ازدواجی زندگی میں رسول کریمﷺ کا مل نمونہ

تحریر : مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی


رب العالمین نے بنی نوع انسان کی رہنمائی کیلئے آپﷺ کو نبوت سے سرفراز فرما کر مبعوث فرمایا۔ آپﷺ کی سیرت طیبہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کیلئے مشعل راہ ہے۔ نبی کریمﷺ دنیا کے کامل ترین انسان، اعلیٰ حکمران، بہترین سپہ سالار، قاضی، تاجر اور ساتھ ہی ساتھ کامل شوہر بھی تھے۔ بحیثیت شوہر آپﷺ کی زندگی پہ نظر دوڑائیں تو عمدہ آبگینوں سے مزین ہے جو کہ موجودہ زمانے میں تمام خاوندوںکیلئے قابل نمونہ اور لاثانی طرزِ عمل ہے۔

نبی کریمﷺ کی گھریلو

 زندگی کی ایک جھلک

سرور کونینﷺ کی خارجی زندگی جس طرح شاندار ہے، اِس سے کہیں زیادہ آپ کی گھریلو اور معاشرتی زندگی انتہائی پاکیزہ اور قابلِ تقلید ہے۔ موجودہ دور میں دیکھا گیا ہے لوگ گھر کے باہر بڑی عزت کے حامل ہوتے ہیں جبکہ اپنے اہل خانہ سے رویہ درست نہیں ہوتا۔ سخت مزاجی سے اہل خانہ پریشان رہتے ہیں اور ایسے افراد سے گھریلو ماحول تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ امام الانبیاء ﷺ کی گھریلو زندگی ایسی پاکیزہ کہ دعویٰ نبوت کے بعد سب سے پہلے تصدیق کرنے والی شخصیت اگر کوئی تھی تو وہ آپﷺ کی رفیقہ حیات حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا تھیں۔ ازدواجی زندگی میں آپﷺ کا کردار نہایت پاکیزہ اور عمدہ تھا خود نبی کریم ﷺ کا ارشاد عالی ہے: ’’تم میں سب سے اچھا شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کی نظر میں اچھا ہو اور میں اپنے گھر والوں کی نظر میں سب سے اچھا ہوں‘‘ (مجمع الزوائد:4/303)

نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات 

کے ساتھ خاطر داری 

ایک عورت دوسرے خاندان، دوسرے محلہ اور دوسرے افراد کی تربیت میں پلی بڑھی ہوتی اور پھر نکاح کر کے ایک ایسے اجنبی ماحول میں آ جاتی ہے، جہاں ہر چیز نامانوس اور ہر چہرہ نیا ہوتا ہے۔ از سرنو زندگی کا آغاز ہوتا ہے، ساتھ ہی ساتھ اعزاء و اقرباء کی یاد بھی تروتازہ رہتی ہے۔ ایسے وقت میں دلداری اور خاطر داری کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے شادی کے بعد اپنے گھر کے ماحول سے مانوس کرنے کیلئے ان کی دلجوئی کے ساتھ ان کی خاطر داری و محبت کی مثال قائم کر کے پوری انسانیت کو ایک بہترین اسوہ عطا کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں: میں آپ کے یہاں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میرے ساتھ میری سہیلیاں بھی ہوتی تھیں، جب رسول اللہ  ﷺ گھر میں داخل ہوتے تو وہ شرماتیں اور پردہ میں داخل ہو جاتیں، آپﷺ انہیں میرے پاس بھیج دیتے تو وہ میرے ساتھ کھیلتیں(صحیح بخاری: 6130)۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہﷺ میرے دروازے پر کھڑے تھے اور حبشہ کے لوگ نیزہ بازی کر رہے تھے، آپﷺ نے اپنی چادر میں مجھے چھپا لیا تا کہ میں آپ ﷺ کے کانوں اور گردن کے درمیان سے ان کا کھیل دیکھ سکوں، آپﷺ میری وجہ سے کھڑے رہے یہاں تک کہ میں خود لوٹ آئی(مسند احمد: 5333) 

قارئین کرام ! جب ہم اپنے ماحول پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو دلجوئی اور خاطرداری تو کجا؟ سسرال میں ماحول سے مناسبت کا لحاظ کئے بغیر طعنے کسے جاتے ہیں، غربت و مفلسی اور والدین کو برا بھلا کہا جاتا ہے، اس سلسلے میں ہمارا معاشرہ اسلامی تعلیمات سے یکسر مختلف ہوچکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ زوجین تعلیمات نبوی کے دائرے میں زندگی گزارنے کی کوشش کریں جس سے معاملات کافی بہتر ہو سکتے ہیں۔

نان و نفقہ کی ادائیگی اور نبی رحمتﷺ کا طرزِ عمل

 ازدواجی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد اپنی شریک حیات کا نان و نفقہ مرد پر شریعت نے لازم کیا ہے۔ دیکھنے میں یہ بھی آیا کہ گھر کا خرچہ بلکہ مرد کا ذاتی خرچہ بھی میکہ سے لیا جاتا ہے، منع کرنے کی صورت میں طلاق کی دھمکی دی جاتی ہے۔ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ اپنی ازواج مطہرات کا نفقہ قبل ازوقت دے دیا کرتے تھے۔ ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں بنو نضیرسے جو مالِ غنیمت آتا، وہ آپﷺ کیلئے خاص تھا اور آپﷺ اس مال سے اپنی ازواج پر مکمل سال خرچ کیا کرتے تھے (صحیح مسلم: 1757) ۔

نبی کریمﷺ کا ازواج

 مطہرات کے مابین عدل

مسلم معاشرہ کا اگر جائزہ لیا جائے تو روز افزوں انحطاط کا شکار ہے جس میں بہت سے ایسے افراد ہیں، جو حق زوجیت میں ناکام اور عدل و انصاف کے معیار سے کوسوں دور ہیں۔ معاشرہ میںماں باپ اور بیوی کے درمیان عدل کا فقدان بہت تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک طرف اولاد والدین کو وہ رتبہ عطا کرتی ہے کہ بیوی اور شریک حیات کی حیثیت ایک لونڈی سے زیادہ نہیں سمجھتے، تو وہیں دوسری طرف اولاد ہی زن مریدی کی ایک ایسی مثال بھی قائم کرتی ہے کہ بیوی کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے اور والدین کو گھر سے بے گھر کر دیا جاتا ہے۔ جو مرد ایک سے زائد بیویاں رکھتے ہیں تو وہ بھی ان کے درمیان عدل کا معاملہ نہیں کرتے، رہائش آور آسائش میں، کپڑے اور کھانے میں، باری اور حقوق کی ادائیگی میں عدم توازن اور عدل کی کمی موجودہ زمانے کا خطرناک المیہ بن چکا ہے جو مغربی تہذیب سے مرعوبیت کا ایک بڑا خمیازہ ہے۔

 کاش! ایسے لوگ آپ ﷺ کے عمل سے سبق لیتے اور آپﷺ کے فرامین پر توجہ دیتے، عدل کے معیار کو قائم کرتے۔ خود آپﷺ کی 11 بیویاں تھیں لیکن کسی کو یہ شکایت کبھی نہیں ہوئی کہ آپﷺ ہمارے درمیان عدل نہیں کرتے۔ اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس ٹھہرنے کی تقسیم میں کسی کو کسی پر ترجیح نہیں دیتے تھے (ابو دائود: 2137)۔ آپﷺ کا یہ عدل ان چیزوں (باری، کھانا، کپڑا، رہائش، حقوق کی ادائیگی وغیرہ) میں تھا۔ جس کی آپﷺ قدرت رکھتے تھے، غیر مقدور چیزوں کے سلسلہ میں آپﷺ خود دعا فرماتے تھے: ’’اے اللہ اس چیز میں یہ میری تقسیم ہے، جس پر میں قدرت رکھتا ہوں، اس چیز پر میری ملامت نہ کیجئے جس پر آپ قدرت رکھتے ہیں، میں نہیں‘‘ (السنن الکبری للبیھقی:15142)

بیویوں کے درمیان عدل نہ کرنے کی صورت میں نبی کریم ﷺکی سخت وعید وارد ہوئی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کی طرف جھک جائے تو وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کا ایک پہلوگرا ہوا ہوگا‘‘(سنن الدارمی: 2206)

 نبی رحمتﷺ اور عورت 

کی رائے کا احترام

فخرکائنات حضرت محمد مصطفیﷺ نے عورت کی رائے کو بہت اہمیت دی ہے اور وقتاً فوقتاً موقع کی نزاکت سے عورت کی رائے کا احترام نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے اور اہم امور پر اپنی ازواج مطہرات سے تبادلہ خیال اور مشورہ کا ذکر احادیث مبارکہ میں پایا جاتا ہے۔

صلح حدیبیہ کے موقع پر آپﷺ کے ارشاد کے باوجود بھی صحابہ کرامؓ نے حلق نہیں کرایا تو حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپﷺ سے ارشاد فرمایا کہ آپ ﷺ خود حلق فرمالیں اور ہدی کے جانور بھی اللہ کی راہ میں قربان کر دیں، تاجدارِ مدینہ ﷺ نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی رائے کو اہمیت دی اس پر عمل کیا۔ جب صحابہ کرامؓ نے آپﷺ کو حلق کراتے اور ہدی کے جانور اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہوئے دیکھا تو صحابہ نے بھی بلاچوں و چراں حلق کرا لیا اور اپنے ہدی کے جانور ذبح کئے(صحیح بخاری: 2732)۔

اگر غور کیا جائے تو ہماری روش طرزِ نبوت سے مختلف اور ہمارے افعال نبی کریم ﷺ کے افعال سے جداگانہ ہیں۔ آپﷺ کا طرزِ عمل ہمیں دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اسلامی عدل و انصاف کو ملحوظ رکھ کر ہمیں فیصلہ کرنا چاہیے، عورت کی بات کو ماننے میں عار محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ یہی نبی رحمت ﷺ کا طرزِ عمل رہا ہے اور اسی میں ہی دنیا و آخرت کی فوز و فلاح ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں گھریلو زندگی میں بھی نبی کریم ﷺ کی سیرت و کردار کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے (آمین ثم آمین)۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

دھوکے کی سزا

کسی گائوں میں ایک دھوبی رہتا تھا،جو شہر سے لوگوں کے کپڑے گدھے پر لاد کے گائوں لاتا اور دھونے کے بعد اسی پر لاد کے واپس شہر پہنچاتا تھا۔دھوبی کی کمائی کا یہی ذریعہ تھا اور وہ اس قدر کما لیتا کہ با آسانی گزر بسر کر سکے۔

زمین کی گردش رُک جائے تو کیا ہو؟

پیارے بچو!زمین اپنے محور کے گرد ایک ہزار میل فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار سے گھو م رہی ہے،تاہم اس وقت کیا ہو گااگر اس کی گرد ش اچانک رُک جائے؟اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا ہوا تو اس کے اثرات انتہائی تباہ کُن ہوں گے۔ماہرین کے مطابق اگر زمین کا گھومنا اچانک تھم جائے تو ہر وہ چیز جو کسی دوسری چیز سے بندھی ہوئی نہیں ہے ۔اچانک مشرق کی جانب ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُ ڑنے لگے گی۔اس کے اثرات فضا پر بھی مرتب ہوں گے اور ہوائیں اتنی طاقتور ہو جائیں گی جیسے کسی ایٹم بم کے دھماکے کے بعد ہو سکتی ہیں۔

جانوروں کی دنیا

بٹیر دیہی علاقوں میں پایا جانے والا ایک خوبصورت پرندہ ہے۔اس کا تعلق پرندوں کے گالی فورمز خاندان سے ہے۔پرندوں کے اس بڑے خاندان میں مرغی،مور اور تیتر بھی شمال ہیں۔

پہیلیاں

ایک کھیتی کا دیکھا یہ حال نہ کوئی پتا نہ کوئی ڈال نہ ہی ڈالا بیج نہ جوتا ہل

اقوال زریں

٭… جوش کی بجائے ہوش سے کام لو۔ ٭… نادان کی صحبت میں مت بیٹھو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی باتیں تمہیں اچھی لگنے لگیں۔ ٭…خوش رہنا چاہتے ہو تو کسی کا دل نہ دکھائو۔

ذرامسکرایئے

باپ بیٹے سے: یہ تم کیسی ماچس لائے ہو ایک تیلی بھی نہیں جل رہی؟ بیٹا: ایسا کیسے ہو سکتا ہے ابو ، میں تو ایک ایک تیلی چیک کر کے لایا ہوں سب جل رہی تھیں۔٭٭٭