نیب ترامیم کیس کا تحریری فیصلہ جاری، جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ

اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب ترامیم کیس کا تفصیلی فیصلہ 2:1 کے تناسب سے جاری کر دیا ہے جس میں جسٹس منصور علی شاہ کے اختلافی نوٹ کو بھی حصہ بنایا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری تفصیلی فیصلے کے آغاز میں سورۃ انفال کی آیت کا تذکرہ کیا گیا ہے، اکثریتی تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سابق چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے نیب قانون بنا کر اس کا اطلاق یکم جنوری 1985ء سے کیا۔

یہ بھی پڑھیں: نیب ترامیم کالعدم قرار، عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے کیسز بحال

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سال 2022ء میں نیب قانون میں ترمیم سے احتساب عدالتوں کے ریفرنسز متاثر ہوئے، 2022ء میں احتساب عدالتوں سے نیب ترامیم کے بعد 386 ریفرنسز واپس ہوئے، 2023ء میں ترامیم سے 212 نیب ریفرنسز واپس ہوئے، نیب ترامیم سے اب تک 598 ریفرنسز واپس کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: سابق صدر اور 6 سابق وزرائے اعظم کے نیب کیسز دوبارہ بحال

فیصلے کے مطابق نیب ترامیم سے جو ریفرنسز واپس ہوئے ان میں 35 ریفرنسز سیاست دانوں سے متعلق ہیں، ترامیم کے بعد جو نیب ریفرنسز واپس ہوئے ان میں 150 ارب روپے کی عوامی رقم کا معاملہ ہے، 50 کروڑ کی حد مقرر کرنے کے سبب 2022ء میں 327 نیب ریفرنسز احتساب عدالتوں سے واپس بھیجے گئے۔

سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں نیب ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 598 ریفرنسز میں سے صرف 54 ریفرنسز دیگر عدالتوں میں بھیجے گئے، 17 ریفرنسز کسٹم کورٹ جبکہ 4 کیسز بینکنگ کورٹس کو منتقل ہوئے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ
جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ میں اکثریتی فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا، وقت کی کمی کے باعث اپنے اختلافی نوٹ کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کروں گا، بنیادی سوال نیب ترامیم کا نہیں بلکہ 24 کروڑ عوام کی منتخب پارلیمنٹ کا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ ’میری رائے میں اکثریتی فیصلہ یہ سمجھنے میں ناکام رہا کہ ریاست کے اختیارات عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کیے جائیں گے، اکثریتی فیصلہ آئین میں دیے گئے اختیارات کی تقسیم کی مماثلث کو سمجھنے میں بھی ناکام رہا جو جمہوری نظام کی بنیاد ہے، کیس میں سوال غیر قانونی ترامیم کا نہیں پارلیمنٹ کی بالادستی کا تھا‘۔

انہوں نے لکھا کہ بنیادی سوال پارلیمانی جمہوریت میں آئین کی اہمیت اور ریاست کے اختیارات کی تقسیم کا ہے، بنیادی سوال بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے بغیر غیر منتخب ججز کا پارلیمنٹ کے پاس کردہ قانون پر فیصلہ سازی کی حدود سے متعلق ہے، اکثریتی فیصلہ پارلیمنٹ کے اختیارات کو سمجھنے میں ناکام رہا،

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار کبھی ختم نہیں ہوتا، اگر پارلیمنٹ نیب قانون بنا سکتی ہے تو اس کو واپس بھی لے سکتی ہے اور ترمیم بھی کر سکتی ہے، میں اکثریتی فیصلے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے درخواست مسترد کرتا ہوں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں