حسد سے بچیں
’’آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ حسد نہ کرو۔ نہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بغض رکھواور نہ ہی آپس میں ایک دوسرے سے قطع تعلقی کرو اوربھائی بھائی ہو جاؤ۔‘‘ فرمانِ رسول ﷺ ’’حسد سے بچو! کیوں کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔‘‘ حدیثِ رسولﷺ
’’حسد‘‘ کہتے ہیں کسی کے پاس اللہ تعالیٰ کی کوئی نعمت دیکھ یہ تمنا کرنا کہ اُس سے یہ نعمت چھن جائے چاہے مجھے حاصل ہو یا نہ ہو۔ یہ ایک ایسی باطنی اور روحانی بیماری ہے جو انسان کے سینے میں کینہ، بغض اور کھوٹ کا بیج بودیتی ہے، جس سے انسان کے تمام نیک اعمال تلف ہوجاتے ہیں، اور اُس سے اعمالِ صالحہ کی توفیق اللہ تعالیٰ چھین لیتے ہیں ۔معاشرتی زندگی کے حوالے سے مختلف مواقع پر ہادیٔ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی اُمت کو حسد، کینہ بغض اور ان جیسی دیگر باطنی اور روحانی بیماریوں سے بچنے کی ہمیشہ تاکید فرمائی ہے اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق و اتحاد، موافقت ویگانگت اور بھائی چارگی کی تعلیم دی ہے۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا ’’آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ حسد نہ کرو! نہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بغض رکھواور نہ ہی آپس میں ایک دوسرے سے قطع تعلقی کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہو جاؤ۔‘‘ (صحیح مسلم:4 /1983) ایک دوسری روایت میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’حسد سے بچو! کیوں کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔‘‘ ایک اورروایت میں آیا ہے کہ: ’’ حسد نیکیوں کے نور کو بجھا دیتا ہے۔‘‘(سنن ابی داؤد: 4/276)
ایک اور روایت میں آتا ہے حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ حضور اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں آپؐ نے ارشاد فرمایا ’’ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا‘‘تو اتنے میں ایک انصاری آئے جن کی داڑھی سے وضو کے پانی کے قطرے گر رہے تھے ۔ اگلے دن پھر حضور اکرم ؐنے وہی بات فرمائی تو پھر وہی انصاری اسی طرح آئے جس طرح پہلی مرتبہ آئے تھے ۔ تیسرے دن پھر حضور اکرمؐ نے ویسی ہی بات فرمائی اور وہی انصاری اسی حال میں آئے ۔ جب نبی کریم ﷺ مجلس سے اُٹھے تو حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ اُس انصاری کے پیچھے گئے، اور اُن سے کہا ’’میرا والد صاحب سے جھگڑا ہوگیا ہے ، جس کی وجہ سے میں نے قسم کھالی ہے کہ میں3 دن تک اُن کے پاس نہیں جاؤں گا ۔ اگر آپؓ مناسب سمجھیں تو مجھے اپنے ہاں 3دن ٹھہرالیں؟۔‘‘ اُنہوں نے کہا: ’’ضرور!۔‘‘ پھر حضر ت عبد اللہؓ نے بیان کیا کہ ’’میں نے اُن کے پاس 3 راتیں گزاریں لیکن میں نے ان کو رات میں زیادہ عبادت کرتے ہوئے نہ دیکھا، البتہ جب رات کو اُن کی آنکھ کھل جاتی تو بستر پر کروٹ بدلتے تھوڑا سا اللہ کا ذکر کرتے اور ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے، اور نمازِ فجر کیلئے بستر سے اُٹھتے۔ ہاں! جب بات کرتے تو خیر ہی کی بات کرتے۔جب 3 راتیں گزر گئیں اور مجھے ان کے تمام اعمال عام معمول ہی کے نظر آئے (میں حیران ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کیلئے بشارت تو اتنی بڑی دی لیکن ان کا کوئی خاص عمل تو ہے نہیں) تو میں نے اُن سے کہا : ’’اے اللہ کے بندے! میرا والد صاحب سے کوئی جھگڑا نہیں ہوا ، نہ کوئی ناراضی ہوئی اور نہ میں نے اُنہیں چھوڑنے کی قسم کھائی بلکہ قصہ یہ ہوا کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو آپؓ کے بارے میں 3مرتبہ یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ ’’ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آنے والا ہے۔‘‘ اور تینوں مرتبہ آپؓ ہی آئے ۔ اِس پر میں نے سوچا کہ میں آپ ؓکے ہاں رہ کر آپؓ کا خاص عمل دیکھوں اور پھر اس عمل میں آپ ؓکے نقش قدم پر چلوں ۔ میں نے آپؓ کو کوئی بڑا کام کرتے ہوئے تو دیکھا نہیں ، تو اب آپؓ بتائیں کہ وہ کون سا خاص عمل ہے جس کی وجہ سے آپؓ اس درجہ کو پہنچ گئے جو حضور اکرم ﷺنے بتایا؟‘‘ اُنہوں نے کہا: ’’میرا کوئی خاص عمل تو ہے نہیں ، وہی عمل ہیں جو تم نے دیکھے ہیں۔‘‘ میں یہ سن کر چل پڑا۔ جب میں نے پشت پھیری تو اُنہوں نے مجھے بلایا اور کہا: ’’میرے اعمال تو وہی ہیں جو تم نے دیکھے ہیں ، البتہ یہ ایک خاص عمل ہے کہ ’’میرے دل میں کسی مسلمان کے بارے میں کھوٹ نہیں ہے۔ اور کسی کو اللہ نے کوئی خاص نعمت عطا فرمارکھی ہو تو میں اِس پر اُس سے حسدنہیں کرتا۔‘‘ میں نے کہا: ’’اسی چیز نے آپؓ کو اتنے بڑے درجے تک پہنچایا ہے۔‘‘(حیاۃ الصحابہؓ: 2/458،459 ) حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’دو شخصوں کے سوا کسی پر حسدکرنا جائز نہیں ایک وہ شخص کہ جس کو حق تعالیٰ نے قرآن شریف کی تلاوت عطا فرمائی ہو اور وہ دن رات اس میں مشغول رہتا ہو۔ اور دوسرا وہ شخص کہ جس کو حق سبحانہ وتعالیٰ نے مال و دولت کی فراوانی عطا فرمائی ہو اور وہ دن رات اس کو خرچ کرتا ہو۔‘‘ (صحیح بخاری :9/154، جامع ترمذی :4/330)۔
ایک اور روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’3 چیزیں ایسی ہیں جن سے آدمی عاجز نہیں: (1)بد شگونی (2) بدظنی (3) حسد ۔ بدشگونی سے تجھے نجات اس طرح مل سکتی ہے کہ تو اُس پر عمل ہی نہ کر اور بد ظنی سے تجھے نجات اس طرح مل سکتی ہے کہ تو اُس کے بارے میں بات ہی نہ کر اور حسد سے تجھے نجات اس طرح مل سکتی ہے کہ تو اپنے مسلمان بھائی کی برائی کے پیچھے مت پڑ ۔‘‘ (جامع معمر بن راشد: 10/403)
امام ابن عیینہؒ بیان کرتے ہیں کہ حسد وہ پہلا گناہ ہے جو آسمان پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے کیا گیا یعنی شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام پر حسد کیا۔اور یہی وہ پہلا گناہ ہے جو زمین پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے کیا گیا ۔ یعنی حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے نے اپنے بھائی پر حسد کیا اور اُس کو قتل کردیا۔(المجالسۃ وجواہر العلم: 3/51) امام اصمعیؒ بیان کرتے ہیں کہ میں نے بنو عذرہ نامی قبیلہ میں ایک اعرابی (بدو) کو دیکھا جسکی 120 سال عمر تھی، میں نے اُس سے پوچھا کہ تمہاری اتنی لمبی عمر کا راز کیا ہے؟تو اُس نے بتایا میں نے حسد کرنا چھوڑدیاہے اس لئے ابھی تک باقی (زندہ) ہوں۔(المجالسۃ وجواہر العلم: 3/52) حسد نیکیوں کو اس طرح فاسد کردیتا ہے جس طرح ایلوا شہد کو فاسد کردیتا ہے۔(شرح اُصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ: 6/1092)