سیاسی افراتفری ختم ہونے کے قریب؟

تحریر : محمد عادل


ملکی سیاست پچھلے کئی ماہ سے ہیجانی کیفیت سے دوچار ہے لیکن اب فیصلہ کن مرحلہ آن پہنچا ہے۔آرمی چیف کی تقرری کا مرحلہ اگلے چند روز میں مکمل ہونے کو ہے۔ پورے ملک کی نظریں پنڈی اور اسلام آباد پر لگی ہوئی ہیں، تقرری اور عمران خان کے لانگ مارچ کی تاریخ بہت اہم ہے۔ فریقین میں کچھ تحفظات بھی تھے شاید اسی لئے سمری میں بھی تاخیر ہوئی ۔

وزیراعظم ہائوس نے سمری مانگنے میں پہل کی ،بظاہر تو وزیردفاع کہتے ہیں کہ تقرری پر کوئی دبائو ہے نہ ڈیڈ لاک ہے لیکن حالات ایسے بھی نہیں جیسے حکومت بتانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکومت تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے پہلے تقرری کرکے عمران خان کو واضح پیغام دینا چاہتی ہے ۔ سیاسی مبصرین کے مطابق پس پردہ بہت کچھ چل رہا ہے۔ ادارے خود کو سیاسی الزام تراشیوں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔حکومت کو بھی یہی مشورہ دیا گیاہے لیکن سیاستدان اپنی اپنی سیاست دیکھ رہے ہیں،ایک دوسرے پر اعتبار کیلئے تیار ہیں نہ بات چیت کیلئے ۔اس وقت کسی فریق کی ذرا سی غفلت سیاسی بحران پیدا کرسکتی ہے۔

جلد یا بدیر الیکشن تو ہونے ہی ہیں لیکن بیانیہ کی جنگ میں عمران خان نے تمام سیاسی جماعتوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، اگر چہ ایک ایک کرکے وہ اپنے بیانیہ سے یوٹرن لے رہے ہیں۔پہلے امریکی سازش اور سائفر کی تھیوری سے یو ٹرن لیا اب مقتدرہ کے خلاف بیانیہ سے پیچھے ہٹ رہے ہیں لیکن قطع نظر اس کے ان کی عوامی مقبولیت برقرار ہے۔ اسی لئے حکمران اتحادمستقبل کے سیاسی منظر نامہ کو لے کر بہت محتاط نظر آرہا ہے اور فیصلہ کن لمحات میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھا نا چاہتے ہیں۔ اگلے چندروز میں سیاسی طور پر بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں ۔ عمران خان انتظار میں ہیں کہ حکمران اتحاد کب غلطی کرے اور وہ اپنا وار کریں ۔ حکومت کو خدشات ہیں کہ سمری کا سفر مکمل ہونے تک کئی رکاوٹیں آسکتی ہیں،اس لئے بلاول بھٹو نے دھمکی دی ہے کہ اگر صدر مملکت نے تقرری میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی تو نتائج سنگین ہوںگے۔ ابھی تک ایوان صدرسے یہی کہا جارہا ہے کہ جو سمری آئے گی اس پر من وعن عمل ہوگا۔ صدر مملکت کے عہدے کا تو تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ کسی معاملے میں پارٹی نہ بنیں لیکن ماضی میں صدر  نے حکومتی سمریوں پر دستخط میں تاخیر کی جس سے بحران پیدا ہوا۔ اصولی طور پر صدر مملکت کو ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے معاملات کو آگے لے کر چلنا چاہئے اور موجودہ حالات میں پل کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ بدقسمتی سے آئینی عہدوں پر بیٹھے لوگ ریاست کی بجائے سیاست کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اس بار اگر کوئی بحران پیدا ہوا توسیاستدانوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے۔اس لئے تمام فریقین کو محاذآرائی سے بچنا چاہئے اور ایک دوسرے کیلئے گنجائش پیدا کرنی چاہئے ۔ملک مزید سیاسی افراتفری کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

تحریک انصاف اسلام آباد اورراو لپنڈی کے بارڈر فیض آباد پر اپنا سیاسی میدان لگانا چاہتی ہے ۔اس سے ملحقہ پریڈ گرائونڈ میں عمران خان کے ہیلی کاپٹرلینڈنگ کی اجازت مانگی جا رہی ہے۔ فیض آباد دھرنے پر سپریم کورٹ کا بڑا واضح فیصلہ موجود ہے ۔ابھی تک حکومت اور انتظامیہ کی طرف سے اجازت ملنے کے امکانات کم ہی نظر آرہے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ بھی کہہ چکی ہے کہ صورتحال سے نمٹنا انتظامیہ کا کام ہے، حالات خراب ہونے کی صورت میں دوبارہ عدلیہ سے رجوع بھی کیا جاسکتا ہے ۔ پچیس مئی کے حوالے سے معاملہ سپریم کورٹ میں زیرالتوا ہے۔  

 مستقبل کی سیاست میں عمران خان کا کیا رول ہوگا اس کا فیصلہ بھی خود انہوں نے اپنے طرز سیاست سے کرنا ہے۔ عمران خان کومقتدرہ کی طرف سے بھرپور پذیرائی ملی لیکن آنے والے دنوں میں حالات ان کے لئے زیادہ سازگار نہیں ہوں گے۔ اس لئے انہیں آئندہ کے سیاسی اقدام سوچ سمجھ کر اٹھانے ہونگے ۔

 سیاسی چپقلش میں اضافے کے ساتھ ہی پاکستان کے ڈیفالٹ کی ایک بار پھر افواہیں سرگرم ہیںگو کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس کی تردید کی ہے ۔دوست ممالک کی طرف سے جو مدد آنے کا امکان تھا وہ بھی قیاس آرائیوں کی وجہ سے تاخیر کا شکار نظر آتی ہے۔ وہ بھی ملکی سیاسی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔اسحاق ڈار کی آمد کے بعد جو توقعات تھیں وہ ابھی تک پوری ہوتی نظر نہیں آئیں،عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں نیچے آئیں لیکن ان کا ریلیف عوام تک نہیں پہنچا۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر ہیں جس کی وجہ سے روپیہ پر دبائو برقرار ہے اور ڈالر کی قیمت نیچے نہیں آرہی ۔سیاسی بحران ہر چیز پر اثر انداز ہورہا ہے ،اس وقت ذمہ دارانہ طرز سیاست کی ضرورت ہے ۔قوی امکان تو یہی ہے کہ نئی تقرری کے بعد سیاست میںجو تلخی ہے وہ کافی حد تک کم ہوجائے گی جو خراب ترین معاشی صورتحال میں امید کی کرن ثابت ہو سکتی ہے۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان انگلینڈ کیخلاف ٹیسٹ سیریز میں فتح یاب

تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلے میچ میں مہمان انگلینڈ کے ہاتھوں ایک اننگز اور 47 رنز سے شکست کے بعد شاہینوں نے پلٹ کر ایسا وار کیا کہ انگلش شیروں کو بے بس کر دیا۔

دوست وہ جو مشکل میں کام آئے!

کسی جنگل میں ایک درخت پر دو کبوتر نر اور مادہ رہتے تھے۔وہ دونوں ہنسی خوشی زندگی گزاررہے تھے،کچھ دن پہلے مادہ نے انڈے دئیے تھے اور اب وہ ان پر بیٹھی ہوئی تھی کیونکہ چند دن تک ان میں سے بچے نکلنے والے تھے۔

قاضی صاحب کا فیصلہ

ایک گائوں میں ارمان نامی آدمی رہتاتھا اُس کے پاس کوئی نوکری نہیں تھی۔ ایک دن اُس نے سوچا کہ وہ نوکری ڈھونڈنے شہر جائے گا۔ اُس کے پاس صرف تین اشرفیاں تھیں۔ وہ اپنے سفر پر نکل گیا۔

مجلس کے آداب

مجلس میں کسی بیٹھے ہوئے آدمی کو اُٹھا کراس کی جگہ بیٹھنے کی کوشش نہ کریں یہ انتہائی بُری عادت ہے۔

سنہری حروف

٭… آپ کا پل پل بدلتا رویہ، آپ سے وابستہ لوگوں کو پل پل اذیت میں مبتلا رکھتا ہے۔

زرا مسکرائیے

ایک لڑکا روتا ہوا گھر آیا،ماں نے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ استاد نے مارا ہے۔