کورونا :ہم درمیان میں پھنس گئے ، فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو گیا
تجزیے
پاکستان نے لاک ڈاؤن کی شرائط پوری نہیں کیں ،کورونا کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا لوگ اپنی جانوں سے جائیں گے تو ذمہ داری حکومت پر آئے گی، اس کو تیار رہنا چاہئے
(تجزیہ: سلمان غنی)کورونا کے حوالے سے پیدا شدہ خوف و ہراس نے پہلے ہی عوام کی زندگی دوبھر کر رکھی ہے اور انہیں آگے کچھ نظر نہیں آرہا۔ ایسے میں وفاقی وزیر اسد عمر کے اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کر ڈالا ہے کہ ماہرین کی رائے میں جولائی کے آخر تک کورونا وائرس میں مبتلا مریضوں کی تعداد دس سے بارہ لاکھ ہو سکتی ہے ۔ اس امر میں شک نہیں کہ کورونا کا رجحان بڑا طوفان بن کر آیا ہے اور آ رہا ہے ۔ اس میں ریاست اور حکومت کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ شروع میں عوام نے نظم و ضبط دکھایا لیکن بعدازاں لاک ڈاؤن نرم کرنے سے صورتحال حکومت اور اداروں کے کنٹرول سے باہر ہوتی گئی اور ہو رہی ہے ۔ جب حکومت کے اندر یہ احساس ذمہ داری ہو کہ اپنے عوام کو وائرس سے بچانا ہے تو اس کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے اور اس مقصد کیلئے انہیں ممکنہ اقدامات کرنا ہوتے ہیں ،افسوس یہ کہ ہم درمیان میں پھنسے کھڑے نظر آئے اور اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو گیا جبکہ عالمی ادارے خصوصاً عالمی ادارہ صحت نے اس پر شدید تشویش ظاہر کی اور خصوصاً لاک ڈاؤن کی صورتحال پر ایک مکتوب میں انہوں نے کہا کہ نرمی کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ پاکستان نے لاک ڈاؤن کے خاتمہ کی شرائط پوری نہیں کیں جس کی وجہ سے کورونا کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا۔ ادارہ صحت نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ وائرس کے سدباب کیلئے دو ہفتے سختی اور دو ہفتے نرمی کی پالیسی اختیار کریں۔ عالمی سطح پر کورونا کے متاثرین کی تعداد میں اضافہ کے باوجود پاکستان میں متاثرین اور شرح اموات کا تناسب کم رہا لیکن یہ پالیسی میں نرمی کا کیا دھرا ہے کہ یہ تناسب برقرار نہ رہ سکا۔ ادارے پاکستان کو خبردار کر رہے ہیں کہ یہاں نرمی نہ برتیں۔ نرمی کچھ اقدامات اور اس کے نتائج کے لئے ناگزیر ہوتی ہے لیکن ہم نے نہ تو موثر اقدامات کئے اور نہ ہی مطلوبہ نتائج ہمیں ملے اور نہ ہی ہمارا صحت کا سسٹم ایسا ہے جو اس کا بوجھ اٹھا پائے لہٰذا عوام کی جانب سے احتیاط کے باوجود کچھ کام حکومت کے کرنے کے ہیں اور اس حوالہ سے یکسوئی اور سنجیدگی ضروری ہے ۔ لوگ اپنی جانوں سے جائیں گے تو ذمہ داری حکومت پر آئے گی۔ اس کو اس کیلئے تیار رہنا چاہئے ۔ آج زیادہ ضرورت لوگوں کو زندگیاں بچانے کیلئے احتیاطی اقدامات پر زور دینے اور اسے یقینی بنانے کی ہے نہ کہ خوف و ہراس پھیلا کر مایوسی اور بے یقینی طاری کر دی جائے اور لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ جو ہوتا ہے وہ ہو کر رہے گا۔ پاکستان میں کورونا کے بعد سے اب تک حکومتی دعوے بے بنیاد ثابت ہو رہے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں ممکنہ سہولتوں کی فراہمی کے تمام تر دعووں کے باوجود مریضوں کے حوالہ سے یہ تجربات سب کے سامنے ہیں کہ مریض کو لئے لئے پھرا جاتا ہے اور کوئی انہیں اکاموڈیٹ کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں زبانی جمع خرچ کرتی تونظر آتی ہیں لیکن وبا سے نمٹنے کی موثر حکمت عملی بنانے سے قاصر ہیں۔ جو بھی اقدامات کئے گئے وہ وقت پڑنے پر ناقص ثابت ہوئے ۔ جہاں تک ڈاکٹروں’ نرسوں کی خدمات کا تعلق ہے تو نامساعد صورتحال کے باوجود وہ خدمات سرانجام دیتے نظر آ رہے ہیں لیکن آئے روز ڈاکٹروں پر تشدد کے واقعات بھی ریکارڈ پر ہیں جبکہ ان کی سکیورٹی کی ذمہ داری حکومت کی ہے ۔ خاص طور پر بڑے شہر لاہور’ کراچی’ اسلام آباد میں متاثرین کی بڑی تعداد سامنے آنے کے باوجود یہاں وہ خاطر خواہ اقدامات نہیں ہوتے کہ اس رجحان کے آگے بند باندھا جا سکے اور اب تو یہ خطرہ بھی منڈلانے لگا ہے کہ اگر بڑے شہروں میں یہ وبا سنگین ہوگئی تو پورا ملک محفوظ نہیں رہے گا۔ اس نازک صورتحال میں سب کو اپنی اپنی ذمہ داری نبھانا ہے ۔ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ سیاست کرنے کے بجائے اس مسئلہ پر حکمرانوں کو جھنجھوڑیں کیونکہ یہ صرف چند افراد کا مسئلہ نہیں یہ ہزاروں لاکھوں کا مسئلہ بن گیا ہے ۔ حکومت یقیناً مشکل میں ہے ۔ صورتحال گھمبیر ہے لہٰذا دن رات صورتحال کے تدارک کے لئے کام کرنا ہوگا۔ آئے روز بیانات اور اعلانات کے بم چلا کر صورتحال کو بہتر نہیں بنایا جا سکتا اس کیلئے مسلسل کام کرنا پڑے گا۔ خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہو کر میدان میں اترنا ہوگا۔ یہ وبا اور بلا خطرناک حدوں کو چھوتی نظر آ رہی ہے ۔ یہ آپے سے باہر ہوئی تو حکمران بھی محفوظ نہیں رہ پائیں گے اور نہ ہی اشرافیہ منہ چھپا کر سرخرو ہو سکے گی۔ بہتری اسی میں ہے کہ عوام کو ڈرانے کے بجائے ان کو وبا سے بچانے کا بندوبست کیا جائے ۔ وبا بیانات سے قابو نہیں آئے گی اس کیلئے کچھ کر کے دکھانا ہوگا۔ جس سختی کی بات کی جا رہی ہے وہ سختی ممکن بنانا ہوگی ورنہ کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔