پٹرولیم قیمتوں میں اضافہ ، حکومت کو دفاعی پوزیشن پر آنا پڑا
تجزیے
اپوزیشن کااضافہ کو بڑے ایشو کے طور پر لیتے ہوئے حکومت پر دباؤ بڑھانے کا فیصلہ اضافہ سے لگتا ہے حکومت پر بہت زیادہ دباؤ تھا جو راتوں رات قیمتیں بڑھانا پڑ یں
(تجزیہ: سلمان غنی)پٹرولیم کی قیمتوں میں ہونیوالے بڑے اضافہ نے ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے ، اس حوالہ سے آنے والے ردعمل کے باعث منتخب حکومت کو دفاعی محاذ پر آنا پڑا، خود حکومتی وزرا اور اراکین اسمبلی کا ردعمل اور تحفظات بھی سامنے آ رہے ہیں جبکہ اپوزیشن نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والے بڑے اضافہ کو بڑے ایشو کے طور پر لیتے ہوئے حکومت پر دباؤ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے ، تاثر یہ قائم ہو رہا ہے کہ سیاسی سطح پر بڑے چیلنجز کے باوجود حکومت کیلئے کوئی بڑی پریشانی کا سامان نہ تھا لیکن اب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے بعد عوامی سطح پر منتخب حکومت اور اس کی قیادت کے حوالہ سے غم و غصہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ بظاہر تو حکومت کی جانب سے اس اضافہ کو عالمی مارکیٹ سے بھی جوڑا جا رہا ہے اور کہا یہ جا رہا ہے کہ اس حوالہ سے حکومت کے پاس اس آپشن کے سوا کوئی اور آپشن نہ تھا لیکن حکومت کی سب سے زیادہ پوزیشن کی خرابی کی بڑی وجہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے ساتھ یہ ہوئی کہ آخر کون سی قیامت ٹوٹ پڑی تھی یا حکومت پر تلوار لٹکی نظر آ رہی تھی کہ 30جون تک کا انتظار نہیں کیا گیا بلکہ 26جون کو بھی رات بارہ بجے تک کا انتظار نہ کرتے ہوئے وزارت خزانہ کے احکامات پر عملدرآمد ہو گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت پر بہت زیادہ دباؤ تھا اور اس دباؤ سے صرف نظر برتنا حکومت کیلئے ممکن نہیں تھا۔ اس سے پہلے یہ اضافہ وزارت پٹرولیم کی مرضی سے اوگرا تجویز کرتا تھا اور حتمی فیصلہ حکومتی منظوری سے ہوتا تھا لیکن پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا کہ یہ اضافہ اوگرا کی جانب سے تجویز کرنے کے بجائے بالا بالا وزارت خزانہ نے کیا اور فوری طور پر نافذ کر دیا گیا۔اضافہ سے ایک روز قبل وفاقی کابینہ کا اجلاس تھا کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا بلکہ دو اہم وزرا مراد سعید اور علی محمد خان تو یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ اس حوالہ سے کابینہ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اوریہ اقدام اس موقع پر نہیں ہونا چاہیے تھا جبکہ وفاقی وزیر فواد چودھری نے اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم سے تو 25 روپے لٹر میں اضافہ کا دفاع نہیں ہو رہا، اپوزیشن تو سب کچھ ہونے کے باوجود اپنی لیڈرشپ کا دفاع کرتی نظر آ رہی ہے ۔ یہ امر خود منتخب حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے اور اس پہ سوچنا بھی پڑے گا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کیوں نہ ہو پائی اور اب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سے اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ آگ کی طرح کیسے پھیلا، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے براہ راست اثرات زراعت، ٹرانسپورٹ اور دیگر شعبہ جات پر بھی ہوں گے ۔ جہاں تک اپوزیشن کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ پر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ردعمل کا سوال ہے تو یہ احتجاج بھی روایتی حد تک ہوگا۔ اگر پاکستان میں اپوزیشن موثر کردار ادا کرتے ہوئے مہنگائی زدہ عوام کی آواز بنتی تو کسی حکومت کو پریشان حال عوام پر پٹرولیم بم گرانے کی جرأت نہیں ہوتی۔ اب نئی حکومت کے اس تجربہ کے بعد ہمارے پاس توبہ کرنے اور بددعاؤں کے سوا کچھ نہیں ، خصوصاً پاکستان کے نوجوان جو روزگار کی امید لگائے بیٹھے تھے تقریباً ایک کروڑ افراد کے بے روزگار ہونے کے بعد ایک دوسرے سے یہ پوچھتے نظر آرہے ہیں کہ ’’کسے رہنما کرے کوئی‘‘ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ 2020 کو خوشخبریوں کا سال قرار دینے والے زمینی حقائق کا اندازہ کر لیں تو انہیں آئینے میں بہت کچھ نظر آ جائے گا۔ مایوسی، بے چینی اور بے یقینی انتہاؤں کو چھو رہی ہے ۔بار بار حکومتی ذمہ داران پٹرول کی قیمتوں کے حوالہ سے بھارت، بنگلہ دیش کی مثالیں دیتے نظر آتے ہیں تو پھر یہ بھی بتا دیں کہ ان کی شرح پیداوار کیا ہے ۔ ان کے زرمبادلہ کے ذخائر کتنے ہیں۔ ان کی معیشت دگرگوں کیوں نہیں۔ وہاں روٹی کی قیمت کیا ہے ۔ دالیں اور گھی کس بھاؤ میں بکتے ہیں ان کی صنعتیں کیوں ترقی کرتی ہیں، حکومتی موقف اپنی جگہ لیکن حالات اور حقائق یہی بتا رہے ہیں کہ حکومت کا اپنا کوئی سیاسی کیس نہیں رہا ، حکومت میں موجود غیرمنتخب ارکان حکومت کو اپنی ڈگر پر چلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ وہی ہیں جن کے بارے میں ایک وفاقی وزیر غلام سرور خان نے کہا تھا کہ کابینہ میں ایسے بھی بیٹھے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے کہ یہ کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں اور کیا لینے آئے ہیں ، اسلام آباد کے ذمہ دار حلقے ڈھکے چھپے انداز میں اب یہ کہنے لگے ہیں کہ یہ اپنے ایجنڈا کے تحت آئے ہیں اور اب محسوس ہو رہا ہے کہ اہم فیصلے ملک کے اندر نہیں بلکہ باہر کے مالیاتی ادارے کر رہے ہیں جو بڑے قومی المیہ سے کم نہیں۔