جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ:الیکشن میں نئے صوبے کے وعدے ہونگے
تجزیے
سیکرٹریٹ کے نام پر جنوبی پنجاب کوڈاکخانہ مل گیا،کام لاہورکے اشارے پر ہونگے ملک ناقابل حکمرانی بن چکا،سیاستدان کام نہ کر سکے توناگزیر فیصلوں نے توہونا ہے جنرل ضیاالحق ،مشرف ،نواز شریف اور بینظیر کے ادوار میں گورننس بہترنہ ہوسکی
( تجزیہ:سلمان غنی)جنوبی پنجاب کے عوام کی محرومیوں اور مسائل کے حل کیلئے جنوبی پنجاب صوبہ کا قیام تو عمل میں نہ آ سکا لیکن جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا قیام عمل میں آ چکا ہے ۔ جس کے تحت ایک ایڈیشنل چیف سیکرٹری بہاولپور میں اور ایک ایڈیشنل آئی جی ملتان میں بیٹھ کر علاقہ کے اہم انتظامی مسائل پر فوری احکامات جاری کر سکیں گے ۔ پنجاب حکومت نے مذکورہ سیکرٹریٹ کے قیام اور دیگر اخراجات کیلئے بڑی رقم مختص کی ہے جبکہ پنجاب کے سالانہ بجٹ میں 33فیصد ترقیاتی بجٹ جنوبی پنجاب میں ترقی و خوشحالی کے عمل کیلئے رکھاگیا ہے لہٰذا دیکھنا ہوگا کہ یہ سیکرٹریٹ جنوبی پنجاب کے مسائل زدہ عوام کی محرومیوں کا مداوا کر سکے گا،اس سیکرٹریٹ کے قیام کے بعد جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کا حکومتی وعدہ پورا ہوگا۔ وہ کیا وجوہات ہیں کہ جس بنا پر صوبہ کا قیام پس پشت چلا گیا اور سیکرٹریٹ جیسے ہنگامی فیصلے عمل میں لائے گئے اور کیا وجوہات ہیں کہ گورننس جیسے سنجیدہ ایشوز پر حکومتیں نئے انتظامی یونٹ بنانے کے بجائے ڈنگ ٹپاؤ اقدامات کا سہارا لیتی ہیں اور کیا نئے صوبوں کے قیام کے حوالہ سے سیاسی جماعتوں کے وعدے اب نئے انتخابات پر بھی دوبارہ سننے میں آئیں گے ۔ ملکوں کے اندر گورننس کے مسائل اور حکومتی کارکردگی کی مشین کے بہتر استعمال کیلئے بہت ضروری سمجھا جاتا ہے کہ اختیارات کی تقسیم ہو اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کیلئے چھوٹے انتظامی یونٹ اور اس کے بعد مضبوط بلدیاتی نظام جو عام آدمی کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے ہمہ وقت موجود ہو۔د نیا بھر میں گورننس کی فلاسفی اور اس کا میکانزم سمجھنے والے لوگ ہمیشہ زور دیتے ہیں کہ بڑی آبادی کے ممالک اور بڑے صوبوں میں آئینی اقدامات کے بعد چھوٹے انتظامی یونٹ کا قیام یقینی بنائیں۔ پاکستان میں گورننس کے معاملات پر نظر ڈالیں تو اس جملے پر یقین کرنے کو جی کرتا ہے کہ یہ ملک کئی دہائیوں سے ناقابل حکمرانی بن چکا ہے ۔ ملک میں بہتر گورننس کی خواہش رکھنے والے حکمران اور بیورو کریٹس کوہوا کے مخالف اپنا چراغ جلانے کی ناکام کوشش کرناپڑتی ہے ۔ ملک میں بدانتظامی اور چاروں طرف محرومی کے ماحول میں جس نے بھی ان معاملات کے حل کیلئے مخلصانہ کوشش کی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ملک نے چار آمریتیں دیکھ لیں اور درجن بھر وزرائے اعظم بھی آزما لئے مگر گورننس کی بہتری کیلئے بنیادی اصلاحات کی طرف کسی نے بھی قدم نہ بڑھایا،ملکی تاریخ میں پہلے 20سال کے اندر چھوٹے صوبوں کا قیام اور نچلی سطح پر موثر عوامی حکومتیں قائم ہو جاناچاہئیں تھیں مگر ملک میں پہلے مضبوط سول بیورو کریسی اور پھر انتہائی مضبوط فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اس طرف توجہ ہی نہ دی بلکہ عملاً اختیارات کی مرکزیت کو اپنے سینے سے لگا کر رکھا۔ بنگال میں محرومی’ بدانتظامی اور معاشی ناہمواری نے اپنا راستہ بنایا تو اس میں رکاوٹ کیلئے ایک بااختیار صوبائی حکومت تھی ہی نہیں۔ ڈھاکہ کے انتظامی معاملات راولپنڈی کے بھیجے ہوئے افراد چلا رہے تھے جنہیں زمینی حقیقتوں کا نہ تو ادراک تھا اور نہ ہی حالات میں بہتری کیلئے ان کے پاس کوئی سنجیدہ پلان تھا۔ ان حالات میں ملک دولخت ہوا اور باقی سب تاریخ ہے ۔ 1971 کے بعد کا پاکستان ایک نیا سفر تھا۔ اس میں بہت کچھ بہتر اور نیا ہوا مگر اختیارات کی تقسیم اور نچلی سطح تک منتقلی عمل میں نہ آئی اور شاید اس وقت کا بچا کچھا پاکستان آبادی کے لحاظ سے اتنا بڑا بھی نہ تھا اور معاملات یونہی چلتے رہے ۔ اس کے بعد ملک نے ضیا الحق اور جنرل مشرف کا طاقتور دور بھی دیکھا اور نواز شریف اور بینظیر جیسے مقبول رہنما بھی د یکھے ۔ فوجی آمر پنجاب اور سندھ میں بآسانی نئے انتظامی یونٹس بنا سکتے تھے مگر ان کی ترجیحات یہ کبھی بھی نہ تھیں۔ فوجی آمر اپنی نفسیات میں اختیارات کو اپنی مٹھی میں بند کر کے رکھتا ہے ۔ اصل گلہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف سے ہے ۔ بینظیر کا سیاسی گڑھ سندھ تھا اور نواز شریف کی انتخابی مقبولیت پورے پنجاب میں تھی۔ ان دونوں کے سیاسی مفادات انتظامی اصلاحات کے راستے میں رکاوٹ بنے اور نئے انتظامی یونٹس نہ بن سکے اور ان دونوں بڑی سیاسی شخصیات کے زیر اثر ان کی جماعتیں بھی نئے انتظامی یونٹس کے حوالے سے بھی یہی سوچ رکھتی ہیں اور دونوں اپنے سیاسی گڑھ پنجاب اور سندھ کی تقسیم نہیں چاہتیں۔ 2018 کے بعد کا منظر نامہ اور ہے ’ ملک کی آبادی بڑھ چکی ہے اور خصوصاً پنجاب آبادی کے اعتبار سے پوری فیڈریشن کو غیر متوازن بنا رہا ہے ۔ 2018کے الیکشن میں ملک میں تیسری قوت برسراقتدار آئی اور عمران خان جنوبی پنجاب کی سیاسی اشرافیہ کو جنوبی پنجاب صوبے کے نعرے پر اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب رہے اور پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار ایک سرائیکی علاقے سے عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بھی بنا دیاگیا۔ لازمی طور پر عمران خان کے ذہن میں یہی معاملہ ہوگا کہ ایک سرائیکی شخصیت کو لاہور میں لا بٹھایا جائے تاکہ وقتی طور پر یہ بحث دب جائے ۔ پنجاب اسمبلی اور قومی پارلیمان میں آئین سازی کیلئے حکومت کی پوزیشن نہایت کمزور ہے اس لیے حل یہی نکالا گیا کہ ایک عارضی اور چھوٹا سیکرٹریٹ بنا دیا جائے جہاں ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی پنجاب کو بٹھایا جائے ۔ اس کیلئے اب تعیناتی بھی ہو چکی ہے اور صوبے کا 33فیصد بجٹ بھی جنوبی پنجاب پر لگانے کے عزم کا اعادہ ہو رہا ہے ۔ اب یہ فیصلہ ہو چکا ہے اور عملدرآمد کا مرحلہ درپیش ہے ۔ مختلف سوالات اور الجھن کا ایک طویل مرحلہ سامنے ہے ۔ اس سیکرٹریٹ کا عملاً مقصد کیا ہے ؟ فوائد کیا ہوں گے ؟ کیا کارسرکار مکمل طور پر لاہور کے بجائے بہاولپور اور ملتان میں نمٹائے جائیں گے ؟ ملتان اور بہاولپور میں تعینات افسر کس کو جوابدہ ہوں گے ؟ اگر تعینات افسران لاہور کے سیکرٹریٹ کو جوابدہ ہوں گے تو پھر تمام انتظامی معاملات جنوبی پنجاب میں کیسے نمٹائے جائیں گے ؟ ان تمام سوالوں کے جوابات تو وقت کے ساتھ آئیں گے مگر جنوبی پنجاب میں لوگ اب سمجھ رہے ہیں کہ انہیں سیکرٹریٹ کے نام پر ایک ڈاکخانہ دے دیا گیا جس کا کام لاہور سیکرٹریٹ سے اشارہ پا کر کام کرنا ہے ۔وہ سوچ رہے ہیں کہ ایک ایسا سیکرٹریٹ جہاں بیوروکریسی کے افسران اور صوبائی محکموں کے سربراہان نہ بیٹھیں وہاں ان کے کام تیز رفتار اور بروقت کیسے ہوں گے ؟ جنوبی پنجاب میں سوچ پائی جا رہی ہے کہ کام کرنے والے افسران نے اپنی رپورٹ کیلئے لاہور سیکرٹریٹ کی طرف دیکھنا ہے تو پھر ان کیلئے بیورو کریسی سے نئے حاکم لا بٹھانے کی ضرورت کیا ہے ؟ جنوبی پنجاب کے اراکین اسمبلی کیلئے یہ معاملہ دہری مصیبت والا بن جائے گا وہ اپنے عوامی کاموں کیلئے لاہور اور ملتان کے درمیان شٹل کاک کی طرح گھومتے رہیں گے ۔ یہ سوچ اب عام ہے کہ نئے صوبے کے نام پر ایک بے اختیار سا منی سیکرٹریٹ دے کر دھوکہ کیا گیا ہے ۔ اس صوبے کی آبادی’ سرائیکی خطے کی محرومی اور استحصال اور فیڈریشن کی مضبوطی ایک نئے صوبے کا تقاضا کر رہی ہے ۔ کیا ہماری سیاسی قیادتیں اور حکمران اس کا فہم و ادراک رکھتے ہیں؟ 2023 کے انتخابات سے پہلے جنوبی پنجاب کا صوبہ ایک ناگزیر حقیقت میں بدل چکا ہے ۔ پی ٹی آئی نے پیش بندی کے طور پر اپنے بچاؤ کیلئے یہ قدم اٹھا لیا ہے مگر یہ ایک نامکمل منصوبہ اور مبہم سیکرٹریٹ ان کے گلے بھی پڑ سکتا ہے ۔ حالات کا دھارا یہ بتا رہا ہے کہ سیاستدان جلد بازی میں بالآخر کسی کے اشارے پر آخری وقت میں فیصلہ کریں گے جس طرح راتوں رات فاٹا کے خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کیلئے کیا تھا۔ سیاسی جماعتوں اور حکمرانوں کیلئے بہتر ہوگا کہ کسی کا اشارہ پا کر بروئے کار آنے سے بہتر ہے کہ عوامی خواہشات پر اپنے حصے کے فیصلے کر ڈالیں وگرنہ کچھ ناگزیر فیصلوں نے ہونا تو ہے ’ آج نہ سہی مگر کل ہوں گے تو سہی!