لاہور میں لاک ڈاؤن کی افواہوں کی وضاحت
تجزیے
شہر میں ایسی آبادیوں کی بھی بہتات ہے جہاں سماجی دوریاں ممکن نہ بن سکیں دو سال ہونے کو آئے احتساب کے نتیجہ میں کسی سے لوٹی رقوم برآمد نہیں ہوئیں
(تجزیہ: سلمان غنی)وزیراعظم عمران خان نے اپنے دورہ لاہور کے دوران کورونا کے سدباب اور پھیلاؤ کو روکنے کیلئے سمارٹ لاک ڈاؤن کے آپشن کو بروئے کار لانے اور ایس او پیز پر عملدرآمد کے حوالہ سے سختی کرنے کے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ لاہور سمیت کسی بھی ضلع میں مکمل لاک ڈاؤن نہیں ہوگا۔ اس حوالے سے انتظامی مشینری اور ٹائیگر فورس اپنا موثر کردار ادا کرے گی۔ اچھا کیا انہوں نے لاہور میں لاک ڈاؤن کی افواہوں کی بھی وضاحت کردی ان کے اس اعلان اور پیغام کا سارا دباؤ اب انتظامی مشینری پر آئے گا اور اس حوالے سے واضح ہدایات کے ساتھ ان کے پاس یہ رپورٹس بھی یقیناً ہوں گی کہ پنجاب میں لاک ڈاؤن کی نرمی کے بعد وائرس کا پھیلاؤ کیسے ہوا اور ایم او یوز پر عملدرآمد کیوں نہ ہو سکا۔ شاید اسی وجہ سے انہوں نے ساتھ ٹائیگر فورس کو بروئے کار لانے کا عندیہ دیا۔ لاہور میں وائرس کا پھیلاؤ یقیناً حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہے اور خود حکومت پنجاب کی اس حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹ نے سب کو ہلا کر رکھ دیا اور اس کی بڑی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بڑا شہر ہونے کی حیثیت سے لاہور میں آمدروفت زیادہ تھی۔ شہر میں ایسی آبادیوں کی بھی بہتات ہے جہاں سماجی دوریاں ممکن نہ بن سکیں اور خصوصاً عیدالفطر سے قبل لاک ڈاؤن میں نرمی کے عمل نے لاہور کے بازاروں میں لگنے والے رش اور خریدوفروخت کے عمل نے وائرس کو کھلا چھوڑ دیا۔ وہ دندناتا اور متاثرین کی تعداد بڑھاتا نظر آیا اور اس حوالہ سے ایم او یوز ہوا میں تحلیل ہو گئے اور جس انتظامی مشینری اور خصوصاً پولیس کو ایم او یوز پر عملدرآمد کی ذمہ داری دی۔ یہ ذمہ داری انہوں نے ایم او یوز پر عملدرآمد کے بجائے اپنی جیبیں بھرنے اور عیدی وصول کرنے میں لگا دی۔ انہیں اس پر نہ تو کوئی خدا کا خوف تھا اور نہ ہی حکومت کی ذمہ داری کا احساس اور یہی وجہ تھی کہ لاہور جیسے شہر میں متاثرین کی تعداد لاکھوں میں جا پہنچی اور یہی صورتحال پنجاب کے بڑے شہروں میں دیکھی گئی۔ دکانداروں نے گاہکوں کو لوٹنے میں اپنی لسٹ نکالی اور پولیس نے ان کے شٹر گرانے اور اٹھانے کا بھی ٹیکس لیا ۔ ہمارا بڑا المیہ یہی ہے کہ یہاں نہ تو قانون کا احترام ہے اور نہ ہی ریاستی ہدایات پر عمل ہوتا ہے اور پھر خرابی کی ذمہ داری ریاست اور حکومت کو بھگتنا پڑتی ہے ۔اگر وزیراعظم عمران خان اپنی شاندار حکمت عملی کے ذریعہ عوام کو کورونا سے بچا پاتے ہیں اور یہاں متاثرین اور شرح اموات اتنی نہ ہوتیں تو اپوزیشن کو ان پر تنقید کی ضرورت نہ پڑتی۔ ویسے بھی اپوزیشن کا اب تک کا کردار پی ٹی آئی کی اپوزیشن والا نہیں۔ حکومت کے پاس ہر لحاظ سے فری ہینڈ ہے ۔ اپنی پالیسیوں کی تشکیل صلاحیتوں کو بروئے کار لائے اور نتائج کی فراہمی کے عمل کیلئے وہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔ ذمہ داری ان کی ہے لہٰذا وہ اپوزیشن کو ٹارگٹ کرکے نہیں بلکہ عوام کی عدالت میں خدمت کے ذریعہ سرخرو ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ کورونا سے پہلے ڈیلور کرنے میں کامیاب ہوئے عوام کی زندگیوں میں آسانیاں آئیں ۔ معیشت کی بحالی اور ترقی کا عمل تیز ہوتا گورننس یقینی سی نظر آتی تو پھر ملک میں اتنی بے یقینی اور بے چینی نہ ہوتی۔ کورونا سے پہلے ہی معیشت کا تو بھٹہ بیٹھ چکا تھا۔ کورونا نے تو رہی سہی کسر نکال دی۔ لہٰذا حکومت اب کورونا کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ایسا ممکن نہیں ہو پائے گا۔ نئے بجٹ سے بھی کوئی امید کے چراغ روشن نہیں ہو رہے ۔ آنے والے حالات میں بھی مشکلات ہی مشکلات ہیں۔ بے روزگاری کا ایک طوفان گرد اٹھاتا نظر آ رہا ہے جو نوشتہ دیوار ہے ۔ مگر حکومت اگر سمجھتی ہے کہ وہ ذمہ داری سے بچ پائے گی تو ایسا نہیں ہوگا۔ اچھا ہوتا کہ اتنا بڑے چیلنج کے مقابلہ کیلئے سولو پرواز کے بجائے سب کو ذمہ داری میں شامل کیا جاتا۔ کورونا پر انتشار کے بجائے یکجہتی کا اظہار ہوتا اور وزیراعظم عمران خان کا کردار قومی لیڈر کے طور پر ابھرتا۔ اپوزیشن کو نیب کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اور ان کے خلاف پراپیگنڈا مشینری تیز کر کے کسی خیر کی توقع کی جا سکتی تھی۔ آج پاکستان میں ہر باشعور شخص یہ کہتا نظر آتا ہے کہ کورونا کی تباہ کاریوں پر سیاست کی گنجائش نہ تھی مگر ایسا کیونکر ہوا۔ کس نے کہا اس کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔ دو سال ہونے کو آئے احتساب کے نتیجہ میں نہ تو کسی کا پیٹ چاک ہوا نہ لوٹی گئی رقوم برآمد ہوئیں اور نہ قیدو بند کا عمل اپوزیشن کی آواز دبا سکا۔ لہٰذا اب بھی وقت ہے یہ حکومت اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے اور کورونا کے وائرس اس کے پھیلاؤ سے نمٹنے کیلئے قومی اتفاق رائے کی جانب راغب ہو ۔ اب تک کے حالات نے ثابت کیا ہے کہ حکومت کے پاس نعرے وعدے اور مخالفین کو کوسنے کیلئے سب کچھ ہے مگر اس کی جھولی میں کارکردگی نہیں۔ خدا کرے کہ آنے والا وقت حکومت اور ملک و قوم کیلئے بہتر ہو۔