پطرس جیسا مزاح نگار کون؟

تحریر : ڈاکٹرمحمداحسن فاروقی


تعارف: پطرس بخاری اردو کے نامور مزاح نگار ہیں یوں کہا جائے کہ کوئی ان کا ثانی نہیں تو غلط نہ ہوگا۔آ ج پطرس کی65ویں برسی ہے۔ یکم اکتوبر 1898ء کو پشاور میں پیدا ہونے والے پطرس بخاری کا اصل نام سید احمد شاہ بخاری تھا۔وہ صرف مزاح نگار نہ تھے۔

انہوں نے دوسرے موضوعات پر بھی کتابیں لکھیں۔ وہ ایک صداکار اور سفارتکار بھی تھے۔ یہ ان کا اعزاز تھا کہ وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے مستقل مندوب کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ ان کے مزاحیہ مضامین کی کتاب ’’پطرس کے مضامین‘‘ نے زبردست مقبولیت حاصل کی۔ان کی دیگر کتب میں ’’کلیات پطرس، پطرس کے خطوط‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔’’پطرس کے مضامین‘‘ میں ان کے 11مزاح پارے ہیں جو اعلیٰ درجے کے ہیں اور اس میں ان کا مشاہدہ اور نکتہ آفرینی عروج پر ہے۔ ان کے مضامین ’’مرزا کی بائیسکل‘‘،’’کتے‘‘،’’ سویرے جو کل میری آنکھ کھلی‘‘ اُردو کے مزاحیہ ادب میں شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی کام کیا۔وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل بھی رہے ۔وفات کے طویل عرصے بعد سابق صدر جنرل(ر)پرویز مشرف کے دور حکومت میں انہیں ’’ہلال امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔ ان کا5 دسمبر 1958 کو امریکہ میں انتقال ہوا۔آ ج برسی کے موقع پرمحمد احسن فاروقی مرحوم کے ایک مضمون کا کچھ حصہ نذر قارئین ہے جو پطرس کی کتاب ’’تخلیقات پطرس‘‘ میں شامل تھا۔ 

 

 

لکھنؤ یونیورسٹی میں داخل ہوئے ایک مہینہ گزرا تھا کہ ایک دن لائبریری میں مشفق وصی رضا نے میرے ہاتھ میں ڈکنس کی ایک ناول دیکھ کر کہا ’’ اگر سچ مچ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ جانا چاہتے ہو تو مضامین پطرس پڑھو‘‘ میں سن کر چپ ہو رہا۔ میں یونیورسٹی میں انگریزی ادب کی علویت کا اور اردو ادب کی اتنی ہی پستی کا احساس لے کر داخل ہوا تھا، ساتھ ہی ساتھ میں اگر صاحب ذوق تھا نہیں تو اس قدر بنتا ضرور تھا کہ اعلیٰ ترین تصانیف کے علاوہ ہر معمولی تصنیف سے نفرت کا اظہار کرنا فرض سمجھتا تھا۔ پھر اس وقت میری ایک اور بھی بڑی خاص رائے تھی۔ جو میرے جاننے والوں میں کچھ مقبول سی ہو چکی تھی۔ وہ یہ کہ جسمانی امراض بھی ادبی تاثرات سے دور کئے جا سکتے ہیں اور چونکہ پیٹ کی خرابی اس وقت ایک عام مرض تھا، جس میں میں بھی مبتلا تھا۔ اس لئے اپنے نظریہ کی مثال میں یہ کہا کرتا تھا کہ پیٹ خراب ہو تو ڈکنس کی ناولیں پڑھو، پیٹ ٹھیک ہو جائے گا، چنانچہ میرے ہاتھ میں ڈکنس کی ناول دیکھ کر وصی رضا نے یہی تصور کیا تھا کہ جیسے میں دوا کی شیشی لئے جا رہا ہوں اور جیسے لوگ انگریزی دوا کی شیشی ہاتھ میں دیکھ کر ڈاکٹر کا نام پوچھ کر اکثر کہتے ہیں ’’بھئی کیا ڈاکٹری دوا لئے پھرتے ہو حکیم کا علاج کرائو، جلد فائدہ ہو گا‘‘۔ اسی طرح وصی رضا نے بھی ڈکنس کی بجائے پطرس کے علاج کا مشورہ دیا، مگر جیسے جدید لوگ حکیم کے علاج کا نام آتے ہی صاف ٹال دیتے ہیں اور مشورہ دینے والے کو نیچی نگاہ سے دیکھتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ ویسے ہی میں نے وصی رضا کو دیکھا اور اپنا رستہ لیا۔

پطرس نام عجیب تھا۔ کوئی لونڈا لاڑی ہوگا جس نے یہ تخلص رکھ لیا اور پھکڑ بازی کرتا ہوگا۔ وصی رضا اردو کے لکھنے والوں کو اچھالا کرتے تھے۔ بات یہ تھی کہ وہ اردو بہت زیادہ جانتے تھے مگر انگریزی میں تھے کورے ،اس لئے پطرس کو ڈکنس کی بجائے پیش کرکے ہم کو دھوکے میں ڈالنا چاہتے تھے۔

 کچھ ہی عرصہ کے بعد معلوم ہوا کہ پطرس کوئی لونڈا لاڑی نہیں، جس استاد نے ہمیں انگریزی ہیومر کو سمجھنا سکھایا تھا وہ اور پطرس کیمبرج میں ساتھی تھے۔ پطرس اصل میں پروفیسر بخاری تھے جو ہندوستان کے سب سے بہتر تعلیمی ادارے یعنی گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی ادب پڑھاتے تھے۔ فوراً ہمیں یقین آ گیا کہ وہ ضرور جانتے ہوں گے کہ ہیومر کیا چیز ہے مگر ان کا ہیومرسٹ ہونا ابھی تک شبہ میں تھا۔مگر جادو وہ ہے جو سر چڑھ کر بولے، جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ہم مانیں چاہے نہ مانیں وہ سر پر چڑھ ہی بیٹھے گا اور پھر ہم کو اسے ماننا ہی پڑے گا۔ ایک جادو اقبال تھا۔’’شکوہ‘‘ و ’’جواب شکوہ‘‘ پڑھتے ہی ہمارے سر پر ایسا سوار ہوا کہ قیامت کے دن بھی سوار ہی نظر آئے گا۔ دوسرا جادو پطرس، اس کے سر پر سوار ہونے کا قصہ سنئے۔

کوئی نصاب کی کتاب تھی، اس میں ’’کتے‘‘ نظر آیا، کتے ہمارے لئے بھی عجیب ہی جانور تھے ہمیں ان سے اس قدر ڈر لگا کرتا تھا کہ جس گلی میں داخل ہوتے تو پہلے دیکھ لیتے کہ دور دور تک کوئی کتا تو نظر نہیں آ رہا ہے اور اگر نظر آتا تو اس گلی میں کبھی قدم آگے نہ بڑھاتے۔ ہمارے دوست اس بات پر ہمارا مذاق اڑایا کرتے۔ ہمارے بزرگ ڈانٹا کرتے، کتے سے ڈر ہمارے اندر فطری تھا۔ پھر ہم نے اسٹیونس کی کتاب ’’ٹرلولینروتھ اے ونکی‘‘ پڑھی اس نے ایک جگہ کتوں سے خوف کا پرلطف ذکر کیا ہے۔ ہمیں بڑی تقویت ہوئی کہ ایک تو ساتھی ملا۔اس پس منظر کو ساتھ لئے ہوئے جب میری نظر ’’کتے‘‘ اور اس کے نیچے پطرس پر پڑی تو کیا بتائیں کیا ہوا۔ فوراً کتاب لے کر بیٹھ گیا اور پڑھنے لگا۔

پہلے ہی جملے نے جادو مارا’’ علم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا، سلوتریوں سے دریافت کیا، خود سرکھپاتے رہے لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کا فائدہ کیا ہے‘‘۔ اچھل کر دل بول اٹھا ’’قسم استاد کی ہیومر یہ ہے‘‘۔ کہیں کوئی غلط نہ سمجھ لے ہیومر جملوں اور فقروں کی چیز نہیں ہے یہ ایک نقطہ نظر، مزاج کے حقائق سے تصادم زندگی میں ایک مخصوص کیفیت کے احساس کا نام ہے۔ اس جملے میں ہیومر نہیں، اس سے ہیومر شروع ہو رہا ہے، یہ جملہ ایک نئی نظر ایک نئی ہستی ایک نئی ادا ایک نئے عالم خیال ایک نئی بے ڈھنگی دنیا کی طرف اشارہ کہہ رہا ہے۔ یہ کتوں کے ایک نئے عجائب خانے کا رستہ بتا رہا ہے۔

دیکھئے یہ نئے ’’کتے‘‘ آگے کیا کرتے ہیں؟۔ وفادار جانور؟’’ واہ کیا وفاداری ہے، شام کے سات بجے سے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتار بغیر دم لئے صبح کے چھ بجے تک بھونکتے چلے گئے‘‘۔ لیجئے یہ کتوں کا مشاعرہ گرم ہے ’’کم بخت بعض تو دو غزلے اور سہ غزلے لکھ کر لائے ہیں‘‘ ہنگامہ گرم ہے۔ پطرس آرڈر آرڈر پکار رہا ہے۔ کچھ اثر نہیں مجبور ہو کر کہتا ہے۔’’اب ان سے کوئی پوچھے کہ میاں تمہیں ایسا ہی ضروری مشاعرہ کرنا تھا تو دریا کے کنارے کھلی ہوا میں جا کر طبع آزمائی کرتے، یہ گھروں کے درمیان آکر سوتوں کو ستانا کونسی شرافت ہے‘‘۔

دیکھئے اور ’’کتے‘‘ قومیت کے دلدادہ کتے۔ پتلون کوٹ کو دیکھ کر بھونکنے لگ جاتے ہیں۔ کیسے قوم پرست ہیں!

انگریزوں کے کتے۔ ان کی شائستگی دیکھئے، ایک نازک اور پاکیزہ آواز میں بخ بخ کر رہے ہیں۔ چوکیداری کی چوکیداری موسیقی کی موسیقی اور ہمارے کتے ’’بے تالے کہیں کے ،موقع دیکھتے ہیں نہ وقت پہچانتے ہیں، گلے بازی کئے جاتے ہیں‘‘۔

ظاہر ہے کہ پطرس سے ان کے تعلقات کشیدہ ہی رہے ہیں مگر مسٹر پطرس بااخلاق انسان ہیں۔ طبعی شرافت ان پر غالب آ ہی جاتی ہے۔ ہم انہیں بزدل ہرگز نہ سمجھیں گے۔ ہاں ان کے حال سے بے حال ہو جانے پر ہماری نظر ہے۔ آیت الکرسی کی جگہ دعائے قنوت پڑھنے لگے ہیں۔ رات کے وقت تھیڑ سے واپس آ رہے ہیں۔ ’’اتنے میں ایک موڑ پر سے جونہی مڑے تو سامنے ایک بکری بندھی تھی۔ ذرا تصور ملاحظہ ہو، آنکھوں نے اسے بھی کتا دیکھا۔ ایک تو کتا اور پھر بکری کی جسامت کا۔ گویا بہت ہی کتا‘‘ بہت ہی کتا۔ بہت ہی کتا۔با۔با۔با۔با’’ بس ہاتھ پائوں پھول گئے۔ چھڑی کی گردش دھیمی ہوتے ہوتے ایک نہایت ہی نامعقول زاویے پر ہوا میں کہیں ٹھہر گئی۔ سیٹی کی موسیقی بھی تھر تھرا کر خاموش ہو گئی۔ لیکن کیا مجال جو ہماری تھوتھنی کی مخروطی شکل میں ذرا بھی فرق آیا ہو۔ گویا ایک بے آواز لے ابھی تک نکل رہی ہے۔ طب کا مسئلہ ہے کہ ایسے موقعوں پر اگر سردی کے موسم میں بھی پسینہ آ جائے تو کوئی مضائقہ نہیں بعد میں پھر سوکھ جاتا ہے۔ بابابابا با۔ اف۔ اف۔ ہم نے بھی کچھ ایسا ہی محسوس کیا ہے مگر اب اس پر ہنستے ہنستے لوٹے جا رہے ہیں۔ پطرس سچ مچ ہیومرسٹ ہے، پیدائشی ہیومرسٹ ہے۔

 وہ طبعاً محتاط ہے ورنہ کسی کتے نے اسے کاٹ لیا ہوتا اور آج اس کا مرثیہ چھپ رہا ہوتا مگر…‘‘ جب تک کتے موجود ہیں اور بھونکنے پر مصر ہیں، سمجھ لیجئے کہ ہم قبر میں پائوں لٹکائے بیٹھے ہیں‘‘۔ بھونکنا عجیب چیز ہے اس کے اصول نرالے ہیں، متعددی مرض ہے، ہرسن کے کتے کو لاحق‘‘۔ دو دو تین تین تولے کے کتے بھی بھونکنے سے باز نہیں آتے‘‘،’’ اور پھر بھونکتے ہیں چلتی موٹر کے سامنے آکر گویا اسے روک ہی تو لیں گے‘‘۔ 

 لیجئے بھونکنے کا ایک اور منظر۔ پہلا منظر مشاعرہ ہو چکا اب ایک پورا خفیہ مجلسہ باہر سڑک پر آکر تبلیغ کا کام شروع کر رہا ہے۔ پطرس سڑک پر ہے آپ کہئے ہوش ٹھکانے رہ سکتے ہیں؟‘‘ بہرصورت کتوں کی یہ پرلے درجے کی ناانصافی میرے نزدیک ہمیشہ قابل نفرین رہی ہے‘‘۔ پطرس کو غصہ آ گیا۔ پوری مجلس کا یوں متفقہ و متحدہ طور پر غیر ضروری کرنا ایک کمینہ حرکت ہے‘‘۔ یہ الفاظ اس کے منہ سے نکل ہی گئے۔ آخر حد ہوتی ہے مگر کسی کتے کی دل شکنی اسے منظور نہیں۔’’ یہ مضمون کسی عزیز و محترم کتے کی موجودگی میں بآواز بلند نہ پڑھا جائے‘‘۔

اب سنئے کہ اس مضمون کو پڑھ کر ہمارا کیا حال ہوا۔ ہمارے اندر سب سے بڑی بیماری یہ ہے کہ ہم پر کتابوں کا جنون سوار ہوا کرتا ہے اس کی شدت کا اندازہ یوں کیجئے کہ اگر کسی رات کو کسی کتاب کا جنون ہم پر سوار ہو تو ہم بازار جا کر کتابوں کی دوکان کے تالے توڑ کر کتاب نکال کر گھر لے آئیں گے اور بغیر اس کو ختم کئے دم نہ لیں گے۔ تو بس صاحب مضامین پطرس کا جنون ہم پر سوار ہوا فوراً بازار پہنچے اور ایسی جلدی کتاب لے کر واپس آئے کہ معلوم ہوتا تھا کہ کتاب چرا کر بھاگے ہیں۔

اب پطرس میری نگاہ میں پکا ہیومرسٹ، بلکہ واحد ہیومرسٹ(مزاح نگار) اور پھر ایک ہی جلو سے میں ہم سودائی ہو چکے تھے۔ کتابوں کا سودا بہت اچھی چیز ہے اوپر سودا ہوا اور ادھروصل میسر ہو گیا اتنی آسانی کسی اور عشق میں نہیں ہوتی۔ غرض ہم اور پطرس من تو شدم تو من شد ہی ہو گئے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

دھوکے کی سزا

کسی گائوں میں ایک دھوبی رہتا تھا،جو شہر سے لوگوں کے کپڑے گدھے پر لاد کے گائوں لاتا اور دھونے کے بعد اسی پر لاد کے واپس شہر پہنچاتا تھا۔دھوبی کی کمائی کا یہی ذریعہ تھا اور وہ اس قدر کما لیتا کہ با آسانی گزر بسر کر سکے۔

زمین کی گردش رُک جائے تو کیا ہو؟

پیارے بچو!زمین اپنے محور کے گرد ایک ہزار میل فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار سے گھو م رہی ہے،تاہم اس وقت کیا ہو گااگر اس کی گرد ش اچانک رُک جائے؟اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا ہوا تو اس کے اثرات انتہائی تباہ کُن ہوں گے۔ماہرین کے مطابق اگر زمین کا گھومنا اچانک تھم جائے تو ہر وہ چیز جو کسی دوسری چیز سے بندھی ہوئی نہیں ہے ۔اچانک مشرق کی جانب ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُ ڑنے لگے گی۔اس کے اثرات فضا پر بھی مرتب ہوں گے اور ہوائیں اتنی طاقتور ہو جائیں گی جیسے کسی ایٹم بم کے دھماکے کے بعد ہو سکتی ہیں۔

جانوروں کی دنیا

بٹیر دیہی علاقوں میں پایا جانے والا ایک خوبصورت پرندہ ہے۔اس کا تعلق پرندوں کے گالی فورمز خاندان سے ہے۔پرندوں کے اس بڑے خاندان میں مرغی،مور اور تیتر بھی شمال ہیں۔

پہیلیاں

ایک کھیتی کا دیکھا یہ حال نہ کوئی پتا نہ کوئی ڈال نہ ہی ڈالا بیج نہ جوتا ہل

اقوال زریں

٭… جوش کی بجائے ہوش سے کام لو۔ ٭… نادان کی صحبت میں مت بیٹھو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی باتیں تمہیں اچھی لگنے لگیں۔ ٭…خوش رہنا چاہتے ہو تو کسی کا دل نہ دکھائو۔

ذرامسکرایئے

باپ بیٹے سے: یہ تم کیسی ماچس لائے ہو ایک تیلی بھی نہیں جل رہی؟ بیٹا: ایسا کیسے ہو سکتا ہے ابو ، میں تو ایک ایک تیلی چیک کر کے لایا ہوں سب جل رہی تھیں۔٭٭٭