سبق

تحریر : اسد بخاری


مس عنبرین کلاس میں داخل ہوئیں اور السلام علیکم کہا۔ لیکن بچوں کی طرف سے سلام کا جواب دیا گیا نہ ان کے استقبال کیلئے کوئی طالب علم کھڑا ہوا۔ مس عنبرین نے سب کے چہرے دیکھے سب اُداس اور پریشان د کھائی دے رہے تھے۔

مس عنبرین کا آج کلاس اور سکول میں پہلا دن تھا۔ سب بچے سر جھکائے بیٹھے تھے۔ ایک دو بچوں نے جھکی جھکی آنکھوں سے انہیں دیکھا۔ مس عنبرین خاموشی سے سب کا جائزہ لیتی رہیں۔ انہوں نے غور سے تمام طلباء کے تاثرات کا جائزہ لیا، چہروں پر اُداسی اور دکھ نمایاںتھا۔

پیارے بچو! میرا نام عنبرین ہے۔ مس نے ٹھہری ہوئی آواز میں اپنا تعارف کرایالیکن بچوں نے کوئی خاص رد عمل نہیں دیا۔ اُسی وقت سکول کے پرنسپل  کلاس میں داخل ہوئے، سب بچے کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے بچوں سے کہا کہ آج سے پہلے دو پیریڈ مس عنبرین پڑھایا کریں گی، مجھے شکایت کا موقع نہ دیجئے گا‘‘۔بچوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ 

مس عنبرین گہری سوچ میں ڈوب گئیں، آج تک کسی بھی کلاس میں اتنا بے تاثر سا رویہ دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ پھر انہوں نے سوچا اب یہ میری ذمہ داری ہے کہ سب کے چہروں پر خوشیاں لائوں۔ بچوں کو تعلیم کے ساتھ تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے۔ 

پرنسپل صاحب کے جانے کے بعد مس عنبرین نے بچوں کو مخاطب کیا، بچوں آج ہم کوئی سبق نہیں پڑھیں گے، سب اپنا اپنا تعارف کروائیں گے۔ شاباش آپ کھڑے ہو جائیں اور اپنا تعارف کروائیں، مس نے ایک بچے کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ 

میرا نام حماد ہے، میں کلاس پنجم کا طالب علم ہوں۔ خشک لہجے میں تعارف کروانے کے بعد بچہ بیٹھ گیا ۔دوسرا بچہ کھڑا ہوا، اس نے بھی بے جان مشین کی طرح اپنا تعارف کروایا، میرا نام جنید ہے، میں کلاس پنجم کا طالب علم ہوں‘‘۔ ایک بچی کھڑی ہوئی اس نے بھی رٹے ہوئے الفاظ دہرائے، میرا نام شازیہ ہے میں کلاس پنجم کی طالبہ ہوں۔ الغرض سب بچوں نے اپنا اپنا تعارف کروایا۔ 

مس عنبرین خاموشی سے سب کا تعارف سنتی رہیں۔ جب تعارف مکمل ہو گیا تو سب سے پوچھا ’’یہ کونسی جماعت ہے؟‘‘۔ بچوں نے حیرانی سے دیکھا ایک دوسرے کے چہروں پر مسکراہٹ بھی نظر آئی۔ ’’یہ جماعت پنجم ہے مس‘‘۔ نفیسہ نے بتایا ۔’’اچھا تو سب اپنے نام کے ساتھ کلاس کا کیوں بتا رہے تھے ۔‘‘ اب سب خاموش ہو گئے ۔’’ بچوں پہلے کون سی مس پڑھایا کرتی تھی ؟‘‘ اس سوال پر مس عنبرین نے دیکھا سب کے چہروں پر چمک لہرائی ۔

’’مس بتول صاحبہ پڑھایا کرتی تھیں‘‘ تقریباََ سب نے ہی یک زبان ہو کر کہا۔ ’’مجھے لگ رہا ہے وہ بہت اچھی استاد تھیں، ہیں ناں‘‘ مس نے بچوں کی اُداسی کا سبب جاننا چاہا اور انہیں مایوسی نہیں ہوئی۔ ’’جی وہ بہت اچھی تھیں‘‘ اس مرتبہ بھی تقریباً سب بچوں نے دھیمی آواز سے کہا۔ 

’’وہ کیوں آپ کے سکول سے چلی گئیں‘‘، مس کے پوچھنے پر ایک بچہ جس کا نام سلیم نے کھڑے ہو کر کہا ’’مس ان کی شادی ہو گئی ہے‘‘۔ مس نے اشارہ کیا تو وہ بیٹھ گیا۔ ’’کیا تم ان کی شادی سے خوش نہیں ہو‘‘۔ سب کے چہروں پر اس سوال سے حیرت پیدا ہوئی۔ ’’ہاں بتائوکیا آپ سب اس کی شادی سے خوش نہیں ہو‘‘ اس نے سوال دہرایا۔

’’ہم خوش ہیں مس لیکن۔۔۔۔‘‘، مس عنبرین کرسی سے اٹھیں اور کلاس میں ایک چکر لگایا۔ سب خاموش بیٹھے رہے۔ ’’اگر آپ سب خوش ہیں تو اُداس اس لیے ہو کہ وہ آپ سے جدا ہو گئی ہیں، یہی بات ہے ناں‘‘۔ بچوں نے اثبات میں سر ہلایا۔

’’سنو بچو! اس بات کا غم نہ منائو بلکہ ان کیلئے دعا کرو۔ یہ دنیا ہے یہاںلوگ ملتے ہیں بچھڑ جاتے ہیں۔ پہلے میں جس کلاس کو پڑھایا کرتی تھی، وہاں بچے مجھے بھی بہت پسند کرتے تھے‘‘ مس عنبرین نے ایک گہری سانس لی۔ 

ایک لڑکی کھڑی ہوئی اور کہنے لگی ’’آج وہ بچے بھی ایسے ہی آپ کو یاد کر رہے ہوں گے، جیسے ہم مس بتول کو یاد کر رہے ہیں‘‘۔ اس کے بعد سب بچے گفتگو میں شریک ہو گئے۔ مس عنبرین نے ان سے ان کے بہن بھائیوں اور والدین کے بارے میں پوچھا۔ سکول سے جانے کے بعد گھر میں کیا کرتے ہیں۔ تھوڑی دیر پہلے کی چھائی ہوئی اُداسی دور ہو گئی، اب بچے چہک رہے تھے۔ سب ایک دوسرے کے ساتھ کھل کر باتیں کر رہے تھے۔

دو پیریڈ گزر نے کا وقت قریب ہی تھا مس عنبرین نے سب کو خاموش کروایا اور کہا ’’بچوں آج کے دن آپ سب نے کیا کچھ سیکھا ہے؟‘‘۔ سب بچے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے انہوں نے کچھ پڑھا ہی نہیں تھا تو کیا بتاتے۔ مس عنبرین نے کہا آج آپ نے چند ضروری اور قیمتی باتیں سیکھیں ان کو اچھی طرح سمجھ لو۔

پہلی بات یہ کہ کوئی غم یا خوشی مستقل نہیں ہوتا۔ وقت کے ساتھ، وقت گزر جاتا ہے۔ دوسری بات جو سیکھی وہ یہ ہے کہ جو وقت یا ساتھی بچھڑ جائے اس کا غم مناتے ہیں لیکن جینا اور خوش رہنا نہیں چھوڑ دیتے۔ آخری بات جو بہت اہم ہے وہ ہے ادب، اپنے والدین کا اپنے استاد کا۔ چاہیں وہ نیا استاد ہو یا پرانا، سب کا احترام کرنا چاہیے اور اپنے سے بڑوں کی عزت کرنا آپ سب کا اخلاقی فرض بھی بنتا ہے۔

یہ کہنے کے بعد مس نے سب کو غور سے دیکھا اور اُٹھ کھڑی ہوئیں، سب بچوں کے چہروں پر شرمندگی عیاں تھی۔ آج کے یہ تین اسباق اگر تم زندگی بھر یاد رکھو تو میں سمجھوں گی آج آپ نے زندگی کا علم حاصل کیا ہے۔ یاد رکھو ہمارے سارے علم حاصل کرنے کا مقصد زندگی میں خوشیاں لانا ہے۔ اگر علم خوشیاں نہیں دے سکتا تو اس علم کا کیا فائدہ ۔ سب بچوں نے کھڑے ہو کر مس کو الوداع کیا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

رشتوں کا ادب واحترام،نبیﷺ کی سنت

’’ اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو‘‘(سورۃ النساء) صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے کے طور پر کرے، صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جب کوئی قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑے‘‘ (صحیح بخاری)

برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ

اگر کوئی آپ سے برائی کے ساتھ پیش آئے تو آپ اس کے ساتھ اچھائی کے ساتھ پیش آئیں، ان شاء اللہ اس کے مثبت نتائج دیکھ کر آپ کا کلیجہ ضرور ٹھنڈا ہو گا۔

منافقانہ عادات سے بچیں

حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ چار عادتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ چاروں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے اور وہ اسی حال میں رہے گا، جب تک کہ اس عادت کو چھوڑ نہ دے۔

مسائل اور ان کا حل

بیماری کی صورت میں نمازیں چھوٹ جائیں تو کیا حکم ہے ؟ سوال : بیماری کی صورت میں نمازیں قضاء ہوجائیں تو کیا حکم ہے ؟(محمد مہتاب) جواب :ان کی قضاء شرعاً لازم ہے۔

9مئی سے متعلق اعتراف کتنا مہنگا پڑے گا؟

پاکستان تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔ پی ٹی آئی بھی اپنی مشکلات میں خود اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ۔ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے اور پی ٹی آئی قیادت پر آرٹیکل 6 لگانے کا اعلان کیا گیا تو بانی پی ٹی آئی نے بیان داغ کر حکومتی پلان کیلئے سیاست کی حد تک آسانی پیدا کردی مگر سیاسی جماعت پر پابندی موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے آسان کام نہیں۔

پاکستان کا سیاسی بحران اور مفاہمت کی سیاست

پاکستان کا سیاسی بحران بڑھ رہا ہے ۔ حکومت، مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان ماحول میں کافی تلخی پائی جاتی ہے ۔ پی ٹی آئی پر بطور جماعت پابندی لگانے اور بانی پی ٹی آئی ‘ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پر غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔