حضوراکرمﷺ رحمت مجسم

تحریر : صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی


اللہ کریم قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کما ارسلنا فیکم رسولکم منکم یتلوا علیکم ایتنا و یزکیکم و یعلمکم مالم تکونوا تعلمون۔ترجمہ: ’’ہم نے تمہارے اندر ایک عظیم الشان رسول ﷺ مبعوث فرمایاجو تمھیں ہماری آیات و احکام پڑھ کر سناتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے، تمہاری صفائی کرتاہے اور تمہیںکتاب کی سمجھ اور کتاب کے مفاہیم بتاتا ہے۔ تمہیں ایسی عظیم اور مفید باتیں بتاتا ہے جس سے تم بے خبر تھے (البقرہ:151)۔

گویا بعثت ِ محمد رسول اللہ ﷺ سے اللہ کی نعمت تما م ہوئی۔حضور اکرم ﷺ رحمت مجسم ہیں اور اللہ کی رحمت تمام کائنات سے وسیع ہے۔ ان رحمتی وسعت کل شئی رحمت ِ الٰہی ہر چیز سے وسیع تر ہے اور جو رسول اللہ ہم میں مبعوث ہوئے، وہ مجسم رحمتِ الٰہی ہیں۔ آپ ﷺ کی تعلیمات اور آپ ﷺ کی برکات، ہمیں یہ دونوں چیزیں کس طرح پہنچتی ہیں؟

 پہلی بات تو یہ ہے کہ یتلوا علیکم ایتنا کہاں ہم اور کہاںاللہ کریم کی ذات! یہ اللہ کا رسول ﷺ ہے جو اللہ کی باتیں سناتا ہے، اللہ کے احکام سناتا ہے ، اللہ کی مرضیات سے آگاہ کرتاہے، اللہ کی بات پہنچاتا ہے۔ اللہ کس بات سے خفا ہو گا۔وہ بات بتاتاہے۔یتلوا علیکم ایتنا  اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ نے( تمہیں) براہِ راست رب العالمین کے روبرو کردیا۔

بعثت ِ عالی ﷺ سے پہلے لوگ بھی ہوئے ہیں جو ہدایت کے متلاشی تھے۔ مکہ مکرمہ کا ایک شخص زید بن عمرو بن نفیل تھا۔ اسے بتوں سے نفرت تھی اور وہ سمجھتا تھا کہ جن بتوں کا وجود خود انسان گھڑ کر بناتا ہے وہ انسان کیلے کیا کریں گے؟ وہ اپنے وجود میں محتاج ہے،ایک پتھر ہے اسے چاہیں تو دیوار میں لگا دیں، چاہیں تو کسی فرش میں لگا دیں اور چاہیں تو تراش کر بت بنالیں۔ وہ بت انسان کی حاجت روائی کیا کرے گا جو خود اپنے وجود کیلئے انسان کا محتاج ہے۔ عہد فترت تھا اور حق ملتا نہیں تھا۔

 اس شخص نے دنیا کے مختلف ممالک کے سفر کیے،گرجوں اور کلیسائوں میں گیا، یہودیوں کے علماء کے پاس گیا،زندگی بھر حق کی تلاش میں لگا رہا۔ جہاں جاتا کچھ کھرے لوگ بھی مل جاتے۔ وہ بتاتے کہ ہمارے پاس رواجات ہیں ، رسومات ہیں لیکن ہمیں خود بھی حق کی خبر نہیں۔ کچھ رواجات و رسومات دین کے طور پر بتاتے ہیں لیکن وہ اسے پسند نہ آتے ۔ آخر عمر میں تھک ہار کر مکہ مکرمہ میں مقیم ہوگیا۔ بیت اللہ شریف میں حاضری دیتا اور دعا کیا کرتا تھا کہ اے اللہ! تو ہے لیکن میں نہیں جانتا کہ تو کہاں ہے، تو کیسا ہے؟ تو عبادت کے لائق ہے لیکن تیری عبادت کیسے کی جائے؟ مجھے نہیں پتہ توکس بات پہ خفا ہو گا، نہ مجھے خبر ہے کہ تو کس بات پہ راضی ہوگا۔ پھر بیت اللہ شریف کے سامنے سے مٹی اٹھاتا اور اس پر پیشانی ٹیکتے ہوئے کہتا کہ میری یہی عبادت قبول کر لے۔  اس کے کچھ اشعار بھی ملتے ہیں ’’کہ رب کوئی ایک جو ساری مخلوق کو بلا تفریق پال رہا ہے۔ہر ایک کو اس کا حصہ دے رہا ہے ، ہر ایک تک دھوپ، روشنی اور ہوا کا اہتمام کر رہاہے۔ یہ کوئی ایک ہستی ہے‘‘۔

 جس طرح تم نے ہزاروں بنائے ہوئے ، ہزاروں ہوتے تو اس نظام میں کئی خرابیاں پیدا ہوتیں۔ کوئی کہتا دھوپ ہونی چاہیے ، دوسرا کہتا گرمی ہونی چاہیے۔ اگر یہ ہزاروں معبود ہوتے اور ہزاروں پالنے والے ہوتے تو اس طرح کا نظام بے عیب نہیں چل سکتا تھا۔ایک ہی ہستی ہے جو یہ نظام چلارہی ہے،جسے کوئی روکنے والانہیں، جس کی اپنی قدرت کاملہ سے سب چل رہا ہے۔ یہ کونسا دین ہے جس میں کام بانٹ دیے جائیں کہ یہ بت اولاد دیتا ہے، یہ بت صحت دیتا ہے، یہ بارش برساتا ہے۔ اگر اس طرح سے کام بانٹ دیے جائیں تواسے دین نہیں کہا جاسکتا ،یہ تو خرافات ہیں۔

اُس وقت یہ عالم تھا کہ اللہ کریم کے ماننے والے کو بھی کہیں سے رہنمائی نہ مل سکتی تھی۔ اللہ کریم فرماتے ہیں کما ارسلنا فیکم رسولکم منکم یتلوا علیکم ایتنا و یزکیکم و یعلمکم مالم تکونوا تعلمون میں نے تم پر اپنا انعام اس طرح مکمل کیا کہ میں نے وہ ہستی مبعوث کردی جس نے تمھیں اللہ سے ہم کلام کردیا۔

جب کوئی جانتا نہیں تھا،اللہ کی ذات سے واقف نہیں تھا،اس کی صفات سے واقف نہیں تھا،اس کی صفات سے واقف نہیں تھا،اس کی رضا کا پتہ نہ تھا کہ وہ کس بات سے خفا ہوگا،میں نے تم میں وہ عظیم الشان رسول اللہﷺ مبعوث فرمایا۔ یتلوا علیکم ایتنا  ’’میرا رسول تمھیں میری باتیں سناتا ہے‘‘۔ گویا تمہیں میرے روبر کر دیا، میرے رسول ﷺ کی وساطت سے تم میری بات سننے کے قابل ہوگئے۔

ویزکیکم اور اس نے تمھیں پاک کردیا۔ اللہ کے رسول ﷺ کی یہ دو صفات ہیں یعنی تعلیمات نبوت، اللہ کریم کی باتیں پہنچائے ،وہ علوم پہنچائے جو معرفت کا ذریعہ ہیں، ان امور سے مطلع فرمائے جو رضائے الٰہی کا ذریعہ ہیں، ان باتوں سے آگاہ فرمائے جن سے اللہ کریم خفا ہوتے ہیں۔یہ سب تعلیمات رسول اللہ ﷺ ہیں۔ ان میں قرآن حکیم بھی موجود ہے،ان میں حدیث پاک ہے، ان میںحضور اکرم ﷺ کے افعال مبارکہ بھی ہیں۔ جو کچھ آپ ﷺ نے کیا، جوکچھ آپ ﷺ نے فرمایا،یہ سب تعلیماتِ رسول اللہ ﷺ ہیں۔

دوسرا شعبہ برکات ِ نبوت ﷺ ہے، ویزکیکم( اور تمھیں پاک کردیا)۔نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کیسے تزکیہ فرمادیتے!اس کے لیے چلہ کشی نہ کی گئی،نوافل یاوظیفوں کی تعداد مقرر نہیں کی گئی، اس کے لیے کوئی لمبا عرصہ مقرر نہیں کیا گیا۔جوایمان لایا،جس کے دل میں نورایمان تھا اور ایک نظر اس نے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھ لیا یا نبی کریم ﷺ کی نگاہ پاک اس پر پڑ گئی،یہ تزکیہ اس کی نظر کی بات تھی۔

انسان جب مومن ہوتا ہے تو ایک درجہ پاکیزگی حاصل کرلیتا ہے۔عالم ہوجاتا ہے،قرآن کریم سمجھتا ہے، حدیث سمجھتا ہے تو پاکیزگی مزیدبڑھ جاتی ہے۔ولی اللہ ہوجاتا ہے تو کیفیات حاصل کرلیتا ہے اور یاد رکھیں ہر ولی اللہ عالم ہوتا ہے۔ ہرصوفی عالم ہوتا ہے لیکن ہر عالم صوفی نہیں ہوتا۔علم کے الگ درجات ہیں ۔اگر روئے زمین کے سارے علماء اور اولیاء کی عظمت جمع کردی جائے تو صحابی کی خاک پا کو نہیں پہنچتی۔

نبی کریم ﷺ کیسے تزکیہ فرماتے تھے کہ ایک نگاہ میںبندہ صحابیت سے سرفراز ہوجاتا تھا۔صحابی تولغوی مطلب صحبت یافتہ ہے لیکن یہاں اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ نوع انسانی میں جو سب سے زیادہ اللہ کے قریب ہو جائے،نبی کے بعد جس کی عظمت مسلّم ہو جائے، جس کی امانت، دیانت، ورع تقویٰ شکوک و شبہات سے بالا تر ہوجائے۔

شرف صحابیت اتنی بڑی عظمت ہے کہ جس کا احاطہ اس دنیا میں نہیں کیا جاسکتا۔ لوگ اسے سمجھتے نہیں ہیں اور بڑی بے تکلفی سے عظمت صحابہ پہ زبان درازی کرتے ہیں۔ صحابی ہونا بجائے خود ایک اتنی بڑی عظمت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فریاما: میرے صحابہ ہدایت کے ستارے ہیں۔ ستارے جس طرح چاندسے روشنی حاصل کرتے ہیں، اسی طرح صحابہ کرام ؓ برکات ِ نبوت ﷺ سے روشن ہیں اور رہنمائی فرماتے ہیں۔با یھم اقتدیتم اھتدیتم ان میں سے جس کسی کا دامن تھام لوگے ہدایت پاجائو گے۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

رشتوں کا ادب واحترام،نبیﷺ کی سنت

’’ اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو‘‘(سورۃ النساء) صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے کے طور پر کرے، صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جب کوئی قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑے‘‘ (صحیح بخاری)

برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ

اگر کوئی آپ سے برائی کے ساتھ پیش آئے تو آپ اس کے ساتھ اچھائی کے ساتھ پیش آئیں، ان شاء اللہ اس کے مثبت نتائج دیکھ کر آپ کا کلیجہ ضرور ٹھنڈا ہو گا۔

منافقانہ عادات سے بچیں

حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ چار عادتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ چاروں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے اور وہ اسی حال میں رہے گا، جب تک کہ اس عادت کو چھوڑ نہ دے۔

مسائل اور ان کا حل

بیماری کی صورت میں نمازیں چھوٹ جائیں تو کیا حکم ہے ؟ سوال : بیماری کی صورت میں نمازیں قضاء ہوجائیں تو کیا حکم ہے ؟(محمد مہتاب) جواب :ان کی قضاء شرعاً لازم ہے۔

9مئی سے متعلق اعتراف کتنا مہنگا پڑے گا؟

پاکستان تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔ پی ٹی آئی بھی اپنی مشکلات میں خود اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ۔ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے اور پی ٹی آئی قیادت پر آرٹیکل 6 لگانے کا اعلان کیا گیا تو بانی پی ٹی آئی نے بیان داغ کر حکومتی پلان کیلئے سیاست کی حد تک آسانی پیدا کردی مگر سیاسی جماعت پر پابندی موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے آسان کام نہیں۔

پاکستان کا سیاسی بحران اور مفاہمت کی سیاست

پاکستان کا سیاسی بحران بڑھ رہا ہے ۔ حکومت، مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان ماحول میں کافی تلخی پائی جاتی ہے ۔ پی ٹی آئی پر بطور جماعت پابندی لگانے اور بانی پی ٹی آئی ‘ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پر غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔