شہنشاہ صلح و امن حضرت امام حسنؓ

تحریر : صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی


اہل بیت میں سے مجھے سب سے زیادہ محبت حسنؓ و حسین سے ہے (ترمذی: 3772) جس نے حسنؓ اور حسینؓ سے محبت کی، اس نے درحقیقت مجھ سے محبت کی ( ابن ماجہ: 148)حضرت امام حسنؓ اپنے نانا جان اور والدین کی طرح سخی اور خدا ترس تھے، کسی سائل کو خالی ہاتھ نہ جانے دیتے

28صفر المظفر 50ھ تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب نواسہ رسول ؐ لختِ جگر حضرت علیؓ و بتول ؓخلیفۃ المسلمین حضرت امام حسن مجتبیٰؓ درجۂ شہادت پر فائز ہوئے۔ نواسہ رسول ﷺ جگر گوشہ بتول سیدنا حضرت امام حسنؓ رحمت عالم ﷺ کے لاڈلے نواسے، خلیفہ چہارم سیدنا حضرت علی المرتضیٰ ؓ کے لخت جگر خاتون جنت سیدہ حضرت بی بی فاطمہؓ کے نورعین اور شھید کربلا سیدنا امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ کے برادر اکبر ہیں۔

 حضرت امام حسنؓ سر سے سینہ تک حضوراکرم ﷺ سے مشابہ تھے۔ آپؓ کا لقب شبیہ رسول تھا اور یہ مشابہت محض ظاہری اعضا و جوارح تک محدود نہ تھی بلکہ آپؓ کی ذات باطنی اور معنوی لحاظ سے بھی اسوہ نبویﷺ کا نمونہ تھی۔ یوں تو آپؓ تمام مکارم اخلاق کا پیکر مجسم تھے لیکن زہد و رع دنیاوی جاہ و چشم سے بے نیازی اور بے تعلقی آپؓ کا ایسا خاص اور امتیازی وصف تھا جس میں آپؓ کا کوئی حریف نہیں۔

 سرکار دو عالم حضرت محمدﷺ اپنے دونوں نواسوں کو دل کی گہرائیوں سے پیار کیا کرتے تھے اور آپ کے نواسے بھی ہر لحظہ آپ کی خدمت اقدس میں رہا کرتے اور آپ ﷺ سے والہانہ محبت فرماتے۔ حضرت امام حسنؓ کی پرورش سرکار دو عالم ﷺ نے بڑی ناز و محبت سے کی۔ کبھی آغوش محبت و شفقت میں لیے ہوئے نکلتے اور کبھی دوشِ مبارک پر سوار کئے ہوئے۔ 

حضرت امام حسنؓ نہایت ذہین تھے اور سات سال کی عمر میں ہر وہ وحی یاد فرما لیتے جو اپنے نانا جان سے سنتے۔ حضرت امام حسنؓ کی ولادت باسعادت 15 رمضان المبارک 3 ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ حضوراکرمﷺ نے آپؓ کا نام حسن رکھا اور ساتویں روز آپؓ کا عقیقہ فرمایا۔ آپؓ کے سر کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کرنے کا حکم فرمایا۔

امام احمد بن حنبلؒ روایت کرتے ہیں کہ: جناب سیدہ فاطمۃ الزہراؓکے ہاں جب سیدنا امام حسین ؓ کی ولادت ہوئی تو انہوں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! کیا میں اپنے بیٹے کا عقیقہ نہ کروں؟ ارشاد فرمایا: نہیں! پہلے ان کے بال اترواؤ اور بالوں کے وزن کے برابرچاندی صفہ والوں اور دوسرے مسکینوں پر صدقہ کرو (مسند احمدبن حنبل :27253)۔

حضرت عمران بن سلیمانؒ بیان کرتے ہیں کہ حسنؓ اور حسینؓ دونوں جنتی ناموں میں سے ہیں، دورجاہلیت میں یہ نام کسی کے بھی نہ تھے۔ (اسدالغابہ، ج2، ص24)

یوں تو حضرت حسنینؓ کی ذات گرامی مجمع الفضائل تھی، لیکن آنحضرتﷺ کی غیر معمولی محبت و شفقت آپؓ کی فضیلت کا نمایاں باب ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ بازار سے لوٹا تو آپﷺ بی بی فاطمہ کے گھر تشریف لے گئے اور پوچھا، بچے کہاں ہیں؟تھوڑی دیر میں دونوں دوڑتے ہوئے آئے اور رسول اللہﷺ سے چمٹ گئے۔ آپﷺ نے فرمایا، خدایا میں ان کو محبوب رکھتا ہوں اس لیے تو بھی انہیں محبوب رکھ اور ان کے محبوب رکھنے والے کو بھی محبوب رکھ۔ 

اسی طرح نبی کریمﷺ عبادت کے موقع پر بھی حسنؓ و حسینؓ کو دیکھ کر ضبط نہ کر سکتے تھے۔   حضرت عبد اللہ بن شدادؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایاکہ رسول اللہ ﷺ عشاء کی نمازکیلئے ہمارے پاس تشریف لائے، اس حال میں کہ آپﷺ حضرت حسنؓ یا حضرت حسینؓ کواٹھائے ہوئے تھے، پھر نبی کریمﷺ آگے تشریف لے گئے اور انہیں بٹھا دیا، پھر آپﷺ نماز ادا فرمانے لگے۔ آپ ﷺ نے طویل سجدہ فرمایا، میرے والد کہتے ہیں: میں نے سر اٹھاکر دیکھا کہ نبی کریم ﷺ سجدہ میں ہیں اور شہزادے آپ ﷺ کی پشت انور پر ہیں۔ میں پھر سجدہ میں چلاگیا، جب رسول اللہﷺ نمازسے فارغ ہوئے تو صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! آپﷺ نے نمازمیں سجدہ اتنا دراز فرمایا کہ ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں کوئی واقعہ پیش تو نہیں آیا یا آپﷺ پروحی الہٰی کا نزول ہورہا ہے۔ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: اس طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی سوائے یہ کہ میرا بیٹا مجھ پرسوار ہو گیا تھا، جب تک وہ اپنی خواہش سے نہ اترتے مجھے عجلت کرنا ناپسند ہوا(سنن نسائی: 1129، کنز العمال:34380)۔

 حضرت عبداللہ بن بریدہؓ  فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابوبریدہ ؓکو فرماتے ہوئے سُنا نبی اکرمﷺ ہمیں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ حسنین کریمینؓ سرخ دھاری دار قمیص مبارک زیب تن کئے لڑکھڑاتے ہوئے آرہے تھے تو رسول اللہﷺ منبر سے نیچے تشریف لائے امام حسنؓ و امام حسینؓ کوگود میں اٹھا لیا پھر (منبر مقدس پر رونق افروز ہو کر)ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا، تمہارے مال اورتمہاری اولاد ایک امتحان ہے میں نے ان دونوں بچوں کو دیکھا سنبھل سنبھل کرچلتے ہوئے آ رہے تھے، لڑکھڑا رہے تھے، مجھ سے صبر نہ ہو سکا یہاں تک کہ میں نے اپنے خطبہ کو موقوف کر کے انہیں اٹھا لیا ہے۔ (جامع ترمذی ،حدیث نمبر3707)

آنحضرتﷺ نماز پڑھتے وقت رکوع میں جاتے تو حسنؓ و حسینؓ دونوں ٹانگوں کے اندر گھس جاتے، آپﷺ سجدہ میں ہوتے تو دونوں پشت مبارک پر بیٹھ جاتے،آپ ﷺاس وقت تک سجدہ سے سر نہ اٹھاتے جب تک دونوں خود سے نہ اتر جاتے۔ حسن ؓ و حسینؓ کو آپ ﷺاپنے جنت کے گل خندان فرماتے تھے۔ابن عمر ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے کہ حسن ؓو حسینؓ میرے جنت کے دو پھول ہیں۔ حسنؓ وحسینؓ نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں۔

حضرت امام حسنؓ اپنے نانا جان اور والدین کی طرح سخی اور خدا ترس مشہور تھے۔ کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے۔ حضرت امام حسن  ؓ کا دستر خوان بڑا وسیع تھا۔ آپ کی مہمان نوازی کا شہرہ دور دور تک تھا،جبکہ آپ خود فاقے سے ہوتے۔ 

ایک مرتبہ کسی نے سوال کیا آپؓ نے اسے پچاس ہزار درہم عطا فرمادیئے۔ اسی طرح آپؓ کی خدمت اقدس میں ایک مقروض شخص آیا اور عرض کی حضور ایک ہزار کا مقروض ہوں۔ آپ نے اسے دس ہزار درہم عطا فرمادیئے۔ لوگوں نے آپؓ سے عرض کیا کہ حضور ،باوجود اس کے کہ آپؓ خود فاقہ سے ہوتے ہیں لیکن سائل کو خالی نہیں جانے دیتے تو آپؓ نے فرمایا کہ میں خود درگاہ الہٰی کا سائل ہوں ،جو مجھے دیتا ہے اور جو میرا سائل بن کر آتا ہے میں اسے دیتاہوں۔ اگر میں اپنے سائل کو لوٹا دوں تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں میرا رب مجھے بھی خالی نہ لوٹا دے۔ آپؓ سخی ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے زاہدو عابد بھی تھے۔

حضرت حسنؓ نے ساری عمر نہایت فراغت کے ساتھ بسر کی حضرت عمرؓ نے جب صحابہ کرامؓ کے وظائف مقرر کیے اورحضرت علیؓ کا پانچ ہزار ماہوار مقرر کیاتوآپ ؓکے ساتھ حضرت حسنؓ کا بھی جو اگرچہ اس زمرہ میں نہ آتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی قرابت کے لحاظ سے پانچ ہزار ماہوار مقرر فرمایا جو انہیں برابر ملتا رہا ۔حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں بھی یہ وظائف برابر جاری رہے۔آنحضرتﷺ کی وفات کے وقت حضرت حسنؓ کی عمر آٹھ سال تھی۔ ظاہر ہے کہ اتنی سی عمر میں براہِ راست فیضانِ نبوی سے زیادہ بہرہ یاب ہونے کا کیا موقع مل سکتا ہے تاہم آپ جس خانوادہ کے چشم وچراغ تھے اورجس باپ کے آغوش میں تربیت پائی تھی وہ علوم کا سرچشمہ اورعلم وحمل کا مجمع البحرین تھا اس لیے قدرتاً اس آفتابِ علم کے پرتو سے حسنؓ بھی مستفید ہوئے، چنانچہ آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد مدینہ میں جو جماعت علم وافتا کے منصب پر فائز تھی اس میں ایک آپؓ کی ذاتِ گرامی بھی تھی البتہ آپؓ کے فتاویٰ کی تعداد بہت کم ہے۔آپؓ کی مرویات کی تعداد کل تیرہ ہے اور ان میں سے بھی زیادہ تر حضرت علیؓ اورہند سے مروی ہیں۔

خوف و خشیت کا یہ عالم تھا کہ جب حضرت امام حسن ؓ  وضو فرماتے تو آپؓ کے بدن کا جوڑجوڑ خوفِ الٰہی سے کانپنے لگتا۔ آپ ؓنے پچیس حج پیدل ادا فرمائے۔ لوگوں نے عرض کیا، حضور سواریاں ہوتے ہوئے آپؓ پیدل کیوں تشریف لے جاتے ہیں؟ آپؓ نے فرمایا کہ مجھے اپنے مولیٰ کے گھر کی طرف سوار ہو کر جاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ حتی کہ پیدل چلنے سے آپ کے پائوں مبارک پر ورم تک آجاتا۔ 

50ھ میں کسی نے آپ کو زہر دے دیا، قلب وجگر کے ٹکڑے کٹ کٹ کر گرنے لگے، جب حالت زیادہ نازک ہوئی اورزندگی سے مایوس ہو گئے توحضرت حسینؓ کو بلا کر ان سے واقعہ بیان کیا،انہوں نے زہر دینے والے کا نام پوچھا،فرمایا:نام پوچھ کر کیا کروگے؟ عرض کیا قتل کروں گا، فرمایا: اگر میرا خیال صحیح ہے تو خدا بہتر بدلہ لینے والا ہے اوراگر غلط ہے تو میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کوئی ناکردہ گناہ پکڑا جائے اور زہر دینے والے کا نام بتانے سے انکار کر دیا۔50 ہجری میں 47یا 48 برس کی عمر میں جام شہادت نوش فرمایا۔آپ کو جنت البقیع کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ 

اللہ کے محبو ب کریمﷺ کو اپنے دونوں نواسوں سیدنا امام حسنؓ اور سیدنا حضرت امام حسینؓ سے بہت محبت تھی۔ آپﷺ نے ان دونوں شہزادوں کی شان کو خود بیان فرمایا تاکہ امت کو اندازہ ہو سکے کہ یہ دونوں بھائی کس عظمت و شان مقام و مرتبہ کے ہیں۔کئی احادیث ان شہزادگان رسول کی شان میں ہیں۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریمﷺ نے حضرت امام حَسن اور امام حُسین رضی اللہ عنہما کی پیدائش کے ساتویں دن بکریاں عَقیقہ میں ذَبح فرمائیں۔ (مصنف عبد الرزاق، حدیث: 7963)

نبی کریمﷺ نے حسنین کریمینؓ سے متعلق ارشادفرمایا ’’یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں، اے اللہ تو ان دونوں سے محبت فرما اور جو ان سے محبت رکھے اس کو اپنا محبوب بنا لے (جامع ترمذی: 4138)۔

سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے حسنؓ اور حسینؓ سے محبت کی، اس نے درحقیقت مجھ ہی سے محبت کی اور جس نے حسنؓ اور حسینؓ سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔( ابن ماجہ: 148)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسولِ خداﷺ سے پوچھا گیا کہ آپ ﷺ کو اہلِ بیت میں سے کس سے سب سے زیادہ محبت ہے؟ تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ: حسنؓ و حسینؓ سے، چنانچہ رسول اللہﷺ حضرت فاطمہؓ کو فرماتے کہ میرے بچوں کو میرے پاس بلائو، پھر آپﷺ انہیں چومتے اور سینے سے لگاتے (ترمذی: 3772)۔

حضرت حسینؓ اپنے نانا کی محبتوں، شفقتوں اور توجہات کے محور و مرکز رہے۔ رسولِ خداﷺ کی اپنے ان لاڈلوں سے اْلفت و موانست اور لاڈ بے مثال ہے۔ اللہ ہمیں اہل بیت کی سچی محبت نصیب فرمائے اور دشمنان اہل بیت کو نیست و نابود فرمائے۔ نواسہ رسول کی عظمت و شان کے صدقے پوری امت مسلمہ میں اتفاق و اتحاد قائم فرمائے، آمین۔

 

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

رشتوں کا ادب واحترام،نبیﷺ کی سنت

’’ اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو‘‘(سورۃ النساء) صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے کے طور پر کرے، صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جب کوئی قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑے‘‘ (صحیح بخاری)

برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ

اگر کوئی آپ سے برائی کے ساتھ پیش آئے تو آپ اس کے ساتھ اچھائی کے ساتھ پیش آئیں، ان شاء اللہ اس کے مثبت نتائج دیکھ کر آپ کا کلیجہ ضرور ٹھنڈا ہو گا۔

منافقانہ عادات سے بچیں

حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ چار عادتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ چاروں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے اور وہ اسی حال میں رہے گا، جب تک کہ اس عادت کو چھوڑ نہ دے۔

مسائل اور ان کا حل

بیماری کی صورت میں نمازیں چھوٹ جائیں تو کیا حکم ہے ؟ سوال : بیماری کی صورت میں نمازیں قضاء ہوجائیں تو کیا حکم ہے ؟(محمد مہتاب) جواب :ان کی قضاء شرعاً لازم ہے۔

9مئی سے متعلق اعتراف کتنا مہنگا پڑے گا؟

پاکستان تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔ پی ٹی آئی بھی اپنی مشکلات میں خود اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ۔ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے اور پی ٹی آئی قیادت پر آرٹیکل 6 لگانے کا اعلان کیا گیا تو بانی پی ٹی آئی نے بیان داغ کر حکومتی پلان کیلئے سیاست کی حد تک آسانی پیدا کردی مگر سیاسی جماعت پر پابندی موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے آسان کام نہیں۔

پاکستان کا سیاسی بحران اور مفاہمت کی سیاست

پاکستان کا سیاسی بحران بڑھ رہا ہے ۔ حکومت، مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان ماحول میں کافی تلخی پائی جاتی ہے ۔ پی ٹی آئی پر بطور جماعت پابندی لگانے اور بانی پی ٹی آئی ‘ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پر غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔