الیکٹیبلز کی ترجیح مسلم لیگ(ن)کیوں؟

تحریر : سلمان غنی


ایم کیو ایم کے بعد جمعیت علماء اسلام کے ساتھ بھی مسلم لیگ( ن) نے انتخابی مفاہمت کا اعلان کیا ہے۔ ویسے تو مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ ( ن) کے درمیان مفاہمانہ عمل ایک عرصے سے جاری ہے اور اسی بنا پر مسلم لیگ (ن) نے ا نہیں پی ڈی ایم کا سربراہ بھی تسلیم کیا تھا کیونکہ پی ٹی آئی کے خلاف اگر کسی جماعت نے یکسوئی کا مظاہرہ کیاوہ مولانا فضل الرحمن ہی تھے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں پیدا شدہ تنائو اور ٹکرائو کی کیفیت میں بڑا کردار جمعیت علماء اسلام اور تحریک انصاف کے درمیان طویل عرصہ سے جاری مخاصمانہ صورتحال ہے ،غالباً اسی بنا پر جمعیت علماء اسلام مسلم لیگ ( ن) کے قریب ہوئی اور قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے بعد مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف نے وزیراعظم شہبازشریف کو مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے خصوصی ہدایات دے رکھی تھیں اور انہیں ہر سطح پر اکاموڈیٹ بھی کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن اور ان کے جماعتی ذمہ داران مسلم لیگ (ن) کی لیڈر شپ سے ملاقات کے حوالے سے تویہی خبریں آئیں کہ ملاقات میں ملکی حالات اور خصوصاً انتخابی ایڈجسٹمنٹ پر غور و غوض ہوا لیکن واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے مسلم لیگ ( ن) کی لیڈر شپ کو پختونخوا اور بلوچستان میں دہشتگردی اور اس کے پس پردہ سرگرم عناصر کے حوالے سے بھی اعتماد میں لیااور باور کرایا کہ جب دو صوبوں میں دہشتگردی کا خطرہ ہو تواس صورتحال میں انتخابات کیسے ہو سکتے ہیں، اور اگر ہوتے ہیں تو ان میں عوامی شرکت کس حد تک ہو گی؟ لیکن ملاقات میں یہ طے ہوا کہ انتخابی عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہئے، انتخابی تیاریاں جاری رکھی جائیں گی ، تاہم مولانا فضل الرحمن کی جانب سے دہشتگردی کو بڑا ایشو بنایا جا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی لاہور آمد کے روز بھی  خیبر پختونخوا کے گورنر کی جانب سے امن و امان کی صورتحال کو جواز بناتے ہوئے انتخابات کے حوالے سے سوال اٹھایا گیا تھا۔ گورنر غلام علی مولانا فضل الرحمن کے قریبی عزیز ہیں اور غالباً گورنر کے ان تحفظات میں مولانا فضل الرحمن کے جذبات اور احساسات بھی شامل ہوں گے۔ تاہم یہ سمجھنا ہو گا کہ دہشت گردی کا انتخابی عمل پر اثر ہو سکتا ہے لیکن ملکی حالات، خصوصاً امن و امان کی صورتحال تو خود اس کی متقاضی ہے کہ ملک میں انتخابات کے نتیجہ میں ایک مضبوط حکومت قائم ہو جو اس حوالے سے مؤثر اقدامات کرے۔ مولانا فضل الرحمن دہشتگردی کی بات کرتے نظر آ رہے ہیں اور انتخابات کے انعقاد بارے سوال بھی کھڑے کرتے دکھائی دیتے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید وہ انتخابی عمل کیلئے تیار نہیں، لیکن ان کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ن) انتخابی عمل کے حوالے سے بہت سنجیدہ ہے۔ ماڈل ٹائون میں پارٹی کا ہیڈ کوارٹر انتخابی سرگرمیوں کا مرکزہے اورپارٹی لیڈر شپ انتخابی امیدواروں کے انٹرویوز اور پارٹی ذمہ داران اور دیگر رہنمائوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اورآصف علی زرداری بھی عوامی رابطہ مہم اور انتخابی تیاریوں میں مصروف ہیں اورانتخابی امیدواروں کے چنائو کیلئے لاہور میں ہیں۔ گو کہ انہیں سنٹرل پنجاب میں زیادہ پذیرائی حاصل نہیں لیکن اسے پیپلزپارٹی کی جمہوری عمل سے کمٹمنٹ قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ کسی بھی حالات میں انتخابی عمل پر کمپرومائزکیلئے تیار نہیں ۔  ایسے ہی جذبات کا اظہار پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کی جانب سے کیا رہا ہے ،جو ایک طرف لیول پلینگ فیلڈ نہ ملنے کا گلہ شکوہ کرتی ہے اور دوسری جانب انتخابات میں عوامی حمایت حاصل ہونے کے حوالے سے اس کے لیڈر بڑے دعویٰ کررہے ہیں۔ ایک بات تو وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ بڑی جماعتیں جیت کے دعوئوں کے ساتھ انتخابی عمل کیلئے بھی پرُعزم ہیں۔

 الیکشن کمیشن بھی انتخابی عمل کے حوالے سے آگے بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ انتخابی فہرستوں کی تکمیل اور بروقت حلقہ بندیوں کے نوٹیفکیشن کے بعد اب انتخابی شیڈول کا انتظار ہے، لیکن ایک بڑا سوال بدستور موجود ہے کہ انتخابی عمل کی وہ روایتی گہما گہمی اور انتخابی ماحول کیوں طاری نہیں ہو پا رہا جس میں سیاسی کارکنوں کے ساتھ عوام بھی متحرک نظر آتے ہیں؟ ابھی تک سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور کا اعلان بھی نہیں ہوا اور انتخابی امیدواروں کی ابتدائی فہرستیں بھی سامنے نہیں آ رہیں۔ اس حوالے سے جوابدہ سیاسی جماعتیں ہیں ،کہ آخر کیا وجہ ہے کہ عوام، جو مسائل زدہ اور مہنگائی زدہ ہیں، اپنی تقدیر کے فیصلے سیاسی جماعتوں اور منتخب حکومتوں پر چھوڑنے کیلئے تیار نہیں؟ انتخابی مہم میں بڑا مسئلہ یہی ہوگا کہ سیاسی جماعتیں عوام کو بجلی، پٹرولیم اور گیس کی قیمتوں کے لگنے والے جھٹکوں بارے مطمئن کر پائیں گی؟یہی وہ سوال ہیں جو سیاستدانوں کیلئے بڑا چیلنج ہوں گے اور یہی وہ خوف ہے جو فی الحال انتخابی ماحول میں بڑی رکاوٹ ہے ۔ قومی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تو یہ کہتے ہیں کہ انتخابات کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرنے والے وہ ہیں جنہیں انتخابات میں اپنا سیاسی مستقبل نظر نہیں آ رہا ۔ وہ آٹھ فروری کے انتخابات کے حوالے سے اگر بظاہر انتخابات کی مخالفت نہیں بھی کرتے مگر چاہتے یہی ہیں کہ یہ کسی طرح ٹل جائیں ۔ 

 انتخابات کے حوالے سے اب تک ہونے والے سروے یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ کوئی بھی جماعت سادہ اکثریت حاص نہیں کر پائے گی اور مخلوط حکومت ہی پاکستان کا مقدر بنے گی، لیکن انتخابات میں فیصلہ کن کردار کس کا ہوگا ،یہ انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد ہی ظاہر ہوسکتا ہے کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ماحول بنتا ہے اور انتخابات کے انعقاد سے چند روز قبل ہی صورتحال واضح ہوتی ہے کہ انتخابی ریس میں کون سا گھوڑا آگے ہے۔ فی الحال تو انتخابی میدان پنجاب میں لگتا نظر آ رہا ہے اورمسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ کامیابی کا پروانہ سمجھا جا رہا ہے۔ مضبوط انتخابی امیدوار ماڈل ٹائون کا رُخ کرتے نظر آ رہے ہیں، لیکن بڑی تعداد میں انتخابی ٹکٹ کے امیدواروں کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ ٹکٹ تو ایک حلقے میں کسی ایک کو ملتا ہے لیکن دوسرے امیدوار پھر سرگرم نہیں رہتے اور جماعتی سطح پر مخالفت کا عمل بعض اوقات دوسری جماعتوں کے حق میں چلا جاتاہے۔ (ن) لیگ کا جماعتی ڈسپلن اس حوالے سے کس حد تک کارگر ہوگا یہ دیکھنا ہوگا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

رشتوں کا ادب واحترام،نبیﷺ کی سنت

’’ اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو‘‘(سورۃ النساء) صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے کے طور پر کرے، صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جب کوئی قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑے‘‘ (صحیح بخاری)

برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ

اگر کوئی آپ سے برائی کے ساتھ پیش آئے تو آپ اس کے ساتھ اچھائی کے ساتھ پیش آئیں، ان شاء اللہ اس کے مثبت نتائج دیکھ کر آپ کا کلیجہ ضرور ٹھنڈا ہو گا۔

منافقانہ عادات سے بچیں

حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ چار عادتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ چاروں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے اور وہ اسی حال میں رہے گا، جب تک کہ اس عادت کو چھوڑ نہ دے۔

مسائل اور ان کا حل

بیماری کی صورت میں نمازیں چھوٹ جائیں تو کیا حکم ہے ؟ سوال : بیماری کی صورت میں نمازیں قضاء ہوجائیں تو کیا حکم ہے ؟(محمد مہتاب) جواب :ان کی قضاء شرعاً لازم ہے۔

9مئی سے متعلق اعتراف کتنا مہنگا پڑے گا؟

پاکستان تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔ پی ٹی آئی بھی اپنی مشکلات میں خود اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ۔ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے اور پی ٹی آئی قیادت پر آرٹیکل 6 لگانے کا اعلان کیا گیا تو بانی پی ٹی آئی نے بیان داغ کر حکومتی پلان کیلئے سیاست کی حد تک آسانی پیدا کردی مگر سیاسی جماعت پر پابندی موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے آسان کام نہیں۔

پاکستان کا سیاسی بحران اور مفاہمت کی سیاست

پاکستان کا سیاسی بحران بڑھ رہا ہے ۔ حکومت، مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان ماحول میں کافی تلخی پائی جاتی ہے ۔ پی ٹی آئی پر بطور جماعت پابندی لگانے اور بانی پی ٹی آئی ‘ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پر غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔