ہم جیت گئے

تحریر : سائرہ جبیں


فراز نے گردن اٹھا کر اپنے سامنے کھڑے ہاتھی کی طرف دیکھا اور پھر سر جھکا کر بیٹھ گیا۔ ہاتھی نے محسوس کیا کہ دوست کا موڈ آج اچھا نہیں ہے۔ اس نے اپنا منہ فراز کے جسم پر رگڑا جیسے پوچھ رہا ہو، کیا بات ہے، آپ ایسے کیوں بیٹھے ہو؟ فراز نے کوئی جواب نہ دیا۔

ہاتھی کو فکر ہوئی، بے چینی سے پوچھا’’فراز بھائی کیا بات ہے، میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے‘‘ ۔اب فراز نے سر اٹھاکر کہا میں ٹھیک ہوں۔تو پھر ایسے کیوں بیٹھے ہو؟ ہاتھی نے بے چینی سے کہا ۔

 فراز کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ایک طرف سے شور اٹھا۔ دونوں نے گردن گھما کر دیکھا۔ بہت سے جانور روتے ہوئے ان کی طرف آ رہے تھے۔ سب سے آگے کالو ریچھ تھا اور اس کے ساتھ چیتا۔ فراز نے حیرت بھری نظروں سے ہاتھی کو دیکھا اور بولا’’ معلوم ہوتا ہے جنگل میں کچھ خاص بات ہوئی ہے‘‘۔ تمام جانور ان کے پاس آکھڑے ہوگئے۔

 کالو ریچھ نے جلدی سے کہا ’’فراز بھائی اگر شیر بادشاہ جلد نہ ملا تو کیا ہوگا‘‘؟ فراز نے الجھے ہوئے لہجے میں پوچھا ’’ ساتھیو مجھے تو بتائو ،کیا ہوا ہے؟۔ جنگل  کے اتنے درخت کیسے جل گئے اور شیر بادشاہ کہاں چلے گئے‘‘؟ خرگوش آگے بڑھا اور بولا ’’ہمارے جنگل میں شکاری گھس آئے ہیں۔ انہوں نے درختوں کو جلانا اور پرندوں کو مارنا شروع کر دیا ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے بادشاہ نے ایک دن تمام جانوروں کا اجلاس طلب کیا۔ سب جمع ہو گئے لیکن۔۔۔‘‘

 لیکن کیا‘‘؟ فراز نے بے چینی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’فراز بھائی شیر بادشاہ کو کسی نے اغوا کر لیا ہے اور ہمارا خیال ہے کہ یہ کارنامہ ان انسانوں ہی کا ہے‘‘۔

’’اگر یہ بات ہے تو ہم انسانوں سے مقابلہ کریں گے۔ اتفاق میں برکت ہوتی ہے۔ فراز نے جوش سے کہا تو سب مسکرانے لگے ’’ ہم نے ایسا ہی کیا تھا لیکن ہمیں کامیابی نہ ملی۔ اس حملے میں ہمارے بہت سے ساتھی ہلاک ہو گئے۔

’’یہ تو بہت برا ہوا ہے، اب ہمیں کیا کرنا چاہئے‘‘؟ فراز نے سوال کیا۔ ’’میں نے ایک منصوبہ بنایا ہے۔مجھے یقین ہے کہ ہم دشمن کو بھگا دیں گے‘‘ ہاتھی نے کہا، پھر وہ فراز کو اپنے منصوبے سے آگاہ کرنے لگا۔

ہم نے یہاں بیشمار جانوروں کا شکار کیا ہے، اب واپس چلنا چاہئے، کہیں ایسا نہ ہو جانور ایک بار پھر حملہ کردیں‘‘ حنیف نے ہمدردی سے کہا تو عامر بولا’’ حنیف تم بہت بزدل ہو۔ مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ تم شکاری کیسے بن گئے کیونکہ جتنی محبت تمہیں جانوروں اور پرندوں سے ہے اتنی تو انسانوں سے بھی نہیں‘‘۔ حنیف نے برا سا منہ بنایا۔ چھوٹے چھوٹے ٹیلوں پر دس افراد خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ سب حنیف کی بات سن کر ہنسنے لگے۔

’’ہم شکاری ہیں اور اس جنگل کے تمام جانور پکڑ کر اپنے ملک لے جائیں گے‘‘۔ دوسرے نے ہنستے ہوئے کہا ’’ہم نے بہت سے درخت جلا دیئے ، کیا یہ کام درست ہے؟‘‘ حنیف نے غصے سے کہا۔ عامر زور سے ہنس دیا۔ شاید یہ حرکت مناسب نہیں تھی۔ 

شام کا وقت تھا، ہلکا ہلکا اندھیرا پھیل رہا تھا۔ گھنی جھاڑیوں اور لمبے لمبے درخت اپنی گھنی شاخیں زمین پر ڈالے خاموش کھڑے تھے۔ ایسے میں حلیم نے اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا دوستو!  ممکن ہے، جانور اپنے ساتھیوں کا بدلہ لینے دوبارہ آئیں۔ اگر انہوں نے ایسا کیا تو زندہ واپس نہیں جائیں گے۔ اب کی بار سہیل بولا۔ 

ابھی وہ باتوں میں مگن تھے کہ دائیں طرف جھاڑیوں سے بہت سے خرگوش نکل کر ان کے سامنے آ گئے اور پھر انہوں نے اچھلنا، کودنا شروع کر دیا۔ حلیم، سہیل اور ان کے ساتھی حیرت سے انہیں دیکھنے لگے۔ سہیل بولا! ارے یہ تو جھوم رہے ہیں۔ کچھ بھی ہو ان کا جھومنا بہت اچھا لگ رہا ہے۔ اس سفید خرگوش کو دیکھو، کیا عمدہ جھوم رہا ہے۔ تمام خرگوش خوش تھے اور یوں جھوم رہے تھے جیسے کسی شادی پر خاص طور پر بلوائے گئے ہوں۔ سہیل اور اس کے سب ساتھی بڑی دلچسپی سے خرگوشوں کو دیکھ رہے تھے ۔ 

اچانک سہیل نے بائیں طرف دیکھا تو چیخ اٹھا ’’بھاگو یہ خرگوش ڈرامہ کر رہے ہیں، جانوروں کی بہت بڑی تعداد ہم پر حملہ کرنے آ رہی ہے‘‘۔ سب نے گھبرا کر دیکھا۔ بہت سے جانور ان کی طرف بڑھ رہے تھے۔ یہ دیکھ کر شکاری پانی میں کھڑی اپنی کشتیوں کی طرف بھاگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب لوگ کشتیوں میں بیٹھ کر کھلے سمندر میں موجود اپنے چھوٹے سے بحری جہاز میں جا سوار ہوئے۔ بھاگتے ہوئے وہ اپنے ہتھیار جنگل میں ہی چھوڑ آئے تھے۔ انہوں نے دیکھا سارے جانور ساحل پر کھڑے چیخ رہے تھے۔ وہ سب بے حد غصے میں تھے۔ سب سے آگے خرگوشوں میں وہ جماعت تھی جو ان کے سامنے آ کر اچھل کود کرنے لگی تھی۔ اس اچانک حملے نے تمام شکاریوں کے اوسان خطا کر دیئے تھے۔ 

فراز اپنے جنگل کے ساتھیوں کے ساتھ اپنا جنگل بچانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ ہاتھی کا منصوبہ کام آیا تھا، اتفاق اور اتحاد سے جانور دشمن کو بھگانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ وہ سب فراز کی عقلمندی کی تعریف کر رہے تھے کیونکہ یہ شاندار ترکیب اسی کی تھی۔ ’’ہم جیت گئے!‘‘ فراز نے خوشی سے نعرہ لگایا اور سب جنگل لوٹ گئے۔

 

 

 

 

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

دھوکے کی سزا

کسی گائوں میں ایک دھوبی رہتا تھا،جو شہر سے لوگوں کے کپڑے گدھے پر لاد کے گائوں لاتا اور دھونے کے بعد اسی پر لاد کے واپس شہر پہنچاتا تھا۔دھوبی کی کمائی کا یہی ذریعہ تھا اور وہ اس قدر کما لیتا کہ با آسانی گزر بسر کر سکے۔

زمین کی گردش رُک جائے تو کیا ہو؟

پیارے بچو!زمین اپنے محور کے گرد ایک ہزار میل فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار سے گھو م رہی ہے،تاہم اس وقت کیا ہو گااگر اس کی گرد ش اچانک رُک جائے؟اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا ہوا تو اس کے اثرات انتہائی تباہ کُن ہوں گے۔ماہرین کے مطابق اگر زمین کا گھومنا اچانک تھم جائے تو ہر وہ چیز جو کسی دوسری چیز سے بندھی ہوئی نہیں ہے ۔اچانک مشرق کی جانب ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُ ڑنے لگے گی۔اس کے اثرات فضا پر بھی مرتب ہوں گے اور ہوائیں اتنی طاقتور ہو جائیں گی جیسے کسی ایٹم بم کے دھماکے کے بعد ہو سکتی ہیں۔

جانوروں کی دنیا

بٹیر دیہی علاقوں میں پایا جانے والا ایک خوبصورت پرندہ ہے۔اس کا تعلق پرندوں کے گالی فورمز خاندان سے ہے۔پرندوں کے اس بڑے خاندان میں مرغی،مور اور تیتر بھی شمال ہیں۔

پہیلیاں

ایک کھیتی کا دیکھا یہ حال نہ کوئی پتا نہ کوئی ڈال نہ ہی ڈالا بیج نہ جوتا ہل

اقوال زریں

٭… جوش کی بجائے ہوش سے کام لو۔ ٭… نادان کی صحبت میں مت بیٹھو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی باتیں تمہیں اچھی لگنے لگیں۔ ٭…خوش رہنا چاہتے ہو تو کسی کا دل نہ دکھائو۔

ذرامسکرایئے

باپ بیٹے سے: یہ تم کیسی ماچس لائے ہو ایک تیلی بھی نہیں جل رہی؟ بیٹا: ایسا کیسے ہو سکتا ہے ابو ، میں تو ایک ایک تیلی چیک کر کے لایا ہوں سب جل رہی تھیں۔٭٭٭