چینی مافیا کیخلاف عدالتی فیصلہ کے بعد اداروں کا امتحان شروع
تجزیے
پہلی بار حکومت تحقیقات منظرعام پر لائی اور یوں خوب داد بھی سمیٹی جو رہنما عوامی غیظ و غضب کا شکار بنتے ہیں انہیں کوچہ سیاست میں جگہ نہیں ملتی
(تجزیہ: سلمان غنی)اسلام آباد ہائیکورٹ نے چینی انکوائری کمیشن پر حکم امتناعی خارج کرتے ہوئے تمام متعلقہ اداروں کو چینی کمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمد کرنے کی اجازت دے دی ۔ فیصلہ کے بعد اب نیب حکومتی اداروں خصوصاً ایف آئی اے ، ایس ای سی پی، مصالحتی کمیشن، سٹیٹ بینک اور دیگر کو رپورٹ پر عملدرآمد کیلئے گرین سگنل مل گیا ، اب ان کا اصل امتحان شروع ہے ، دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا ادارے ملک میں چینی بحران اور سکینڈل میں ملوث افراد کو کٹہرے میں لا پاتے ہیں اور چینی کی فی کلو قیمت 70 روپے یقینی بن سکتی ہے یا نہیں ، جن اداروں اور ان کے ذمہ داران نے اس سکینڈل کے ذریعے اربوں روپے لوٹے کیا ان سے اس حوالہ سے جوابدہی ہو پائے گی ۔ سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایسے سکینڈلز پر بننے والی کمیٹیاں اور کمیشن جب اپنی رپورٹ پیش کرتے ہیں تو ان پر اس سپرٹ کے مطابق عملدرآمد نہیں ہو پاتا۔رپورٹ میں ہی بتایا گیا ہے کہ متعلقہ ادارے اس بھیانک اور غیرمعمولی عمل پر خاموشی اختیار کیے بیٹھے رہے ، لہٰذا اب حکومت اور اداروں کا اصل امتحان شروع ہے ،چینی بحران کا ذکر کرتے ہوئے ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ اس کا آغاز ملک میں یکدم چینی کی قیمتوں میں اضافے اور ذخیرہ اندوزی کے پیدا ہونے سے ہوا۔ ایک طرف ہمیں حکومت کی طرف سے بتایا گیا کہ اس بار گنے کی فصل شاندار ہے اور کسانوں کو گنے کی بہتر قیمت دی جا رہی ہے اور ملک میں چینی کی پیداوار سرپلس میں ہے ۔ اسی حکومتی حقائق کی بنیاد پر شوگر ملوں کو گیارہ لاکھ ٹن چینی ایکسپورٹ کرنے کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ پنجاب کی صوبائی حکومت نے 13ارب روپے کی ایکسپورٹ سبسڈی بھی دی۔ عوام کے ساتھ حکومت نے شاطرانہ چال یہ چلی کہ چینی کی فی کلوگرام قیمت یوں بڑھادی کہ اپنا سیلز ٹیکس اس پر بڑھا دیا اور ہوا یوں کہ ایکسپورٹ کرنے سے چینی کم ہو گئی اور شوگر ملوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی کہ وہ من چاہی قیمتیں بڑھا دیں۔ اس معاملے میں حقیقت یہی ہے کہ چینی کی فی کلوگرام قیمت 85 روپے اور کہیں کہیں ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے 90روپے اور کہیں تو بالکل ناپید ہو گئی۔ وزیراعظم کے نوٹس کے بعد تحقیقات ہوئیں مگر نہ تو مجرم پکڑے گئے اور نہ چینی کی قیمت کم ہوئی۔ حکومت مت بھولے کہ چینی کے معاملے میں غریب عوام کو دو مرتبہ لوٹا گیا۔ ایک بار کسان کو جب وہ گنا شوگر ملوں کو بیچ رہا تھا۔ کرشنگ کا یہ مرحلہ کسان کے استحصال سے بھرپور ثابت ہوتا ہے ۔ کسان کو قیمت پوری نہیں ملتی۔آٹے کے معاملے میں بھی یہی ہوا شروع میں حکومت نے اس بحران کو سندھ حکومت کی طرف موڑنے کی کوشش کی مگر درحقیقت وہ بحران آٹا افغانستان اور ایران سمگل یا ایکسپورٹ کرنے سے پیدا ہوا تھا۔ عوام کا خیال تھا کہ شاید حکومت سبق حاصل کرے گی اور آئندہ گندم بحران کو پیدا نہیں ہونے دے گی مگر ستم یہ ہوا کہ آٹا بحران پھر سر اٹھا رہا ہے ۔حکومت کی پالیسیوں یا بدانتظامی کی وجہ سے آٹے و گندم کا جو نرخ دسمبر میں ہونا تھا وہ آج جون کے مہینے میں ہو چکا ہے ۔ وزیراعظم نے سب سے پہلے دواؤں کی قیمتوں کو چپکے سے بڑھانے والے عامر کیانی کی حوصلہ افزائی یوں کی کہ انہیں پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنا دیا اور پھر اس کے بعد ہر قماش کے مافیا کا حوصلہ بلند ہوا اور یوں ہر روز ایک نیا انتظامی بحران ہمارے سامنے کھڑا ہوتا ہے ۔ عمران خان صاحب ان حالات میں بھی مافیا کو نیست و نابود کرنے اور کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے کا عزم دہراتے ہیں۔ وہ مت بھولیں کہ اگر گورننس بہتر نہ بنائی تو پھر عوام انہیں اور ان کی پارٹی کو ماضی کا حصہ بنا ڈالیں گے ۔ عوام صبر سے ہر ناانصافی برداشت کرتے ہیں مگر عوام کا آخری انتقام خوفناک ہوتا ہے ۔ جو رہنما یا جماعتیں عوامی غیظ و غضب کا شکار بنتی ہیں انہیں کوچہ سیاست میں جگہ نہیں ملتی۔