قرآن و سیرت کی روشنی میں اتحاد امت کی ضرورت و اہمیت

تحریر : مفتی ڈاکٹرمحمد کریم خان


’’تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو‘‘(آل عمران ؍103) اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا مت کرو، ورنہ دشمنوں کے سامنے تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی‘‘(الانفال:46)

اسلام دین فطرت ہے اور فطری چیز زمانے کے بدلنے سے بدلا نہیں کرتی بلکہ وہ ہمیشہ رہتی  ہے۔ اسلام کے فطری دین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے جتنے عقائد ہیں، جتنی تعلیمات ہیں، جتنے احکام ہیں، وہ سارے کے سارے انسانی فطرت کے مطابق ہیں۔جیسا کہ انسان کی فطرت کا تقاضا ہے کہ اسے بھوک لگتی ہے، پیاس لگتی ہے، وہ فطرتاً دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہتا ہے اور خاندانی نظام سے مربوط رہ کر زندگی گزارنا اس کا فطری تقاضا ہے، بالکل اسی طرح اسلام نے جتنے احکام دیئے وہ اس کے ان فطری اُمور کو مدنظر رکھ کر دیئے اور کوئی حکم ایسا نہیں دیا جو اس کے فطری تقاضوں کو ختم کر دے۔ اسلام فطرتِ انسانی الفت و محبت کا نام ہے۔ اسلام کی دعوت وتعلیم کا مقصد بھی یہی ہے کہ انسان منظم، فعال و متحرک اور متحد ہو کر اس کی اقامت و اشاعت کا فریضہ انجام دے، اس لئے یہ ہمیشہ اتحاد کی طرف بلاتا ہے۔حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم مومنوں کوآپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمت و محبت کا معاملہ کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی اورنرم دلی میں ایک جسم جیسا پاؤ گے، جب اس جسم کا کوئی حصہ بھی تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم تکلیف میں ہوتا ہے اور اس کی ساری رات بیداری اور بخار میں گزرتی ہے‘‘ (صحیح بخاری: 6011)۔

حضرت ابو موسیٰ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’یقیناً مومن آپس میں مضبوط بنیاد کی طرح ہیں، وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کرمضبوط ہوتے ہیں اور نبی کریمﷺ نے اپنی انگلیوں کو انگلیوں میں ڈالا‘‘(صحیح بخاری: 481) ۔

 مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے میں ایک بنیادکی طرح ہیں، یعنی مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جڑ کر رہنا چاہیے جس طرح ایک بنیاد اور دیوارکی اینٹیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں۔اسی طرح ایک مسلمان، دوسرے مسلمان سے مل کر ہی سیسہ پلائی دیوار بنتا ہے۔ نیکی اور خیر کے کاموں میں باہمی اتحاد اور باہمی اشتراک ایک اہم دینی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے۔ اگر ایک مومن دوسرے مومن کو اپنی قوت نہ سمجھے اور اسے ضائع ہونے    کیلئے چھوڑ دے تو اس کامطلب یہ ہے کہ وہ خود اپنی کمزوری کا سامان کر رہا ہے۔حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تمام مسلمان ایک شخص کی مانند ہیں، اگراس کی آنکھ میں تکلیف ہو تو سارے جسم میں تکلیف ہوتی ہے(صحیح مسلم:2586)۔

انسانی اعضاء کی ایک جسم کیلئے اہمیت و ا فادیت آشکار ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی اپنا کام صحیح طریقہ سے نہ کر پائے تو انسانی وجود بمعہ معاشرتی زندگی کس قدر مجبور اور بے بس ہو جاتا ہے۔ اگرچہ انسانی وجودکے ساتھ تعلق رکھنے والے ہر عضو کا اپنا الگ الگ کام ہے پھر بھی ان میں کامل ہم آہنگی اور اتحاد پایا جاتا ہے۔ اگر وجود کا یہ باہمی اتحاد نہ ہوتا تو انسانی زندگی کا تصور محال تھا، مثلاً دانت میں درد ہو تو درد کیلئے پائوں چل کر جاتے ہیں، آنکھیں آنسو بہاتی ہے، زبان اسے بیان کرتی ہے، دل و دماغ اسے محسوس کرتے ہیں، ہاتھ دوا پلانے میں مددگار ہوتے ہیں۔ اگر ان اعضاء میں یہ مقابلہ آرائی شروع ہو جائے کہ کون قیمتی، کون اعلیٰ و افضل، اس کوتکلیف ہے مجھے نہیں، تو واضح  بات ہے کہ پورے جسم میں خرابی اور بے چینی پیدا ہو جائے گا۔

علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں کہ اس حدیث کا منشاء یہ ہے کہ جس طرح انسان بیماری میں اپنا علاج کرتا ہے تو اگر اس کا پڑوسی یا خاندان کا کوئی فرد بیمار ہو اور وہ اپنا علاج نہ کر سکتا ہو، وہ اس کا علاج کرائے،اسی طرح اگر پورے شہرکے لوگ کسی وبائی مرض میں یا قدرتی آفت  اور مصیبت میں مبتلا ہو جائیں تو حتی الامکان ان کی مدد کرے اور آج کل مواصلات اور رسد و حمل کے وسائل کی کثرت کی وجہ سے پوری دنیا سمٹ کر ایک گاؤں کی طرح ہو گئی ہے تو اگر ایک اسلامی ملک کسی آفت کا شکار ہو جائے تو تمام اسلامی ممالک کواس کی مددکیلئے اٹھ کر آگے بڑھنا چاہیے۔ (نعمہ الباری، ج2، ص 298)

باہمی محبت اور

     اتحاد امت

باہمی محبت سے اتحاد اور یکجہتی کی فضا قائم کی جا سکتی ہے۔ حضرت ابو مالک اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے لوگو! سنو، سمجھو اور معلوم کر لو کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں جو نہ نبی ہیں اور نہ شہداء لیکن نبی اور شہید ان کے مراتب اور اللہ کے ہاں تقرب کو دیکھ کر رشک کریں گے۔ ایک بدوی نے کہا: یا رسول اللہﷺ! جو لوگ نہ نبی ہوں اور نہ شہید لیکن انبیاء اور شہداء ان کی مسند اور اللہ کے تقرب کو دیکھ کر رشک کریں گے، ان کی خوبی اور ان کا حلیہ ہمارے سامنے بیان فرما دیجیے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہ لوگ وہ ہیں جو مختلف قبیلوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی آپس میں کوئی رشتہ داری نہیں ہے، لیکن وہ اللہ کیلئے ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے خیرخواہ ہیں، اللہ تعالیٰ ان کیلئے قیامت کے دن نور کے منبر لگائے گا، وہ ان پر بیٹھیں گے اور ان کے چہرے اور کپڑے پُرنور بنا دے گا، (باقی) لوگ گھبرائیں گے (لیکن) یہ نہیں گھبرائیں گے۔ جنہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمزدہ ہوں گے (مسند احمد: 22957)۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: جنت میں یاقوت کے ستون ہیں، ان پر زبرجد کے بالاخانے ہیں، وہ ایسے روشن ہیں جیسے چمکدار ستارے۔ لوگوں نے عرض کی، یا رسول اللہﷺ!ان میں کون رہے گا؟ فرمایا: ’’وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کیلئے آپس میں محبت رکھتے ہیں، ایک جگہ بیٹھتے ہیں، آپس میں ملتے ہیں(شعب الایمان: 9002) 

ایمان ایک قلبی محبت کی طاقت کا نام ہے، اگر انسان کے دل میں ایمان ہے تو وہ لازماً دوسرے کی طرف روحانی لگاؤ رکھتا ہے۔ نبی کریمﷺ کی واضح تعلیمات میں سے یہ ہے کہ بھائی بھائی بن کر رہو۔ ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچاؤ، ایک دوسرے سے بغض و کینہ نہ رکھا کرو، آپس میں بے تعلق اور منہ پھیر کر نہ رہو، سب اللہ تعالیٰ کے بندے ہو بھائی بھائی بن کر رہو اور مسلمان اپنے بھائی پرظلم نہیں کرتا، نہ اسے ذلیل و حقیرسمجھتا ہے، نہ اسے بے سہارا چھوڑتا ہے۔ دیکھو! تقویٰ کی جگہ یہ ہے، آپﷺ نے اپنے سینہ کی طرف اشارہ کر کے تین بار یہ بات فرمائی۔ پھر فرمایا: ’’آدمی کے برا ہونے کیلئے اتنی بات کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے، مسلمان کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ (صحیح ترمذی:  1927)

اخوت اسلامی اور اتحاد امت

ایمانی بھائی چارہ کیلئے سرحدیں رکاوٹ نہیں بنتیں، نبی کریم ﷺ نے تمام مسلمانوں کو ایک متحدہ امت بنایا جو اینٹوں کی دیوار کی مانند ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر مضبوط اور طاقتور بنتے ہیں۔ ایمانی بھاری چارہ کوقائم رکھنے کی اہمیت نمازاورروزہ سے بھی بڑھ کر ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے: حضرت ابودرداءؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جو روزوں اور صدقہ و خیرات اور نماز سے بھی افضل ہے؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں، آپﷺ نے فرمایا: وہ عمل باہمی تعلقات کی اصلاح ہے، تعلقات کا فساد صفایا کر دینے والی چیز ہے (جامع ترمذی : 2509)۔حضرت زبیرؓ کی روایت میں مزید صراحت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: تمہارے اندر گزشتہ قوموں جیسی بیماری داخل ہو گئی ہے، حسد اور باہمی عداوت و دشمنی صفایا کر دینے والی چیز ہے، میں بالوں کے صفایا کر دینے کی بات نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ یہ دین کا صفایا کر دیتی ہے(جامع ترمذی:2509)۔

ہر صاحب علم اور اہل ایمان اس بات سے باخوبی آگاہ ہے کہ نماز اور روزہ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہیں مگر نبی محتشمﷺ نے مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی درستگی کو بنیادی ارکان اسلام سے بھی افضل قرار دیا اور وجہ یہ بیان کی  کہ باہمی بگاڑ و اختلاف، پورے دین کو اکھاڑ دینے والی چیز ہے، آپس کی نفرت و عداوت اور بغض وکینہ دین اور تقاضائے دین پر غالب آکر مسلم امت کی ایک ایک چیز پر قبضہ جما لیتی ہے۔اوران کے باہمی اتحادکوپارہ پارہ کردیتی ہیں۔

مسلمانوں کا باہمی اتحاد اور قرآن مجید

ارشادباری تعالیٰ ہے:  تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی، اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر (پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔(آل عمران:103)

دوسرے مقام پراللہ تعالیٰ فرماتاہے: اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا مت کرو، ورنہ (متفرق اور کمزور ہو کر) بزدل ہو جاؤ گے اور (دشمنوں کے سامنے) تمہاری ہوا (یعنی قوت) اکھڑ جائے گی‘‘(الانفال:46)۔

قرآن پاک اور نبی محتشمﷺ نے امت مسلمہ کی بنیادوں کو جن چیزوں پر استوار کیا تھا ان کی رو سے علاقائیت، قومیت، برادریاں تمام رشتوں کویکجاں کر کے (بیشک یہ تمہاری ملت ہے، ایک ہی ملت ہے اور میں تمہارا رب ہوں پس تم میری عبادت کیا کرو (الانبیاء: 92)کی وحدت میں متحد کر دیا۔

ثمرات

امت کے باہمی اتحاد سے حسب ذیل فوائد و ثمرات حاصل ہوتے ہیں۔

متحدہ قومیں مضبوط ہوتی ہے: جن مختلف  قوموں میں اتحاد ہوتا ہے، وہ قومیں مضبوط ہوتی ہیں ۔ اتحاد کی بنا پروہ تصادم سے بچی رہتی ہیں۔

مشترکہ مسائل کا حل: امت کاباہمی اتحاد  مسائل کا حل کرنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔

تاریخی اور ثقافتی وابستگی: اتحاد امت میں تاریخی اور ثقافتی وابستگیوں کو بھی مضبوط بناتا ہے۔ ایسا اتحاد طویل مدت تک امتوں کے درمیان دوستی اور تعلقات کو بڑھا سکتا ہے۔

اقتصادی ترقی: باہمی اتحاد اقتصادی تعاون کو بڑھاتا ہے۔ مختلف ممالک کے درمیان تجارت اور تعاون سے امت کو اقتصادی بنیادیں ملتی ہیں۔

بین الممالک اتحاد: اتحاد امت، بین الممالک معاملات میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔ ملکوں کا متحد ہونا، بین الممالک منصوبوں اور معاہدات میں مشترکہ شراکت داری اورباہمی تعاون کا ذریعہ بنتا ہے اور مشترکہ مسائل کا سامنا کرنا امت کے باہمی اتحادکو مضبوط بناتا ہے۔

مذکورہ بالاآیات واحادیث اورتصریحات ائمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو آپسی معاملات باہمی اتحاد و یگانگت سے حل کرنے چاہیے اور دشمن کا مقابلہ بھی اُمت کے اتحاد سے ہی کیا جا سکتا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

رشتوں کا ادب واحترام،نبیﷺ کی سنت

’’ اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو‘‘(سورۃ النساء) صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے کے طور پر کرے، صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جب کوئی قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑے‘‘ (صحیح بخاری)

برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ

اگر کوئی آپ سے برائی کے ساتھ پیش آئے تو آپ اس کے ساتھ اچھائی کے ساتھ پیش آئیں، ان شاء اللہ اس کے مثبت نتائج دیکھ کر آپ کا کلیجہ ضرور ٹھنڈا ہو گا۔

منافقانہ عادات سے بچیں

حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ چار عادتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ چاروں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے اور وہ اسی حال میں رہے گا، جب تک کہ اس عادت کو چھوڑ نہ دے۔

مسائل اور ان کا حل

بیماری کی صورت میں نمازیں چھوٹ جائیں تو کیا حکم ہے ؟ سوال : بیماری کی صورت میں نمازیں قضاء ہوجائیں تو کیا حکم ہے ؟(محمد مہتاب) جواب :ان کی قضاء شرعاً لازم ہے۔

9مئی سے متعلق اعتراف کتنا مہنگا پڑے گا؟

پاکستان تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔ پی ٹی آئی بھی اپنی مشکلات میں خود اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ۔ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے اور پی ٹی آئی قیادت پر آرٹیکل 6 لگانے کا اعلان کیا گیا تو بانی پی ٹی آئی نے بیان داغ کر حکومتی پلان کیلئے سیاست کی حد تک آسانی پیدا کردی مگر سیاسی جماعت پر پابندی موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے آسان کام نہیں۔

پاکستان کا سیاسی بحران اور مفاہمت کی سیاست

پاکستان کا سیاسی بحران بڑھ رہا ہے ۔ حکومت، مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان ماحول میں کافی تلخی پائی جاتی ہے ۔ پی ٹی آئی پر بطور جماعت پابندی لگانے اور بانی پی ٹی آئی ‘ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پر غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔