ایمان کی حلاوت
حضرت انس ؓنے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔ اوّل یہ کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائیں، دوسرے یہ کہ وہ کسی انسان سے محض اللہ کی رضا کیلئے محبت رکھے ، تیسرے یہ کہ وہ کفر میں واپس لوٹنے کو ایسا برا جانے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے‘‘ (صحیح البخاری، صحیح مسلم)۔
حلاوت ایمان سے مراد وہ شرح صدر ہے اور اطمینان ہے جو ایک مومن ہی کو نصیب ہوتا ہے محض کلمہ گوئی اور زبانی اقرار رکھنے والا شخص ایمان کی اس مٹھاس سے ہمیشہ عاری رہتا ہے۔ حلاوتِ ایمان کیلئے مذکورہ حدیث میں مومِن کی تین خصلتیں یعنی عادات بیان کی گئی ہیں۔ اوّل یہ کہ اس کی اولین ترجیح اللہ رب العزت اور اس کے رسولﷺ کی محبت ہوتی ہے، جس کا لازمی تقاضا اطاعت اور عملی تقلید کو اختیار کرنا ہے۔ نیز اپنی تمام محبتوں اور نفرتوں کی اساس اللہ ہی کی محبت کو مقرر کر لینا ہے۔
ایک دفعہ حضرت علیؓ نے ایک خودسر یہودی پر غلبہ پا کر اسے قتل کر نے کا ارادہ فرمایا۔ وہ یہودی پُشت کے بل زمین پر پڑا تھا اور آپ ؓ اس کے سینے پر سوار تھے۔ موت کو اس قدر قریب دیکھ کر اُس یہودی نے حضرت علیؓ کے چہرۂ مبارک پر تھوک دِیا۔ آپؓ نے انتقام کے جذبے سے مغلوب ہو کر اُسے مار ڈالنے کے بجائے یہ کہہ کر معاف کر دِیا کہ اگر میں اس حالت میں تجھے قتل کر دیتا تو یہ میرا اور تیرا ذاتی معاملہ بن جاتا جبکہ میں ہر کام صرف اپنے اللہ کی خوشنودی اور رضا کی خاطر کرتا ہوں۔ آپ ؓکے ایمان کی اس خصلت نے اُس یہودی کا پتھر دل موم کر دیا اور وہ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہُوئے دین حق پر ایمان لے آیا۔
دوسری چیز صالحین کی صحبت اور جماعت کو مضبوطی سے پکڑنا ہے اور تیسری چیز یہ ہے کہ اپنے ایمان سے کسی بھی حالت میں متزلزل نہ ہوا جائے اور اس پر ثابت قدمی سے قائم رہے۔ صرف یہی تین صورتیں ایمان کے اعمال پر اثر انداز ہونے کی وجہ بنتی ہیں۔ ان کے بغیر شخصیت پر ایمان کا عملی تاثر نا ممکن ہے۔
اللہ اور اس کے رسول سے محبت
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد، اس کے بیٹے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں‘‘(صحیح بخاری)۔ دنیاوی محبتوں میں بہت بڑا درجہ والدین سے محبت اور ان کی اطاعت کو دیا گیا ہے لیکن جہاں ان کا حکم اللہ کے حکم سے ٹکرا جائے تو اللہ ہی کی اطاعت کو ترجیح دینا لازم و ملزوم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ تمام تر محبتوں کو اللہ ہی کی اتباع کے دائرے میں رکھنا کامل ایمان کے حصول کی شرط ہے۔
صالحین کی صحبت
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے پوچھا قیامت کب آئے گی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم نے اس کیلئے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے کہا: اللہ اور رسول ﷺکی محبت، آپ ﷺ نے فرمایا: تم جس سے محبت کرتے ہو (روزِ قیامت) اسی کے ساتھ رہو گے‘‘(صحیح مسلم)
اللہ کیلئے اس کے نیک بندوں سے محبت اللہ ہی کی محبت کا ثمر ہے اور دنیاوی و اخروی لحاظ سے یہ عمل غیر معمولی اہمیت کا حامِل ہے۔ مومنین کیلئے یہ بھی ایمان کا ایک لازمی جزو ہے اور دنیا میں بھی صالحین کی صحبت سے انسان کو نیک اعمال کی ترغیب اور آخرت کی یاد دہانی اور تعمیرِ شخصیت کے معاملات میں مدد ملتی ہے اور آخرت کی زندگی کے حوالے سے بھی قرآن میں کئی ایک مقامات پر انسان کا انجام انہی لوگوں کے ساتھ ہونے کی خبر دی گئی ہے جن کی صحبت کا انتخاب وہ دنیا میں کرے گا۔
ایمان پر استقامت
مومنین کی تیسری خصلت اپنے ایمان کو نہایت مضبوطی کے ساتھ تھام لینا اور اس پر ثابت قدمی اختیار کرنا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت کی راہ میں کیسی کیسی مشکلات ہی کیوں نا برداشت کرنی پڑیں، اس کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے ۔ انبیاء اور اصحاب کی زندگیاں اس کا بہترین نمونہ پیش کرتی ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے ہر طرح کی مشکلات حتی کے قید و بند کی صعوبتوں کو ایک طویل عرصہ تک برداشت کیا لیکن اطاعتِ خداوندی پر صبر کے ساتھ قائم رہے۔
ایمان پر استقامت اور پختہ ایمان کی تو بہت ساری مثالیں ہیں مگر ان سب میں سے حضرت حنظلہؓ کا واقعہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ نوجوان صحابی حضرت حنظلہ بن ابو عامرؓ شادی کی پہلی رات اپنی بیوی کے ساتھ حجلۂ عروسی میں تھے کہ کسی نے آقائے دو جہاں ﷺ کے حکم پر جہاد کیلئے پکارا۔ وہ صحابی اپنے بسترسے اُٹھے۔ دلہن نے کہا کہ آج رات ٹھہر جاؤ، صبح جہاد پر روانہ ہو جانا مگر وہ صحابی کہنے لگے: اے میری رفیقۂ حیات! مجھے جانے سے کیوں روک رہی ہو؟ اگر جہاد سے صحیح سلامت واپس لوٹ آیا تو زندگی کے دن اکٹھے گزاریں گے ورنہ کل قیامت کے دن ملاقات ہو گی۔
آپؓ جذبۂ حب رسولﷺ کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے اور مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔ اللہ رب العزت کے فرشتوں نے انہیں غسل دیا اور وہ ’’غسیل الملائکہ‘‘کے لقب سے ملقب ہوئے۔ حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ جب جنگ کے بعد رسول اکرم ﷺ نے ملائکہ کو انہیں غسل دیتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ صحابہ کرام ؓ سے مخاطب ہوئے: تمہارے ساتھی حنظلہ کو فرشتوں نے غسل دیا ان کے اہلِ خانہ سے پوچھو کہ ایسی کیا بات ہے جس کی وجہ سے فرشتے انہیں غسل دے رہے ہیں۔ ان کی اہلیہ محترمہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ حضرت حنظلہؓ جنگ کی پکار پر حالتِ جنابت میں گھر سے روانہ ہوئے تھے۔ پس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہی وجہ ہے کہ فرشتوں نے اسے غسل دیا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے مقام و مرتبے کیلئے یہی کافی ہے۔ (حاکم، المستدرک)