یادرفتگاں: افسانہ و ناول نگاری میں یکتا الطاف فاطمہ

تحریر : ارسہ مبین


اردو ادب میں جہاں مردوں نے اپنی فنی عظمت کے انمٹ نقوش ثبت کئے وہیں خواتین بھی اس میدان میں مردوں سے پیچھے نہیں رہیں۔ خواتین لکھاریوں کی فہرست میں ایک نام الطاف فاطمہ کا بھی ہے افسانہ نگاری اور ناول نگاری میں اپنا ایک منفرد مقام بنایا۔ ان کا اپنا ہی ایک منفرد اسلوب تھا جو اُن کے کرداروں میں جھلکتا تھا، خاص طور پر اُن کے نسوانی کرداروں میں۔ اُن کے ناولز اور افسانوں میں حُبّ الوطنی اور مذہبیت کا رنگ پڑھنے والوں کو واضح نظر آتا ہے۔

الطاف فاطمہ کا شمار ان لکھاریوں کی صف میں ہوتا ہے جو 60ء کی دہائی میں منظر عام پر آئے۔ آپ پاکستان کی نامور افسانہ نگار، ناول نگار، ترجمہ نگار، ادیبہ اور استاد تھیں۔ وہ 1927ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئیں اور 29نومبر 2018ء کو 91 برس کی عمر میں لاہور میں ان کا انتقال ہوا، آج ان کی برسی ہے۔

الطاف فاطمہ بھارتی ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنئو میں10جون 1927ء کو پیدا ہوئیں۔ وہ مولانا فضل حق خیر آبادی کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، مشہور افسانہ نگار رفیق حسین ان کے سگے ماموں تھے اور حمیدہ اختر حسین رائے پوری ان کی خالہ زاد بہن تھیں۔ تقسیمِ ہند کے بعد ان کا خاندان لاہور آ کر آباد ہوا تھا۔ انھوں نے لیڈی میکلیگن کالج سے بی ایڈ اور جامعہ پنجاب سے ایم اے اردو کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں تدریس کے شعبے کا انتخاب کیا اور اسلامیہ کالج برائے خواتین کوپر روڈ میں اردو کی استاد مقرر ہوئیں اور اسی کالج سے شعبہ اردو کی سربراہ کی حیثیت سے ملازمت سے سبکدوش ہوئیں۔ 

لکھنے پڑھنے کا شوق زمانہ طالب علمی سے ہی تھا اور یہی شوق ان کی ایک آنکھ کی خرابی کا سبب بنا۔ انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے لکھنا شروع کیا تو انہیں خوب پذیرائی پائی۔ ان کا پہلا افسانہ 1962ء میں مؤقر ادبی جریدے ’’ادب لطیف‘‘ میں شائع ہوا۔ اس کے بعد آپ کی تحریریں پاکستان کے معروف ادبی جریدوں میں شائع ہوتی رہیں۔ 

الطاف فاطمہ نے بہت سے ناول اور افسانے لکھے۔ ان کے ناولوں نے ناول نگاری میں ایک نئی جہت پیدا کی تھی۔ ان کے مشہور ناولوں میں نشانِ محفل، عنکبوت، جب دیواریں گریہ کرتی ہیں، دستک نہ دو شامل ہیں۔ ان کا ناول ’’دستک نہ دو‘‘ اپنی اشاعت کے وقت اتنا مقبول ہوا تھا کہ سرکاری ٹی وی نے اسے ڈرامائی شکل بھی دی تھی۔ ناول ’’دستک نہ دو‘‘ تقسیمِ ہند سے قبل کے چند سال کے بارے میں ایک اچھا ناول ہے۔  اس میں متحدہ ہندوستان کے شاندار ماضی کا ذکر ہے، جس میں ہندو اور مسلمان مل جُل کر رہا کرتے تھے۔ اس ناول میں قیامِ پاکستان کے وقت ہونے والے فسادات میں مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنتے دِکھایا گیا۔ 

الطاف فاطمہ کا ناول ’’چلتا مسافر‘‘ بھی ان کی ایک شاندار تخلیق ہے جس میں ایک نہیں، دو تقسیموں کی داستان بیان کی گئی ہے۔ اس ناول میں 1940ء سے 1970ء کے درمیان کے واقعات کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ اس ناول میں انہوں نے بہار کے ایک زمیندار خاندان کی کہانی لکھی ہے۔ خاندان کے سربراہ سیّد مبشر مسلم لیگ کے سرگرم کارکن ہیں اور اُن کا بیٹا مزمّل بھی باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مسلمانوں کیلئے آزاد مْلک کا داعی ہے۔ اس کے باوجود یہ لوگ کانگریسی مسلمانوں سے بھی اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔ ’’چلتا مسافر‘‘ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں اُس خاندان کی پہلی ہجرت، بہار سے مشرقی بنگال اور پھر 1971ء کے بعد مشرقی پاکستان سے، مغربی پاکستان منتقلی بڑے اچھے انداز سے بیان کی گئی ہے۔ ان کی جذباتی وابستگی اپنے بہاری کرداروں کے ساتھ بڑی واضح ہے۔ یہ ناول اُن کی تخلیق صلاحیتوں کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ 

الطاف فاطمہ نے شادی نہیں کی اور ان کا تخلیقی سفر 90 برس کی عمر میں بھی جاری رہا۔ ترجمہ اور تخلیقی کاموں کے ساتھ ساتھ مطالعہ بھی ان کے مشاغل میں شامل تھا۔ انھیں اپنے ہم عصر ادیبوں میں انتظار حسین کا ناول ’’آگے سمندر ہے‘‘ بہت پسند تھا۔ بہت زیادہ سوشل نہ ہونے کی وجہ سے ادبی شہرت اور عزت کے حوالے سے ہمیشہ ناآسودگی کا شکار رہیں۔ 

2018ء میں ان کا انتقال ہوا اور لاہور کے مشہور قبرستان میانی صاحب میں تدفین ہوئی۔ الطاف فاطمہ کی ادبی خدمات لمبے عرصے تک یاد رکھی جائیں گی۔

الطاف فاطمہ کی تخلیقات

ناول 

1:۔ خواب گر

2:۔ چلتا مسافر

3:۔ دستک نہ دو

4:۔ نشان محفل

افسانوں کے مجموعے

1:۔ تار عنکبوت

2:۔ جب دیواریں گریہ کرتی ہیں

3:۔ وہ جسے چاہا

4:۔ دید وادید

تراجم 

1:۔ سچ کہانیاں

2:۔ بڑے آدمی اور ان کے نظریات

3:۔ نغمے کا قتل

4:۔ جاپانی افسانہ نگارخواتین

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

دھوکے کی سزا

کسی گائوں میں ایک دھوبی رہتا تھا،جو شہر سے لوگوں کے کپڑے گدھے پر لاد کے گائوں لاتا اور دھونے کے بعد اسی پر لاد کے واپس شہر پہنچاتا تھا۔دھوبی کی کمائی کا یہی ذریعہ تھا اور وہ اس قدر کما لیتا کہ با آسانی گزر بسر کر سکے۔

زمین کی گردش رُک جائے تو کیا ہو؟

پیارے بچو!زمین اپنے محور کے گرد ایک ہزار میل فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار سے گھو م رہی ہے،تاہم اس وقت کیا ہو گااگر اس کی گرد ش اچانک رُک جائے؟اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا ہوا تو اس کے اثرات انتہائی تباہ کُن ہوں گے۔ماہرین کے مطابق اگر زمین کا گھومنا اچانک تھم جائے تو ہر وہ چیز جو کسی دوسری چیز سے بندھی ہوئی نہیں ہے ۔اچانک مشرق کی جانب ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُ ڑنے لگے گی۔اس کے اثرات فضا پر بھی مرتب ہوں گے اور ہوائیں اتنی طاقتور ہو جائیں گی جیسے کسی ایٹم بم کے دھماکے کے بعد ہو سکتی ہیں۔

جانوروں کی دنیا

بٹیر دیہی علاقوں میں پایا جانے والا ایک خوبصورت پرندہ ہے۔اس کا تعلق پرندوں کے گالی فورمز خاندان سے ہے۔پرندوں کے اس بڑے خاندان میں مرغی،مور اور تیتر بھی شمال ہیں۔

پہیلیاں

ایک کھیتی کا دیکھا یہ حال نہ کوئی پتا نہ کوئی ڈال نہ ہی ڈالا بیج نہ جوتا ہل

اقوال زریں

٭… جوش کی بجائے ہوش سے کام لو۔ ٭… نادان کی صحبت میں مت بیٹھو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی باتیں تمہیں اچھی لگنے لگیں۔ ٭…خوش رہنا چاہتے ہو تو کسی کا دل نہ دکھائو۔

ذرامسکرایئے

باپ بیٹے سے: یہ تم کیسی ماچس لائے ہو ایک تیلی بھی نہیں جل رہی؟ بیٹا: ایسا کیسے ہو سکتا ہے ابو ، میں تو ایک ایک تیلی چیک کر کے لایا ہوں سب جل رہی تھیں۔٭٭٭