نوازشریف تلخ ماضی کے اسیر کیوں؟

تحریر : سلمان غنی


انتخابی محاذ پر سب سے زیادہ سنجیدگی کا اظہار مسلم لیگ (ن) کی جانب سے کیا جا رہا ہے اور اس حوالے سے اپنے امیدواروں کے چنائو کیلئے پارٹی کا 35رکنی پارلیمانی بورڈ کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

یہ پارلیمانی بورڈ امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دینے کا حتمی فیصلہ کرے گا، لیکن مذکورہ عمل سے قبل پارٹی کی جانب سے ڈویژنل سطح پر قائم کوآرڈی نیشن کمیٹی اپنے مقامات سے اپنے امیدواروں کی پارٹی ٹکٹوں کیلئے انٹرویوز کرکے مرکزی پارلیمانی بورڈ کو اپنی سفارشات سے آگاہ کریں گی۔ ایک جانب یہ پارٹی امیدواروں کے چنائو کیلئے انٹرویوز کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب پارٹی کے لیڈر نوازشریف پارٹی کے ذمہ داران سے مشاورتی عمل کے ساتھ ساتھ مختلف شہروں کے ایوان ہائے صنعت و تجارت کے دورے اور تنظیمی عہدے داران کے کنونشن سے خطاب کررہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے مری اور سیالکوٹ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے اپنے خطاب کے دوران اپنی ماضی کی حکومتوں کی خدمات اور معاشی اور انفراسٹرکچرکے شعبہ جات میں اپنی حکومتوں کے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اچھا بھلا ملک ترقی کر رہا تھا لیکن ان کی چلتی حکومت کو چلتا کیا گیا۔ نوازشریف کی جانب سے مختلف کنونشنز میں خطاب کے دوران ان حالات کا ذکر کیا گیا جن میں منتخب حکومتوں کے خلاف سازش کی جاتی رہی ۔ نوازشریف اپنے خطاب میں ماضی کی تلخ یادوں سے نکلنے کو تیار نہیں اور اب بھی وہ انہی حوالوں کے ساتھ عوام الناس کو یقین دہانی کراتے نظر آ رہے ہیں کہ ہم پاکستان کو آگے لے جانے اور معاشی بحالی اور ترقی کے عمل کی اہلیت رکھتے ہیں۔زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو بلاشبہ ملک گمبھیرصورتحال میں ہے۔انتخابات کے اعلان کے باوجود آج تک نہیں کہا جا سکتا کہ ملک میں انتخابی ماحول بن چکا ہے۔ مسائل زدہ عوام پاکستان کی سیاسی قوتوں کی جانب دیکھ رہے ہیں اور اس امید اور توقعات میں ہیں کہ یہ جماعتیں برسراقتدار آئیں تو عوام کی آواز بنیں اور ان کے سلگتے مسائل کا تدارک ہو سکے ۔ آج مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف اپنی پرانی حکومتوں کارکردگی کا ذکر تو کر رہے ہیں لیکن وہ سولہ ماہ کی اتحادی حکومتوں کا ذکر نہیں کر تے۔ البتہ نوازشریف پر عزم  ہیں کہ وہ ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آئیں گے اور وہیں سے اپنے سفر کا آغاز کریں گے جہاں 2017ء میں رکا تھا۔بلاشبہ2017ء میں مہنگائی کی شرح یہ نہیں تھی، روٹی دال اور اشیائے ضروریات عوام کی دسترس تھی لیکن ڈالر 105اور پٹرول فی لٹیر68 روپے تھا، لیکن اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے، ناقص معاشی پالیسیوں کے باعث ملک معاشی گرداب میں پھنسا نظر آ رہا ہے، اس کیفیت میں مسلم لیگ (ن) اور نوازشریف کے پاس ایسا کونسا انقلابی پروگرام اور تجربہ کار ٹیم ہے جو ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر ڈال سکے؟ اس پر مسلم لیگ (ن) کی لیڈر شب کو سوچنا ہوگا۔ اگر اہلِ سیاست کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو وہ مستقبل کے حوالے سے زیادہ خوش گمان نظر نہیں آ رہے۔ آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن، سراج الحق، شاہد خاقان عباسی سمیت مختلف سیاستدانوں کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل میں مضبوط حکومت کا خواب حقیقت نہیں بنے گا اور کوئی بھی جماعت سادہ اکثریت حاصل کرنے کی اپوزیشن میں نہیں۔ اگر یہی صورتحال ہوتی ہے تو مستقل کی حکومت کو بھی ماضی کی حکومتوں کا فالو اَپ ہی سمجھا جائے گا، لہٰذا ابھی سے اہل سیاست کو مستقبل کی سیاست کا جائزہ لینا پڑے گا کیونکہ پاکستان ایسے حالات کا متحمل نہیں ہو سکتا جس کے نتیجہ میں حکومتیں محض سیاست سیاست کھیلتی نظر آئیں اور حکومتوں کے ثمرات عام آدمی تک نہ پہنچیں ۔8فروری کے انتخابات کو پتھر پر لکیر قرار دینے کے باوجود اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ خود سیاسی رہنما اور انتخابی امیدوار یہ استفسار کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ کیا واقعتاً انتخابات ہوں گے ،اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ عوام میں اپنا اعتماد بحال کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ۔ اگرچہ تحریک انصاف کیلئے حالات مقدمات کے باعث سازگار نہیں اوران کی لیڈر شپ جیلوں میں ہے مگر ان کی سیاسی جماعت موجود ہے اور سب اپنی نجی محفلوں میں یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک ہے لیکن ان کی رائے میں یہ ووٹ بینک شاید پولنگ کے روز بروئے کار نہ لایا جا سکے ۔تو پھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ انتخابی عمل آزادانہ ،غیر جانبدار اور شفاف ہو گا؟اگر ایک جانب پکڑ دھکڑ جاری رہے گی تو پھر کس طرح کہا جا سکے گا کہ انتخابی عمل آزادانہ اور شفاف ہے؟ اس حوالے سے بڑی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر آئے گی کیونکہ یہ اس کی ساکھ پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اہل سیاست اور خصوصاً مسلم لیگ (ن) کی لیڈر شپ، پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور جے یو آئی (ف) کے امیر کو چاہئے کہ وہ ملک میں آزادانہ اور شفاف انتخابات پر زور دیں، اس کا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ انتخابی عمل یقینی بنے گا۔ اگر واقعتاًا ملک میں جمہوریت اور جمہوی عمل کی تقویت چاہتے ہیں تو انہیں ملک میں ساز گار فضا میں آزادانہ انتخابات کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ورنہ انتخابات ہوبھی جائیں تو حکومت سازی کا عمل ملک میں استحکام نہیں لا سکے گا، انتشار اور خلفشار ختم نہیں ہوگا ۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن پر عدم اعتماد کے بعد بیس روز کے اندر دوبارہ انتخابات کرانے پر تحریک انصاف نے پیش رفت شروع کردی ہے اور اس حوالے سے دو دسمبر کو جماعتی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں ۔ توشہ خانہ میں پارٹی لیڈروں کو سنائی جانے والی سزا کے بعدچیئرمین کے انتخاب کیلئے بیرسٹر گوہر کا نام سامنے آ یا ہے جبکہ دیگر عہدوں پر انتخابات ہوں گے۔ جماعتوں کے اندر انتخابی عمل محض ایک رسمی کارروائی بن کر رہ گیا ہے، جماعتیں شخصیات کے گرد ہی گھومتی نظر آتی ہیں۔پی ٹی آئی کی لیڈر شپ اس عمل سے بظاہر الگ ہے مگر عملاً انہیں پارٹی کے معاملات اور فیصلوں سے الگ تھلگ نہیں کیا جا سکے گا، یہی کچھ ماضی میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہوا ،یہی اب پی ٹی آئی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ البتہ یہ بات نئی ضرور ہے کہ اب چیئرمین کے منصب پر بیرسٹر گوہر کا نام چنا گیا ہے۔ پہلے حامد خان کا نام بھی سامنے آیا تھا، لیکن حامد خان اپنی ایک سوچ و فکر رکھتے ہیں، ویسے تو پارٹی کے سیکرٹری جنرل بھی رہے، لیکن یہاں اس وقت ایسا فرد کو آگے لانا مقصود تھا جو پارٹی قائد کی ہدایات پر چلے اور جو کہا جائے وہی کرتا نظر آئے۔ لہٰذا انٹرا پارٹی الیکشن کی کارکردگی رسمی کارروائی ہو گی، عملاً پارٹی لیڈر ہی پارٹی کے لیڈر نظر آئیں گے۔ اگر سب کچھ ایسے ہی چلنا ہے تو پھر جماعتوں کی صورتحال بھی یہی رہے گی۔  ویسے کیا یہ کھلا تضاد نہیں کہ ملک میں شفاف انتخابات کے داعی خود پنی جماعتوں کے اندر انتخابی عمل میں شفافیت کی بجائے نامزدگیوں کو ترجیح دیتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جمہوریت اور سیاست مضبوط نہیں بن سکی۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

احسان اللہ کے قرب کا ذریعہ

’’احسان کرو، اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ (البقرہ)’’تم آپس میں ایک دوسرے کے احسان کو مت بھولو، بیشک اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعمال کی خبر ہے‘‘ (سورۃ البقرہـ)

حُسنِ کلام : محبت اور اخوت کا ذریعہ

’’ اور میرے بندوں سے فرمائو وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو‘‘(سورہ بنی اسرائیل )’’اچھی بات کہنا اور در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد جتانا ہو‘‘(سورۃ البقرہ)

رجب المرجب :عظمت وحرمت کا بابرکت مہینہ

’’بیشک اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی 12ہے، جن میں سے 4 عزت والے ہیں‘‘:(التوبہ 36)جب رجب کا چاند نظر آتا تو نبی کریم ﷺ دعا مانگتے ’’اے اللہ!ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکتیں عطا فرما‘‘ (طبرانی: 911)

مسائل اور اُن کا حل

(قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق جلانا)سوال:قرآن کریم کے اوراق اگر بوسیدہ ہو جائیں تو انہیں بے حرمتی سے بچانے کیلئے شرعاً جلانے کا حکم ہے یا کوئی اور حکم ہے؟شریعت کی رو سے جو بھی حکم ہو، اسے بحوالہ تحریر فرمائیں۔ (اکرم اکبر، لاہور)

بانی پاکستان،عظیم رہنما،با اصول شخصیت قائد اعظم محمد علی جناحؒ

آپؒ گہرے ادراک اور قوت استدلال سے بڑے حریفوں کو آسانی سے شکست دینے کی صلاحیت رکھتے تھےقائد اعظمؒ کا سماجی فلسفہ اخوت ، مساوات، بھائی چارے اور عدلِ عمرانی کے انسان دوست اصولوں پر یقینِ محکم سے عبارت تھا‘ وہ اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان کی تعمیر عدل عمرانی کی ٹھوس بنیادوں پر ہونی چاہیےعصرِ حاضر میں شاید ہی کسی اور رہنما کو اتنے شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہو جن الفاظ میں قائد اعظم کو پیش کیا گیا ہے‘ مخالف نظریات کے حامل لوگوں نے بھی ان کی تعریف کی‘ آغا خان کا کہنا ہے کہ ’’ میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں وہ ان سب سے عظیم تھے‘‘

قائداعظمؒ کے آخری 10برس:مجسم یقینِ محکم کی جدوجہد کا نقطہ عروج

1938 ء کا سال جہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی سیاسی جدوجہد کے لحاظ سے اہمیت کا سال تھا، وہاں یہ سال اس لحاظ سے بھی منفرد حیثیت کا حامل تھا کہ اس سال انہیں قومی خدمات اور مسلمانوں کو پہچان کی نئی منزل سے روشناس کرانے کے صلے میں قائد اعظمؒ کا خطاب بھی دیا گیا۔