شاد عظیم آبادی اور جدید غزل

تحریر : مسلم شمیم


:تعارف اردو زبان کے ممتاز شاعر، نثر نویس اور محقق شاد عظیم آبادی 17جنوری 1846ء کو بھارتی صوبہ بہار کے دارالخلافہ پٹنہ میں پیدا ہوئے ۔ان کا تعلق ایک متمول گھرانے سے تھا۔ ان کا اصل نام نواب سید علی محمد تھا۔ ابتدائی تعلیم شاہ ولایت حسین سے حاصل کی۔ وہ کل وقتی شاعر تھے اور شاعری کا تحفہ انہیں قدرت کی طرف سے ملا تھا۔ شاعری میں ان کے کئی استاد تھے لیکن شاہ الفت حسین فریاد کو صحیح معنوں میں ان کا استاد کہا جا سکتا ہے۔ شاد عظیم آبادی نے غزل اور مثنوی کے علاوہ مرثیے، قطعات ،رباعیات اور نظمیں بھی لکھیں۔ 1876ء میں ان کا پہلا ناول ’’صورت الخیال‘‘شائع ہوا۔ ان کی دیگر تصنیفات میں ’’حیات فریاد نوائے وطن، انٹکاب کلام شاد، میخانہ الہام، کلام شاد‘‘ شامل ہیں۔ کچھ حلقوں کے مطابق انہوں نے نظم و نثر کی 60 کتابیں چھوڑی ہیں۔ انہوں نے 1927ء میں 81برس کی عمر میں وفات پائی۔

صنف شاعری کے وصف خاص میں دوامیت کے عنصر کو بڑی اہمیت اور عظمت حاصل ہے۔ شاد کی شاعری میں یہ عنصر ایک غالب عنصر کے طور پر قارئین کے مطالعے میں آتا رہتا ہے۔شاد عظیم آبادی کے درج ذیل اشعار اکثر موضوع گفتگو بنتے رہتے ہیں:

تمنائوں میں الجھایا گیا ہوں

کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں

اسیر جسم ہوں، میعاد قید لامعلوم

یہ کس گناہ کی پاداش ہے، خدا معلوم

سنی حکایتِ ہستی تو درمیاں سے سنی

نہ ابتدا کی خبر ہے، نہ انتہا معلوم

شاد عظیم آبادی کے مندرجہ بالا اشعار جہاں ان کے مسلک شاعری اور ان کے مزاج سخن کی ترجمانی کرتے ہیں، وہیں بیسویں صدی میں جدید غزل کے خدو خال جو غزل کے عناصر خمسہ یعنی فانی بدایونی، اصغر گونڈوی، حسرت موہانی، جگر مراد آبادی اور یگانہ چنگیزی میں نظر آئے، اس کی ایک جھلکی بلکہ روشن تر چہرہ شاد عظیم آبادی کے مذکورہ اشعار میں نظر آتا ہے۔ اس تناظر میں شاد عظیم آبادی کو غزل کے مذکورہ عناصر خمسہ کا پیش رو کہنا نا درست نہ ہوگا۔

 بقول ڈاکٹر امرناتھ جھا، ’’شاد عظیم آبادی کی شاعرانہ زندگی کا آغاز 1860ء میں ہوا اور اس کا اختتام ان کی موت کے ساتھ ہوا‘‘۔ غرض یہ کہ ان کی اپنی زندگی کی طرح ان کی شاعری کی عمر بھی خاصی طویل ہے۔شاد کی غزلیات کے مجموعے ’مے خانۂ الہام‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے شفیع عقیل نے ان کے دور کا سرسری طور پر ان جملوں میں ذکر کیا ہے: ’’شاد عظیم آبادی اس دور کے شعراء میں سے تھے جب شاعر کوئی بات کہنے کی بجائے محض شعر کہنا زیادہ مناسب سمجھتے تھے، چنانچہ اس دور کے بیش تر شعراء تشبیہ و استعارہ، ضنائع و بدائع اور محاوروں کے چکر میں پڑے ہوئے نظر آتے ہیں، گویا شاعری، شاعری کم تھی اور شطرنج کا کھیل زیادہ۔ اس دور میں رہ کر شاد عظیم آبادی نے بات سوچنے، سمجھنے اور پھر کہنے کی کوشش کی اور یہ بہت بڑی بات تھی۔ ان کی شاعری کا اگر تواثر سے مطالعہ کیا جائے تو ان کے ہاں جو خوبیاں نظر آئیں گی، وہ اس دور کے کم شعراء کے ہاں ملیں گی۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمیں ان کی شاعری میں ان کا کوئی خاص مطمح نظر معلوم نہیں ہوتا، لیکن یہ ضروری بھی نہیں کہ ہر فن کار کو ہم محض نظریات کی بنا پر پرکھیں۔ فنکار کیلئے فن بذات خود بھی ایک نظریہ ہی ہوتا ہے اور شاد کی شاعری کے مطالعے سے یہی احساس ہوتا ہے۔ ان کے ہاں تصوف بھی ہے معاملات حسن و عشق بھی اور فکر و دنیا بھی۔ وہ زندگی اور فن کو کسی ایک نظریے کے تحت نہیں دیکھتے‘‘۔

ان کی شاعری کے شباب کا زمانہ وہی تھا جو امیر، داغ و جلال وغیرہ کا تھا، لیکن جو سنجیدگی و متنانت ومعنویت ان کے ہاں پائی جاتی ہے وہ کسی کے ہاں نظر نہیں آتی‘‘۔

شاد عظیم آبادی کی شاعری پر حافظ شیرازی کے اثرات جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ اس کا اظہار خود انہوں نے بارہا کیا ہے۔ اس ضمن میں وہ اشعار نذر قارئین ہیں۔

شعر کہتے ہیں کسے، بزم پہ کھل جائے گا

شادؔ آیا نہ کہو، محافظ شیراز آیا

 شعروں میں، اے شاد! یہ باطینت

حافظ وقت ہو، تم باللہ!

 شاد کے نزدیک بھی ساغر و مینا، ساقی و مے خانہ، جام و سبو اور شیشہ و پیمانہ کے وہی اصطلاحی مفہوم ہیں جو حافظ شیرازی کے نقطہ فکر و نظر کے مرہون منت ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شاد کے کلام میں تصوف، اخلاقی اور مذہبی رجحانات کا اظہار کثرت سے پایا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے دامن شاعری کو جن حتیٰ الامکان غیر اخلاقی اثرات سے بچائے رکھا ہے، بلکہ اپنے نظریے کی روشنی سے وہ معاشرے کی اصلاح کے خواہاں تھے۔ یہ اصلاحی پہلو ان کی رندانہ شاعری میں بھی نمایاں ہے۔ چند اشعار پیش خدمت ہیں:

دے کے تہی سبو مجھے، صبر کا حوصلہ دیا

جس کی طلب تھی، ساقیا! اس سے کہیں سوا دیا

کہاں سے لائوں صبرِ حضرت ایوب، اے ساقی!

آئے گا، صراحی آئے گی تب جام آئے گا

بار سبو وہی اٹھائے جس پہ ہو فضل مے فروش

زلبد خشک پہ بھی کیا بوجھ ہے جانماز کا

کسی کے آگے سے ساغر نہ میں نے کھینچا، شاد!

میرے خدا نے نہ مجھ کو درازِ دست کیا

شاعری سے جو کام شاد لینا چاہتے تھے، اس میں وہ کہاں تک کامیاب رہے اس سے قطع نظر یہ بات مسلم ہے کہ انہوں نے ادب میں ایک نیا تجربہ کیا، خاص طور پر غزل کی دنیا اس انداز فکر سے بہت حد تک نامانوس تھی۔ اس کی بنیاد غالباً سب سے پہلے خواجہ درد دہلوی نے رکھی تھی مگر خواجہ صاحب کی شاعری پر تصوف کا اس قدر غلبہ ہے کہ ان کی شاعری پر پندو نصیحت کی چھاپ کا غلبہ نظر آتا ہے اور بیش تر غزلوں میں تغزل کی چاشنی کے فقدان کا احساس ہوتا ہے۔ اس کے برعکس شاد کے ہاں غزل کا مزاج ہر رنگ میں برقرار نظر آتا ہے۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ شاد عظیم آبادی کا زادِ سفر منفرد ہے۔ ان کی رفتار ان کی اپنی ہے، منزلوں پر ٹھہرنے کا انداز ان کا اپنا ہے، راستے کی تھکن اور سفر کی معوبت کا تجربہ بھی ان کا اپنا ہے اور یہ انفرادیت محض اس سوز و گداز کی وجہ سے نمایاں ہے جو غزل میں بہت کم شاعروں کو میسر ہوتا ہے۔ درج ذیل اشعار ملاحظہ ہوں:

ساقی کی چشم مست پہ مشکل نہیں نگاہ

مشکل سنبھالنا ہے دل بے قرار کا

خموشی سے مصیبت اور بھی سنگین ہوتی ہے

تڑپ، اے دل! تڑپنے سے ذرا تسکین ہوتی ہے

شاد کی پیش تر کامیاب غزلیں طویل بحروں میں ملتی ہیں مگر چھوٹی بحروں میں بھی بعض غزلیں بہت زیادہ کامیاب اور مقبول ہوئی ہیں۔ ان کی سب سے مشہور غزل جس کا مطلع یہ ہے:

تمنائوں میں الجھایا گیا ہوں

کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں

اس غزل کے تمام اشعار ایک کیفیت اور مزاج کے حامل ہیں۔ مولانا عبدالسلام ندوی نے ’’ شعرالہند‘‘ میں بھی اس غزل کا حوالہ دیتے ہوئے شاد کو دورِ جدید کے خوش گو شعراء کا پیش رو کہا ہے۔

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

دھوکے کی سزا

کسی گائوں میں ایک دھوبی رہتا تھا،جو شہر سے لوگوں کے کپڑے گدھے پر لاد کے گائوں لاتا اور دھونے کے بعد اسی پر لاد کے واپس شہر پہنچاتا تھا۔دھوبی کی کمائی کا یہی ذریعہ تھا اور وہ اس قدر کما لیتا کہ با آسانی گزر بسر کر سکے۔

زمین کی گردش رُک جائے تو کیا ہو؟

پیارے بچو!زمین اپنے محور کے گرد ایک ہزار میل فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار سے گھو م رہی ہے،تاہم اس وقت کیا ہو گااگر اس کی گرد ش اچانک رُک جائے؟اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا ہوا تو اس کے اثرات انتہائی تباہ کُن ہوں گے۔ماہرین کے مطابق اگر زمین کا گھومنا اچانک تھم جائے تو ہر وہ چیز جو کسی دوسری چیز سے بندھی ہوئی نہیں ہے ۔اچانک مشرق کی جانب ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُ ڑنے لگے گی۔اس کے اثرات فضا پر بھی مرتب ہوں گے اور ہوائیں اتنی طاقتور ہو جائیں گی جیسے کسی ایٹم بم کے دھماکے کے بعد ہو سکتی ہیں۔

جانوروں کی دنیا

بٹیر دیہی علاقوں میں پایا جانے والا ایک خوبصورت پرندہ ہے۔اس کا تعلق پرندوں کے گالی فورمز خاندان سے ہے۔پرندوں کے اس بڑے خاندان میں مرغی،مور اور تیتر بھی شمال ہیں۔

پہیلیاں

ایک کھیتی کا دیکھا یہ حال نہ کوئی پتا نہ کوئی ڈال نہ ہی ڈالا بیج نہ جوتا ہل

اقوال زریں

٭… جوش کی بجائے ہوش سے کام لو۔ ٭… نادان کی صحبت میں مت بیٹھو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی باتیں تمہیں اچھی لگنے لگیں۔ ٭…خوش رہنا چاہتے ہو تو کسی کا دل نہ دکھائو۔

ذرامسکرایئے

باپ بیٹے سے: یہ تم کیسی ماچس لائے ہو ایک تیلی بھی نہیں جل رہی؟ بیٹا: ایسا کیسے ہو سکتا ہے ابو ، میں تو ایک ایک تیلی چیک کر کے لایا ہوں سب جل رہی تھیں۔٭٭٭