زندگی کا فلسفہ سمجھیں، ماہرینِ نفسیات کے مطابق پوری عمر سے 5 روز نکالیں اور زندگی کے 100 روپ جانیں

تحریر : نجف زہرا تقوی


پانچ حرفی لفظ ’’زندگی‘‘اپنے اندر کتنے رنگ سموئے ہوئے ہے اور اس کے کتنے چہرے ہیں یہ شاید ایک بار پیدا ہو کر سمجھنا ممکن نہیں ہے۔بزرگ اپنی نظر سے زندگی کو دیکھتے ہوئے اس کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں کہ انسانوں کی مثال سمندر میں تیرتی ہوئی سیپیوں کی مانند ہے۔

ہم سب اس دنیا میں آتے ہیں لیکن ہر انسان کی زندگی دوسرے سے یکسر مختلف ہے،حتیٰ کہ ایک گھر میں رہنے والے دو بھائیوں اور دو بہنوں کی بھی جنہیں ایک جیسا ماحول اور تربیت دی جاتی ہے۔ان کی راہ میں آنے والی رکاوٹیں اور منزلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ یہاں زندگی کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری زندگیاں جس قدر ایک دوسرے سے مختلف ہیں اتنی ہی آپس میں جڑی ہوئی بھی ہیں۔انسانی عقل اگر سمجھے تو اس کی زندگی میں پیش آنے والا ہر واقعہ صرف اس کی ذات تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ اس کے اثرات کسی لڑی کی مانند دوسروں تک بھی جاتے ہیں،ہر معاملہ ایک سے دوسرے تک پہنچتا ہے۔بس فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ اثرات کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔زندگی کے ہر روپ کو سمجھنا یقینا ہمارے لیے پوری طرح ممکن نہیں ہے لیکن ماہرین ِ نفسیات کے مطابق اگر آپ پوری عمر میں سے صرف5 دن نکال لیں تو اس کے مختلف روپ سمجھنا آسان ہو جائے گا۔یہ 5روز کس طرح آپ کی زندگی میں تبدیلی لا سکتے ہیں ا ور آپ پر کیسے اہم راز افشا ں کر سکتے ہیں درج ذیل مضمون میں جانیے۔

بظاہر معمولی نظر آنے والی چیزوں کی اہمیت اور نعمتوں کی قدر جاننے کے لیے ہم خواتین کو چاہیے کہ ایک رو ز کسی کھیتی باڑی کرنے والی خاتون کے ساتھ گزار کر دیکھیں۔صبح سے شام تک اس کے ساتھ رہیں اور معمولات پر غور کریں۔کم قیمت میں حاصل کی جانے والی سبزی ،پھل یا فصل جسے ہم کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے۔کھاتے ہوئے اس میں سو طرح کے کیڑے نکالتے ہیں اور اکثر گل سڑ جانے کی صورت میں پھینک تک دیتے ہیں۔ کھیتی باڑی کرنیوالی خاتون کے ساتھ گزرے دن میں انہیں بونے اور نشو و نما پانے کا عمل دیکھ کر آپ کو احساس ہو گا کہ کس قدر محنت اور خون پسینہ ایک کر کے انہیں اُگایا جاتا ہے۔یہ آپ کو زندگی کا فلسفہ سمجھانے کیلئے کافی ہے۔پہلی مثال ہمارے رشتوں کی ہے جنہیں ہم معمولی جھگڑوں کی کے سبب توڑ دیتے ہیں۔یہ سوچے سمجھے بغیر کہ لمحہ ،لمحہ پرورش پاتے ان رشتوں کو سینچنے میں کس قدر وقت لگا ہے اور وقت پڑنے پر یہی زندگی کا سہارا بن سکتے ہیں۔

دلوں سے نفرت کا احساس دور کرنے اور لوگوں کی مجبوریاں سمجھنے کے لیے ممکن ہو تو ایک جیل میں موجود قیدے خواتین کے ساتھ گزار کر دیکھیں۔آپ جان جائیں گی کہ ایسے لوگ جن کے لیے ہم گناہ گار اور مجرم جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں بھی سینے میں دل رکھتے ہیں۔کوئی بھی انسان پیدائشی بُرا نہیں ہوتا۔اسے وقت،حالات یا ماحول بُرا بنا دیتے ہیں۔آپ مجبور قیدیوں کے جرائم کی وجہ پوچھ کر دیکھیں آپ کو 90 فیصد سے یہی جواب ملے گا کہ وہ دل سے کبھی گناہ کرنا نہیں چاہتے تھے بلکہ ایسا ان سے سر زد ہو گیا۔ان کے چہروں پر آپ کو پچھتاوا بھی نظر آئے گا اور دلوں میں احساسِ جُرم بھی محسوس ہو گا۔اکثر ہم لوگوں سے وجہ جانے بغیر نفرت کرنے لگتے ہیں۔اسے دور کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ کسی کے لیے اُس کے بُرے فعل کے سبب دل میں نفرت کا جذبہ جنم لینے لگے تو ایک بار اس کی وجہ جان لی جائے۔ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے دل میں نرمی پیدا ہونے لگے گی۔ رب  تعالیٰ نے تبھی تو بار ،بارمعاف کرنے کا حکم دیا ہے ،کیونکہ بے شک وہ دلوں کے حال جاننے والا ہے۔

علم پھیلانا اور دوسروں کے لیے مدد گار ثابت ہونا کس قدر اہم ہے،یہ جاننا چاہتے ہیں تو ایک روز استاد کی زندگی گزار کر دیکھیں۔آپ کو احساس ہونے لگے گا کہ جو کچھ ہم سیکھ چکے ہیں اسے دوسروں کو سکھانے کی کس قدر ضرورت ہے۔ایسا ضروری نہیں کہ سیکھنے،سکھانے کا عمل صرف درس گاہوں میں ہی ممکن ہے بلکہ یہ وہ نیک کام ہے جس کا ایک طرف تو بڑا اجر ہے دوسرا کسی کی پوری زندگی بدل سکتا ہے۔دین کا حکم ہے اپنے آس پاس آسانیا ں پیدا کریں۔اس بات کو پلے سے باندھ لیں ،یقین جانیں آپ کی اپنی زندگی بھی آسان ہونے لگے گی۔سکھانے کا عمل دل میں لالچ لائے بغیر انجام دیں،آپ کو خود بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔تبھی تو کہا گیا ہے کہ علم بانٹنے سے بڑھتا ہے۔

خود کو مضبوط بنانے کے لیے زندگی کا ایک اہم اصول جان لیں اور وہ ہے تنقید برداشت کرنا۔جس دن آپ دوسروں کی کڑوی باتیں سننے کا حوصلہ خود میں پیدا کر لیں گے اس کے بعد آپ کو لوگوں کے الفاظ نہیں توڑ سکیں گے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک روز کسی دماغی ہسپتال میں گزارا جائے۔آپ کو پڑھ کر ضرورحیرت ہو گی لیکن یہ بہت بڑی حقیقت ہے۔یہاں موجود لوگ آپ کو دیکھ کر جو بھی القابات آپ کے لیے استعمال کریں یا جو جملے بھی آپ کے لیے بولیں انہیں دل بڑا کر کے سنیں اور برداشت کریں۔یقین جانیں آپ کے اندر لوگوں کی تلخ باتوں پر صبر کا گھونٹ پینے کا حوصلہ آ جائے گا۔

زندگی کی سب سے بڑی حقیقت سمجھنے کے لیے اگر آپ میں حوصلہ ہو تو ایک روز قبرستان میں جا کر دیکھیں۔یہاں چاہے پورا دن نہ بھی گزاریں لیکن چند گھنٹے تنہائی میں ضرور بیٹھیں۔آپ زندگی کی تلخ ترین حقیقت جان جائیں گے کہ اس جہان سے اگلی دنیا تک کا سفر طے ہونے میں ایک لمحہ لگتا ہے۔ ہمارے لمبے منصوبے اسی جہان میں رہ جاتے ہیں ۔ جو آج جوڑاجا رہا ہے یہ سب یہیں فنا ہو جائے گا اور آگے صرف عمل کام آئے گا،تو کیوں نہ نیک عمل کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا جائے تا کہ آج امتحان میں کامیاب ہو کر آگے جائیں تو بہترین نتائج اور انعام کے مستحق ٹھہریں۔یہی تو زندگی کا اصل فلسفہ ہے کہ ہم ایک سفر پر گامزن ہے جو کسی بھی لمحے منزل پر پہنچ کر ختم ہونے والا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

میدان محشر میں نعمتوں کا سوال!

’’اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘ (سورہ ابراہیم :7) ’’اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘ (سورۃ النحل : 78)’’اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اُسی کی عبادت کرتے ہو‘‘ (البقرہ )’’اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے جو کھاتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)

کامیاب انسان کون؟

’’وہ اہل ایمان کامیابی پائیں گے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں‘‘ (المومنون) قرآن و سنت کی روشنی میں صفاتِ مومناللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جس نے خود کو گناہوں سے بچالیا حقیقتاً وہی کامیاب ہوا(سورۃ الیل)

صدقہ: اللہ کی رضا، رحمت اور مغفرت کا ذریعہ

’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘(سورۃ البقرہ)

مسائل اور ان کا حل

’’اسے اپنے گھر لے جاو‘‘ کہنے سے طلاق نہیں ہوتی سوال :میں نے اپنی بیوی سے ایک موقع پرکہاتھاکہ میں تمہیں کبھی ناراض نہیں کروں گا،اگرکوئی ناراضی ہوئی توآپ کے کہنے پرطلاق بھی دے دوں گا۔

فیض حمید کی سزا،بعد کا منظر نامہ

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سزا سنا دی گئی ہے جو کئی حلقوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے۔ ریاست ملک میں عدم استحکام پھیلانے والے عناصر کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے امکانات

چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے،لیکن حکومتِ پنجاب نے10 جنوری تک کا وقت مانگا ہے۔ پنجاب حکومت نے انتخابی بندوبست کرنا ہے جبکہ شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔