر ہو اور کسان کو مطلوبہ نتائج نہ ملیں لیکن خدا کے فضل و کرم سے کسان کو گندم کی فصل اچھی ملی اور سندھ میں بھی گندم کی فصل بہتر ہوئی۔ جس نے صرف روٹی کھا کر پیٹ بھرنا اور اپنے بچوں کو پالنا ہوتا ہے اس کیلئے یہ سلسلہ قیامت سے کم نہیں ہوگا اور پاکستان کا یہ اعزاز رہا ہے کہ مشکل صورتحال اور بڑے بحرانوں کے باوجود پاکستان میں روٹی اس لئے مسئلہ نہیں بنی کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور زرعی ملک ہونے کی حیثیت سے ہم گندم میں خود کفیل ہوتے ہیں۔ پنجاب کی سطح پر آٹے اور گندم کے بحران کا جائزہ لینا ہو اور مافیاز کو بے نقاب کرنا ہو تو اس حوالے سے سابق سیکرٹری خوراک نسیم صادق کے اس مکتوب سے رہنمائی لی جا سکتی ہے جو انہوں نے چیف سیکرٹری کو بھجوایا تھا اور اپنے اٹھارہ صفحات کے مکتوب میں ڈھکے چھپے انداز میں مافیاز کو بے نقاب کر دیا تھا اور کہا تھا کہ گندم کی فروخت کے حوالے سے صوبے کو اربوں روپے کا نقصان ہوگا اور آٹا مہنگا ہوگا اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ آٹا مہنگا کیسے ہوگا، کرنے والے کون ہوں گے اور اس حوالے سے کون سے علاقے اہم ہیں۔ ماضی قریب میں گندم اور آٹے کے بحران پر صوبائی وزیر خوراک اور اس وقت کے محکمہ خوراک کے ذمہ داران کو گھر جانا پڑا لیکن اب گندم کی پیداوار آنے کے بعد سے ہی بحرانی کیفیت یہ ظاہر کر رہی ہے کہ اگر حکومت نے فوری طور پر اس کا مداوا نہ کیا اور مافیاز پر ہاتھ نہ ڈالا تو روٹی کا ایشو حکومت کو ایک نئی گھمبیر صورتحال سے دو چار کر دے گا۔ اس امر میں شک نہیں کہ فلور ملز والوں کی کچھ شکایات جائز ہیں لیکن انہیں حکومتی رٹ پر اثر انداز ہونے کا اختیار ملنا چاہئے اور نہ ہی نان بائی ایسوسی ایشن کو یہ اختیار ملنا چاہئے کہ وہ روٹی کی قیمت میں ایک ہی وقت میں چار روپے اور نان کی قیمت میں پانچ روپے کا اضافہ کر کے مہنگائی زدہ عوام کی زندگیاں اجیرن بنائیں ۔ اب حکومت خصوصاً پنجاب کی قیادت اور وزیر خوراک کا بڑا امتحان ہے کہ وہ احسن انداز میں اس مسئلہ کا حل نکالیں۔ یہ حکومت کو سمجھنا ہوگا ، روٹی عوام کی پہنچ سے باہر نہیں جانی چاہیے کیونکہ مسائل زدہ عوام ہر بات پر صبر کر لیتے ہیں لیکن روٹی کے ہاتھوں اپنے بچوں کو مرتا نہیں دیکھ سکتے لہٰذا ایک زرعی ملک میں وافر گندم کی موجودگی میں آٹے کے بحران کا کوئی جواز نہیں۔وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں گندم درآمد کرنے کا فیصلہ ہوا ہے ، گندم کی درآمد پر ڈیوٹی بھی ختم کی جا رہی ہے اور بین الصوبائی منتقلی پر پابندی بھی ختم کر دی جائے گی۔ اس وقت فلور ملز مالکان براہ راست گندم کی خریداری نہ کرنے کے باعث ایک نئی صورتحال پیدا کر رہے ہیں۔ آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے ۔ روٹی کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور دوسری اہم بات ٹڈی دل کا رجحان آنے والے حالات میں خطرناک صورتحال پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے لہٰذا چینی کی طرح گندم کے معاملہ پر وہ طرز عمل اختیار نہ کیا جائے جس کے اثرات خود حکومت کیلئے پریشان کن ہو ں ۔