ہمدردی

تحریر : محمد متقی


سردیوں کی یخ بستہ شامیں میرے لئے ہمیشہ یادوں کے زخم لے کر آتی ہیں۔سرد ہوائوں کے تھپیڑے چہرے پر پڑتے ہیں تو آنکھوں کے کونے بے اختیار نم سے ہو جاتے ہیں اور جسم پر کپکپی سی طاری ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ ایک واقعہ ہے ۔

یہ چار برس قبل کا واقعہ ہے میں اپنی گاڑی میں ہوسٹل سے اپنے شہر جا رہا تھا۔ رات کا وقت تھا اور آسمان پر تارے ماں کی گود میں بیٹھے بچوں کی طرح لگ رہے تھے۔ کار کے شیشے لاک تھے اور ہیٹر آن تھا اس لئے سردی کا احساس ہی نہیں ہو رہا تھا۔

تین گھنٹے قبل ابو کا فون آیا تھا کہ فوراً شہر واپس آ جائوں کیونکہ میری امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ دراصل میری امی کی طبیعت کبھی کبھی بے حد خراب ہو جاتی تھی۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ میں چونکہ ان کی اکلوتی اولاد تھا، اس لئے اعلیٰ تعلیم کیلئے یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا۔ فارمیسی میں میرا یہ دوسرا سال تھا۔

 میں اپنے شہر کی جانب رواں دواں تھا کہ اچانک گاڑی کو ہلکے ہلکے جھٹکے لگے اور بند ہو گئی۔ گاڑی سے اتر کر میں اسے ایک طرف دھکیل کر کھڑا ہو گیا اور گاڑی کا بونٹ اٹھا دیا۔ اندر سے دھواں باہر کی طرف نکلا، میں نے ہاتھ سے دھوئیں کو ادھر اُدھر کیا۔ اور تاروں کے جال کو دیکھنے لگا۔ کئی تاریں جل کر کالی ہو چکی تھیں۔ میں چند لمحے تاروں کو تکتا رہا مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کونسا تار کہاں فٹ ہوگا۔ سردی کا احساس بڑھتا جا رہا تھا، سڑک سنسان لگ رہی تھی اور میں اتنا اناڑی تھا کہ گاڑی کو ٹھیک بھی نہیں کر سکتا تھا۔ جب آخر تک میری سمجھ میں کچھ نہ آیا تو میں نے مکا مار کر بونٹ گرا دیا۔ اچانک ایک پہاڑی کی طرف سے روشنی نمودار ہوئی۔وہ روشنی آہستہ آہستہ میری سمت ہی آ رہی تھی۔ میں خوش ہو گیا مگر اگلے لمحے میری خوشی ماند پڑ گئی کیونکہ آنے والا ایک گیارہ بارہ سال کا بچہ تھا۔ اس نے سلام کیا تو میں نے سلام کا جواب دے کر گاڑی کو تاسف سے گھورا۔

’’کیا گاڑی خراب ہو گئی ہے؟‘‘ اس نے معصومیت سے دریافت کیا۔

’’ہاں بھئی، اسی لئے تو اس ویرانے میں کھڑا سردی برداشت کر رہا ہوں‘‘

میں نے آپ کی جھلک دیکھی تو اس طرف آ گیا، میں ابھی گاڑی کو دیکھتا ہوں، آپ ذرا یہ لالٹین پکڑیں‘‘

’’تم۔۔ کیا تم ٹھیک کر سکتے ہو گاڑی کو ‘‘

جی ہاں!میں اوپر پہاڑی کے اس پار گیراج میں کام کرتا ہوں‘‘۔میں نے لالٹین پکڑی تو وہ گاڑی پر جھک گیا۔

’’تمہارا نام کیا ہے بھئی‘‘؟ وقت گزاری کیلئے میں نے پوچھا۔

’’غلام‘‘

’’کیا۔۔۔۔غلام؟‘‘

’’ہاں پہلے غلام حسین تھامگر اب سب مجھے غلام غلام کہہ کر پکارتے ہیں‘‘۔اس نے تار جوڑتے ہوئے کہا۔ اس کے ہاتھ تیزی کے ساتھ چل رہے تھے۔

’’تم بارہ سال کے تو ہو گئے، کیا پڑھتے بھی ہو‘‘؟

’’نہیں جی‘‘

’’کیوں؟‘‘

میں نے پوچھا تو اس نے درد بھری نظروں کے ساتھ مجھے دیکھا۔’’ یہاں کوئی سکول ہی نہیں ہے‘۔

تھوڑی دیر بعد اس نے گاڑی کا بونٹ گرا دیا اور مجھے گاڑی اسٹارٹ کرنے کیلئے کہا۔میں نے چابی گھمائی تو گاڑی اسٹارٹ ہو گئی۔ میں نے انتہائی مسرت بھرے انداز میں جیب سے سو روپے کا نوٹ نکال کر اسے دینا چاہا۔

’’یہ لو غلام حسین سو روپے،تمہارا انعام‘‘

ایک دم اس کا رنگ بدل گیا۔ پھر وہ آہستہ سے بولا ’’شکریہ جناب! میں نے تو انسانی ہمدردی کے تحت یہ کام کیا ہے‘‘۔

میں اس کے خلوص سے بے حد متاثر ہوا اور صرف اتنا ہی کہہ سکا ’’ بہت بہت شکریہ غلام حسین ‘‘۔

’’جی کوئی بات نہیں‘‘

’’میری امی بیمار ہیں ان کیلئے دعا ضرور کرنا، تم ایک اچھے بچے ہو‘‘۔

’’اللہ آپ کی امی کو صحت دے‘‘ یہ کہہ کر وہ اندھیرے میں گم ہو گیا۔ میں نے اطمینان کا طویل سانس لیا پھر میں گھر تک بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ گیا۔

 حیرت انگیز طور پر امی کی صحت اچھی ہو گئی۔ ایک ہفتے بعد میں واپس وطن جا رہا تھا، راستے میں اسی مقام پر میں نے بے اختیار گاڑی روک دی جہاں غلام حسین ملا تھا۔ اوپر پہاڑی پر چڑھنا کچھ دشوار نہ تھا۔ میں اوپر پہنچ گیا۔ وہاں چند گھر تھے۔ مگر ان گھروں سے پہلے ایک چھوٹی سی قبر بنی ہوئی تھی۔ کتبے پر نام پڑھ کر میں دنگ رہ گیا، دماغ میں بھونچال سا آ گیا، لکھا تھا ۔

’’غلام حسین (موٹر مکینک)، عمر بارہ سال، تاریخ وفات 1990ء رات بارہ بجے‘‘۔

’’وہ بیس برس پہلے فوت ہو چکا تھا۔ اس معمے کو میں آج تک نہ سمجھ سکا‘‘۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

دھوکے کی سزا

کسی گائوں میں ایک دھوبی رہتا تھا،جو شہر سے لوگوں کے کپڑے گدھے پر لاد کے گائوں لاتا اور دھونے کے بعد اسی پر لاد کے واپس شہر پہنچاتا تھا۔دھوبی کی کمائی کا یہی ذریعہ تھا اور وہ اس قدر کما لیتا کہ با آسانی گزر بسر کر سکے۔

زمین کی گردش رُک جائے تو کیا ہو؟

پیارے بچو!زمین اپنے محور کے گرد ایک ہزار میل فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار سے گھو م رہی ہے،تاہم اس وقت کیا ہو گااگر اس کی گرد ش اچانک رُک جائے؟اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا ہوا تو اس کے اثرات انتہائی تباہ کُن ہوں گے۔ماہرین کے مطابق اگر زمین کا گھومنا اچانک تھم جائے تو ہر وہ چیز جو کسی دوسری چیز سے بندھی ہوئی نہیں ہے ۔اچانک مشرق کی جانب ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُ ڑنے لگے گی۔اس کے اثرات فضا پر بھی مرتب ہوں گے اور ہوائیں اتنی طاقتور ہو جائیں گی جیسے کسی ایٹم بم کے دھماکے کے بعد ہو سکتی ہیں۔

جانوروں کی دنیا

بٹیر دیہی علاقوں میں پایا جانے والا ایک خوبصورت پرندہ ہے۔اس کا تعلق پرندوں کے گالی فورمز خاندان سے ہے۔پرندوں کے اس بڑے خاندان میں مرغی،مور اور تیتر بھی شمال ہیں۔

پہیلیاں

ایک کھیتی کا دیکھا یہ حال نہ کوئی پتا نہ کوئی ڈال نہ ہی ڈالا بیج نہ جوتا ہل

اقوال زریں

٭… جوش کی بجائے ہوش سے کام لو۔ ٭… نادان کی صحبت میں مت بیٹھو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی باتیں تمہیں اچھی لگنے لگیں۔ ٭…خوش رہنا چاہتے ہو تو کسی کا دل نہ دکھائو۔

ذرامسکرایئے

باپ بیٹے سے: یہ تم کیسی ماچس لائے ہو ایک تیلی بھی نہیں جل رہی؟ بیٹا: ایسا کیسے ہو سکتا ہے ابو ، میں تو ایک ایک تیلی چیک کر کے لایا ہوں سب جل رہی تھیں۔٭٭٭