مستنصر کے ناولوں میں المیوں کا تسلسل

تحریر : ڈاکٹر طاہرہ اقبال


مستنصر حسین تارڑ کے ناول اس شعر کی فکری تاریخی اور عمرانی توسیع و تفسیر معلوم ہوتے ہیں وقت کرتا ہے پرورش برسوںحادثہ ایک دم نہیں ہوتا

تارڑ کا ہر ناول کسی بڑے حادثے یا المیے کے گرد بنا گیا ہے اس زمانے کی ساری کیفیت فطری اور افراد، اقوام کی پوری سازش تفصیلات اور جزئیات کو اس طرح بیان کیا گیا کہ وقت کی بساط پر پرورش پاتے حادثے اپنی ساری عمل داری اور عوامل و محرکات کی سچائیوں کے ہمراہ ایک متحرک تصور ہو جاتے ہیں۔ یہ المیات قومی تہذیبی تاریخی اور کہیں ذاتی بھی ہیں۔ خصوصاً یہ قومی و تاریخی حادثات و المیات ناول کے صفحات پر اپنے سبھی مضمرات اور سیاق و سباق کے ساتھ قاری سے اپنا اشتراک قائم کرتے ہیں یعنی ہم اپنی گزری تاریخ و  تہذیب اور المیوں کو پھر سے جیتے ہیں۔ ان حالات واقعات کے پس منظر اور پیش منظر سے آگاہی حاصل کرتے ہیں جو فاصلوں اور مصلحتوں کی دھند میں لپٹے ہوئے ہیں نتیجہ وہی کہ تاریخ کی تاریخ یہی ہے کہ انسان، قومیں اور نسلیں تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتیں تاکہ آنکہ خود اس کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔

ایک ناول ایک پوری زندگی پورے عہد پوری تاریخ کو جیتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ کوئی ادیب اپنی زندگی میں ایک ہی اچھا ناول لکھ پاتا ہے لیکن تارڑ کا معاملہ الگ ہے۔ جیسے ’’گئو دان، امرائو جان ادا، فردوس بریں، آگ کا دریا، بستی، آنگن، ٹیڑھی لکیر، اداس نسلیں، آگ کا دریا‘‘، پھر ایک خاموشی ایک بگ بینگ میں آخر بڑا ارتعاش ہوا بہائو اس گونج کے ساتھ ’’راجہ گدھ، کئی چاند تھے سر آسمان لیکن بہائو صدیوں کی ہے‘‘ جو لکھا انمٹ لکھا۔ بھٹی سے صیقل ہو کر نکلا۔ تارڑ کے فن کی وہ سندھوندی جس میں کئی دریائوں کے دھانے آکر ملتے ہیں۔ بہائو کے متعلق اختر حسین لکھتے ہیں: ’’بہائو ایک ایسی بڑی ندی کے بارے میں ہے جو ہمیشہ سے چیزوں اور برتنوں میں بہہ رہا ہے ہر ناول پانی کی اس بڑی دھارا کا متلاشی ہوتا ہے۔ یہی افسانے اور ناول کا فرق ہے اور یہی فرق مستنصر حسین تارڑ کے اس ناول کا طرۂ امتیاز ہے۔ بہائو اس صدی کا بہت بڑا ناول ہے‘‘۔

تارڑ کے کسی ناول میں بھی گھپ تاریکی ہر گز نہیں ہے یہاں بھی امید کی علامت سمرو اور پا روشنی کے بطن سے پھوٹتی ہے کہ وہ بھوک کے صحرا میں بھی جانبر رہتے ہیں۔ تاریخ کا یہ خاص عہد ایک المیے کی نذر ہوا لیکن یہ عہد بہائو کے صفحات میں پھر سے جی رہا ہے اور عہد جدید سے ایک علامتی ربط بھی قائم کرتا ہے کہ کہیں ہم بھی سرسوتی ندی والی بستی کی طرح انہدام اور تباہی کی طرف تو نہیں بڑھ رہے ایک اور تاریخی المیہ جبڑے کھولے کہیں ہماری سمت جست تو نہیں بھر چکا اس لئے ڈاکٹر رشید امجد لکھتے ہیں:’’مستنصر کا مسئلہ صرف اپنی جڑوں کی تلاش نہیں بلکہ اس سارے عمل کی بازیافت سے وہ ایک پیغام دے رہا ہے کہ ہمارا عہد بھی دریائے گھاگھرا کے کنارے آباد بستی کی طرح اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے ہم نے بھی اپنے گرد ایک حصار کھینچ لیا ہے جہاں تازہ ہوا اور نئے امکانات کا گزارن خال خال ہی ہے‘‘۔

بہائو کے تخلیق مزاج میں ڈھلی ایک اور کہانی قربت مرگ میں محبت ہے جس میںخود دریائے سندھ کے وجود کو خطرات لاحق نظر آتے ہیں۔ یعنی سندھو دریا کے کناروں آباد بستیاں جس طرح معدوم ہو گئی تھیں۔ اس طرز کا المیہ پھر کہیں راہ میں تو نہیں ہے فلیش بیک کے ذریعے سفر نامے کی تکنیک میں راوی اپنی گزری ہوئی زندگی کے حالات سے قاری کو آگاہ کرتا ہے اور قصہ مکمل ہونے کے بعد خود ابدی نیند سو جاتا ہے۔ یہ المیاتی انجام ایک تہذیب نسل اور عہد کے انجام کی خبر سناتا ہے۔

’’پیار کا پہلا شہر‘‘ میں بھی پاسکل کی معذوری اور ایک طرف محبت ایک المیے کو جنم دیتی ہے۔ جو پیرس کی خوبصورتیوں کو بھی اداس کر دیتا ہے۔ اس ناول میں جسمانی معذوری سے زیادہ ذہنی اپاہج پن ایک المیہ کی طرح سامنے آتا ہے۔ جپسی1987ء یہ بھی خود نوشت کے اسلوب میں لکھا ناول ہے جس میں ایک خانہ بدوش شہری بود و باش میں بھی اپنی فطرت کی سمت لوٹ لوٹ جاتی ہے پاسکل کی طرح ہی ایک ناکام محبت کا شکار ہوتی ہے۔ یوں ناول ایک بھرپور شخصی المیہ کا جزنیہ اظہار بن جاتا ہے۔

’’دیس ہوئے پردیس‘‘ میں بھی جلاوطنی اور بے وطنی میں سے کئی المیے جنم لیتے ہیں۔ ایک المیہ خود مصنف کے لفظوں میں یوں بیان ہوتا ہے: ’’ اپنے وطن کی تو بات اور ہوتی ہے ناں برکت علی، تو پھر ہم یہاں کیا کر رہے ہیں، ہم یہاں جڑیں پکڑ گئے ہیں، اب نہ مرتے ہیں اور نہ بڑھ کر درخت بنتے ہیں۔ اب ہم نہ ادھر کے ہیں اور نہ اُدھر کے‘‘۔

’’ڈاکیا اور جولاہا‘‘ میں بھی محبت کے کھیس میں المیے کے دھاگے کی بنت ہے۔ نتالیہ کی محبت جو مخطوط میں ہی ملفوف رہتی ہے۔ ڈاکیا وہ ہر کارہ ہے جو موت کا پیغام لے کر ہر کسی کے پاس پہنچتا ہے، جس کا پتہ درست پاتا ہے اور تقدیر ازل کی ڈاک تھما دیتا ہے۔ یہ تقدیر اور موت کا سچ بھی کسی جبر جیسے المیے کو جنم دیتا ہے۔

’’راکھ‘‘ ایک بڑے انسانی المیے کی طویل داستان ہے۔1997ء میں چھپنے والا یہ ناول قومی وجود اور جغرافیائی بنیادوں کی شکست و ریخت کے المیہ کا رزمیہ ہے۔ جب انسان خود اپنے ہاتھوں اپنے چمن کو خاکستر کردیتا ہے۔ ’’راکھ کا خمیر ‘‘جن دکھوں سے تیار ہوا ہے ان میں گروہی گھٹیا اور بے ضمیر سیاست جمہوری کلچر کی پامالی 1947ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگ اور اس کے خطرناک نتائج برصغیر کی تقسیم، فسادات، لوٹ مار تشدد، انسانی خون کی ارزانی مشرقی پاکستان کے سقوط سے بنگلہ دیش کی تخلیق اصل تاریخ کا مقابلہ کرنے سے گھبراہٹ اور شکست کی کیفیت اپنی جڑوں کی تلاش میں ناکامی، مذہبی فرقہ واریت، فکری انتشار مختلف قسم کے مہلک قومی امراض گم ہوتی پہچان اور بے سمتی شامل ہیں۔یہ سبھی تاریخی حقائق انسانی کوتاہیاں، منافقتیں اور راہ گم کردہ نسلیں ایک بڑے المیے سے بنیادی عناصر ترکیبی ہیں جو اس شبستان کو راکھ بنانے کے محرکات ہیں۔

’’اے غزال شب‘‘ ایک شاہکار ناول ہے جس کا کینوس وسیع اور المیہ عالمگیر ہے۔ خالد فتح محمد نے لکھا: ’’ اے غزل شب میں اگر دیکھا جائے تو کوئی کہانی نہیں اور اگر کرداروں کی محرومی اکلاپے تنہائی، اداسی، مایوسی کا مطالعہ کیا جائے تو وہ ازل سے جاری اس کہانی کو لئے آگے چل رہے ہیں‘‘۔

’’خس و خاشاک زمانے‘‘ کئی صدیوں پر محیط تاریخی پس منظر میں گزرتے حالات و واقعات کا مہابیانیہ ہے جس میں متحدہ ہندوستان کی معاشرتی زندگی مختلف مذاہب اور تہذیبوں کے حامل افراد کے باہمی اختلاط کی عکاسی پھر اس مشترکہ سماج کا انہدام جس کی دھول میں انسانیت منہ چھپا کر سسکتی ہے۔ اس راکھ سے پاکستان کی چنگاری کا بھڑکنا اور پھر اس نظریاتی مملکت کا بکھرنا یہ ایک بڑے کینوس کا عظیم ناول ہے جس میں کئی تہذیبیں تاریخیں المیے اور حادثات خصوصاً پنجاب کی بساط زمین پر برسرپیکار دکھائے گئے ہیں۔ 

 مجموعی طور پر تارڑ کے سبھی ناول ایک فکری اکائی کا تسلسل محسوس ہوتے ہیں۔ جن کا آغاز ’’پیار کا پہلا شہر‘‘ (1974ء)، ’’جپسی‘‘ (1971ء)میں موجود ذاتی المیات سے ہوتا ہے جو ’’بہائو‘‘ (1992ء) میں ہزاروں برس پرانی تہذیبی بنیادوں کی تلاش میں المیوں کی شناخت کرواتا ہے۔ یہی شناخت ’’راکھ‘‘ (1997ء) میں جلتی بجھتی چنگاری کی صورت اختیار کرتی ہے۔ ’’دیس ہوئے پردیس‘‘ (1991ء)، ’’قلعہ جنگی‘‘(2002ء) میں سیاسی حقائق کی تخلیقی تفسیر ہے تو ’’اے غزال شب‘‘ (2010ء) اور ’’خس و خاشاک زمانے‘‘ (2010ء) جیسے عظیم ناول فن ناول نگاری کے سنگ میل ٹھہرتے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

پاکستان کرکٹ کا مصروف سیزن:گرین شرٹس:مشن آسٹریلیا و نیوزی لینڈ

پاکستان کرکٹ کا مصروف ترین نیشنل و انٹرنیشنل سیزن جاری ہے۔ اس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم ٹیسٹ سیریز کیلئے آستریلیا کے دورے پر ہے، قومی ویمن کرکٹ ٹیم تین ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل اور تین ون ڈے انٹرنیشنل میچوں پر مشتمل سیریز کیلئے نیوزی لینڈ میں ہے۔حال ہی میں پاکستان کپ ایک روزہ کرکٹ ٹورنامنٹ پشاور کی جیت پر ختم ہوا جبکہ نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ کا سپر ایٹ مرحلہ کراچی میں جاری ہے جس میں پاکستان کے تقریباََ تمام نیشنل اور فرسٹ کلاس کرکٹر اپنے جلوے دکھا رہے ہیں۔

پاکستانی کرکٹرز اور قومی ذمہ داری

پیسے کیلئے قومی عزت اور وقار دائو پر لگانے کے حوالے سے ماضی میں بھی قومی کرکٹرز پر متعدد الزامات سامنے آ چکے ہیں۔ متعدد کرکٹرز نے جوئے میں ملوث ہونے یا جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں استعمال ہونے کا اعتراف بھی کیا لیکن ماضی میں ایسی مثالیں سامنے نہیں آئیں کہ کسی کھلاڑی نے پیسوں کے لالچ میں لیگ کھیلنے کیلئے قومی ٹیم سے دستبرداری کا اعلان کیا ہو یا اپنی دستیابی ظاہر نہ کی ہو۔

ہم جیت گئے

فراز نے گردن اٹھا کر اپنے سامنے کھڑے ہاتھی کی طرف دیکھا اور پھر سر جھکا کر بیٹھ گیا۔ ہاتھی نے محسوس کیا کہ دوست کا موڈ آج اچھا نہیں ہے۔ اس نے اپنا منہ فراز کے جسم پر رگڑا جیسے پوچھ رہا ہو، کیا بات ہے، آپ ایسے کیوں بیٹھے ہو؟ فراز نے کوئی جواب نہ دیا۔

کیا آپ جانتے ہیں؟

بچوں یہ تو آپ جانتے ہیں کہ چاند زمین کے گرد اور زمین سورج کے گرد لگاتار گھوم رہے ہیں ،لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ زمین سورج کے گرد ایک سال میں ایک چکر پورا کرتی ہے۔

ذرامسکرائیے

استاد( اسلم سے): ’’ ہوا سے باتیں کرنا، اس محاورے کو جملے میں استعمال کرو‘‘ اسلم: ’’کل میرے دو دوست سیر کو گئے، ان کے واپس آنے تک میں ہوا سے باتیں کرتا رہا‘‘۔٭٭٭

چوں چوں کرتے بچے

آئی آئی چڑیا آئی کھانا بچوں کا وہ لائی چوں چوں کرتے بچے اس کےلگتے ہیں وہ کتنے اچھے