روس : اومیاکون میں ریکارڈ سردی، درجہ حرارت منفی 56 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرگیا

ماسکو(شاہد گھمن سے) روس کے علاقے اومیاکون میں درجہ حرارت منفی 56 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرگیا۔

دنیا کے نقشے پر ایسے بہت کم مقامات ہیں جہاں سردی محض ایک موسمی کیفیت نہیں بلکہ روزمرہ زندگی کا سب سے بڑا چیلنج ہو، روس کے مشرقی علاقے سائبیریا میں واقع شہ اومیاکون انہی چند مقامات میں شامل ہے، جسے دنیا کا سرد ترین آباد شہر قرار دیا جاتا ہے۔

اومیاکون وہ خطہ ہے جہاں سردی اتنی شدید ہوتی ہے کہ سانس لیتے ہی ہوا میں بھاپ جم جاتی ہے، پلکوں پر برف جمنا معمول کی بات ہے اور وقت جیسے ٹھہر سا جاتا ہے، یہاں سردی صرف جسم کو نہیں بلکہ انسان کے حوصلے کو بھی آزماتی ہے۔

روسی علاقہ اومیاکون عالمی شہرت اس وقت حاصل کر گیا جب سنہ 1933 میں یہاں درجۂ حرارت منفی 67 اعشاریہ 7 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔ یہ درجۂ حرارت آج بھی دنیا کے سرد ترین آباد مقام کا عالمی ریکارڈ سمجھا جاتا ہے۔

سردیوں کے مہینوں میں یہاں درجۂ حرارت عموماً منفی 50 سے منفی 60 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے، جبکہ گرمیوں کا موسم صرف چند ہفتوں کے لیے آتا ہے، جس میں درجۂ حرارت حیران کن طور پر 20 ڈگری تک بھی پہنچ سکتا ہے۔

اومیاکون میں زندگی گزارنے کے اصول دنیا کے دیگر حصوں سے یکسر مختلف ہیں، یہاں گاڑیاں بند نہیں کی جاتیں کیونکہ ایک بار انجن بند ہو جائے تو شدید سردی میں دوبارہ اسٹارٹ ہونا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔

25 دسمبر2025 کو اویمیاکون میں درجۂ حرارت تقریباً منفی 53.7 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا،حالیہ موسم کی رپورٹ کے مطابق یہ درجۂ حرارت سخت سرد موسم کی بدولت برقرار ہے، جس میں محسوس ہونے والی ٹھنڈ تقریباً منفی 56.9 ڈگری

ہے. یہ درجۂ حرارت موسم کے لحاظ سے معمولی صورت ہو سکتا ہے، مگر یاد رکھیں کہ اویمیاکون میں عام سردی بھی زیادہ تر منفی 40 سے منفی 50 ڈگری تک رہتی ہے — جو کہ انسانی زندگی کے لیے انتہائی چیلنجنگ ہے۔

گھروں میں حرارتی نظام چوبیس گھنٹے فعال رہتا ہے، لوگ کئی تہوں پر مشتمل خصوصی لباس پہنتے ہیں، جن میں فر کوٹ، موٹے بوٹ، اون کے دستانے اور مخصوص ٹوپیاں شامل ہوتی ہیں، تاکہ منفی درجۂ حرارت میں جسم کو محفوظ رکھا جا سکے۔

شدید سردی کے باوجود اومیاکون میں تعلیمی سرگرمیاں متاثر نہیں ہوتیں، حیران کن طور پر یہاں سکول منفی 52 ڈگری سینٹی گریڈ تک کھلے رہتے ہیں، اس سے کم درجۂ حرارت پر ہی تعلیمی ادارے بند کیے جاتے ہیں۔

مقامی بچے سخت موسم کے باوجود تعلیم جاری رکھتے ہیں، جو یہاں کے باسیوں کے غیر معمولی عزم اور نظم و ضبط کی ایک زندہ مثال ہے۔

اومیاکون کی زمین سال کے بیشتر حصے میں برف میں جمی رہتی ہے، جسے پرما فراسٹ کہا جاتا ہے، اس وجہ سے یہاں سبزیاں اور فصلیں اگانا تقریباً ناممکن ہے۔

مقامی آبادی اپنی خوراک کے لیے زیادہ تر شکار، مچھلی اور ہرن کے گوشت پر انحصار کرتی ہے، یہاں کا کھانا توانائی سے بھرپور ہوتا ہے تاکہ جسم شدید سردی میں حرارت برقرار رکھ سکے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ اویمیاکون کا مطلب ہے ’ نہ جمنے والا پانی‘، یہ نام یہاں موجود ایک قدرتی گرم چشمے کی وجہ سے رکھا گیا، جو شدید سردی کے باوجود منجمد نہیں ہوتا اور مقامی آبادی کے لیے پانی کا اہم ذریعہ ہے۔

گزشتہ چند برسوں میں اویمیاکون ایکسٹریم ٹورازم کا مرکز بنتا جا رہا ہے، دنیا بھر سے سیاح یہاں آتے ہیں تاکہ وہ زمین کے سرد ترین آباد مقام پر زندگی کو قریب سے دیکھ سکیں اور منفی درجۂ حرارت کا تجربہ حاصل کر سکیں۔

سیاح یہاں روایتی یاقوت ثقافت، مقامی کھانوں اور برفانی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں، جبکہ بعض سیاح اس سفر کو زندگی کا سب سے مشکل مگر یادگار تجربہ قرار دیتے ہیں۔

اومیاکون صرف سردی کا شہر نہیں بلکہ انسانی حوصلے، برداشت اور عزم کی علامت ہے، یہاں کے باسی ثابت کرتے ہیں کہ انسان اگر چاہے تو قدرت کی سخت ترین آزمائشوں میں بھی زندگی کو ممکن بنا سکتا ہے، یہ شہر اس حقیقت کی زندہ مثال ہے کہ سردی جتنی بھی شدید کیوں نہ ہو، انسانی حوصلہ اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں