جمیل الدین عالی عالمی شہرت یافتہ ہمہ جہت ادیب
![](https://dunya.com.pk/news/ahwalesiyasat_or_mimbromahrab/img/4451_29169349.jpg)
تعارف: مرزا جمیل الدین احمد نام اور عالی تخلص ہے۔1926ء میںوہ نواب امیر الدین احمد خان آف لوہارو کے ہاں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ کا نام جمیلہ بیگم تھا جو نواب آف لوہارو کی چوتھی بیوی تھیں۔ والد کی وفات کے بعد زندگی سرکار برطانیہ کے وظیفے پر بسر کی ۔ جمیل الدین عالی نے اینگلو عریبک کالج دہلی سے معاشیات اور فارسی کے مضامین میں گریجویشن کی۔
اسی برس طیبہ بانو سے شادی ہوئی۔ 1947ء میں جب پاکستان ہجرت کی تو ان کے ہمراہ ان کی سب سے پہلی صاحبزادی بھی تھیں۔ 1951ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور انکم ٹیکس کے محکمے میں افسر ہو گئے۔ 1962ء میں انجمن ترقی اردو کے اعزازی سیکرٹری کا عہدہ سنبھالا۔ 1972ء میں ایل ایل بی کیا۔ وفاقی وزارت فنانس میں نامور معاشیات دان ڈاکٹر محبوب الحق کے ساتھ کام کیا۔ سابق صدر غلام اسحق خان کے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ نیشنل بنک سے وابستہ ہوئے تو وائس پریذیڈنٹ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ رائٹرز گلڈ کا ادارہ قائم کیا۔ اردو ڈکشنری بورڈ کے تین برس تک چیئرمین رہے۔
ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘ 1957ء میں سامنے آیا، ملی نغمات پر مشتمل مجموعہ ’’جیوے جیوے پاکستان‘‘ اور ’’لا حاصل‘‘ 1974ء میں شائع ہوا۔ آخری شعری مجموعہ ’’اے مرے دشتِ سخن‘‘ تھا۔ خاکہ نگاری کے حوالے سے ایک کتاب ’’بس اک گوشۂ بساط‘‘ لکھی، چندسفر نامے بھی لکھے، دیگر کتب میں ’’نئی کرن‘‘، ’’شنگھائی کی عورتیں‘‘ اور ’’ایشین ڈرامے‘‘ شامل ہیں۔عمر کے آخری برسوں میں ’’انسان‘‘ کے عنوان سے ایک طویل نظم کہی جو 10ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ 1967ء سے 2010ء تک بغیر کسی وقفے کے اخبار کیلئے کالم لکھا۔ 1977ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی جانب سے حصہ لیا لیکن ناکام رہے جبکہ ایم کیو ایم کی حمایت سے وہ 1997ء میں سینیٹ کی سیٹ پر منتخب ہوئے۔ 23نومبر 2015ء کو انتقال ہوا، 90 برس کی عمر پائی۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت کی طرف سے انہیں1991ء میں ’’تمغہ حسنِ کار کردگی‘‘، 1998ء میں ’’ہلالِ امتیاز‘‘اور اکادمی ادبیات کی جانب سے ’’کمال ِ فن‘‘ ایوارڈ سے نوازا گیا۔
پاکستانی شعر و ادب کی دنیا میں جن شخصیات نے اپنی انفرادیت کے نقوش چھوڑے ہیں، اُن میں جمیل الدین عالی بھی شامل ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ ایک طرف اُنہوں نے یاد گار ملی نغمے اور گیت لکھے،تو دوسری طرف ’’دوہے‘‘ کو ایک نئی زندگی بخشی۔شعرو ادب کی دنیا میں نمایاں ترین کردار ادا کرنے کے ساتھ علمی اور تعمیری میدانوں میں بھی کئی اہم کارناموں کے باعث وہ قابلِ ستائش ہیں۔ اردو کے حوالے سے بھی جمیل الدین عالی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
جمیل الدین عالی صرف ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک پورے عہد کا نام ہے۔ اس پورے عہد میں ان کی شخصیت کے انگنت رنگ بکھرے ہوئے ہیں، اور ہر رنگ میں ان کی شخصیت درجہ کمال کو چھوتی نظر آتی ہے۔ اگر ہم ان کی شاعری پر نظر دوڑائیں تو اس میں شاعر سے زیادہ ان کے انسان دوست ہونے کی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے۔ آج مشرق و مغرب میں ، بحر اور بر میں ، زمین اور آسمان میں ہر جگہ فتنہ و فساد اور انتشارکا جو دور دورہ ہے ان حالات کا ذکر عالی شاعری کی زبان میں یوں کرتے ہیں:
کوئی شکار اور کوئی شکاری
انسانوں کی ناہمواری
بھوک ، غریبی اور بیماری
سوچنے والوں کی لاچاری
دکھ ہی دکھ کی بپتا ساری
نیک دلوں کی اہل تعصب
شیطانوں میں دل آزاری
جہاں غریب کو کئی نہ پوچھے ، اسے اس کی محنت مزدوری کا ٹھیک معاوضہ نہ ملے ، اور ملے تو بروقت نہ ملے ، اس سماج کا اور کیا حشر ہو گا، اس افسوسناک صورتحال کا نقشہ عالی کے الفاظ میں دیکھئے:
جس کی گاڑھی کھری کمائی مفت میں تم نے کھائی
آج سے پہلے عالی جی!تمہیں اس کی یاد نہ آئی
جیتے جی لہو کے دریاجس نے روز بہائے
عالی جی! کبھی تم نے اُس پر دو آنسو نہ گرائے
جمیلی عالی نے اپنے دوہوں میں موجودہ سماج کی حالت بیان کی ہے، جو ان منافق لوگوں کی بدولت پیدا ہو گئی ہے۔
دور ہی دور سے آس کی کرنیں
چمک دمک دکھلائیں
جن کے گھروں میں گھور اندھیرا
ان کے پاس نہ جائیں
اردو زبان کے نجات دہندہ ہونے کا شرف ملاتو بہت سے ایسے کام کر گئے جو ناممکن دکھائی دیتے تھے۔ 1962ء میں انجمن ترقی اردو کے اعزازی سیکرٹری کا عہدہ سنبھالا اور پھر انجمن کی ترقی کیلئے صحیح معنوں میں کام کیا۔ انجمن ترقی ادب کراچی کے ساتھ پچاس برس کی رفاقت نہایت محبت سے نبھائی۔ اس دور میں کم و بیش ساڑھے تین سو کتب ایسی شائع کروائیں جو اردو لسانیات کے حوالے سے ایک سند کا درجہ رکھتی ہیں۔
ان کی شخصیت کا ایک اور روپ کالم نگار کا ہے۔ مقامی اخبار میں پچاس برس تک اپنا کالم ’’نقار خانے میں‘‘ لکھتے رہے۔ کالم نگاری میں بھی ان کا اپنا ہی انداز سامنے آیا۔ اُن کے کالموں میں علمی اور ادبی موضوعات کے ساتھ سماجی، تہذیبی اورسیاسی مسائل کی رنگ آمیزی بھی شامل رہی۔ کالم نگاری سے ہٹ کر عالی جی نے جو نثر لکھی وہ ادبی شہ پارے ہیں مگر اخبار کے کالم میں انہوں نے سادہ اور بے تکلف سا انداز تحریر اپنایا۔
عالی بہت بڑے سیاح بھی تھے، انہوں نے مشرق و مغرب دونوں کی سیاحت کی۔ یہ سیاحت نامے وہ لکھتے بھی رہے۔دور جدید کے اردو سفر نامے لکھنے والوں میں جمیل الدین عالی کا شمار ’’السبقون الاوّلون ‘‘میں ہوتا ہے۔ انہوں نے سفر نامے لکھنے کی ابتدا1961ء میں کی ۔ ان سے پہلے اگر پاکستان میں کوئی سفر نامہ لکھا بھی گیا تو اس کو شہرت نہیں ملی، اس لئے عالی کے لکھے ہوئے سفر نامے پاکستان کے اولین سفر ناموں میں شمار کئے جائیں گے۔
عالی جی کی زندگی اتنی بھر پور گزری کہ حیرت ہوتی ہے کہ ایک ہی شخص زندگی کے کتنے محاذوں پر جتا رہا اور کہیں بھی اس نے شکست نہیں کھائی۔ جمیل الدین عالی نے ایک طویل، بھرپور اور خوشحال زندگی گزاری۔ جتنا کام، کامیابیاں، پذیرائی اور محبتیں انہوں نے اپنی زندگی میں سمیٹیں، لوگ ان کا خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ عمر کے آخری چند برسوں میں وہ عارضہ قلب سمیت مختلف امراض کا شکار ہو گئے اور 90 سال جینے کے بعد خالق ِ حقیقی سے جا ملے،تاہم اُن کی شخصیت کی اثر انگیزی اور تخلیقی کاموں کی گونج اب تک برقرار ہے اور ہمیشہ رہے گی۔