ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی

تحریر : صابر علی


اردو ادب کی نامور شخصیت ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی25 جنوری کو ہم سے جدا ہوگئی۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی وفات سے علم و ادب کا ایک چراغ بجھ گیا جو یقینی طور پربہت بڑا صدمہ ہے۔ اقبالیات میں ان کی گراں قدر خدمات کا اعتراف عالمی سطح پر کیا جا چکاہے،پاکستان کے تمام اہم ادبی اداروں اور جامعات میں ان کے خطبات اور کتابوں سے استفادہ کیا جاتا ہے۔

 مودودیات،نقد و اعتقاد،تالیف و تدوین، سفر نامہ نگاری اور خطوط نویسی میں ان کا کام انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ طویل عرصہ شعبہ اورینٹل کالج سے بطور مدرس وابستہ رہے،اردو کانفرنسوں اور سیمینارز میں شرکت کیلئے پاکستان سمیت دنیا کے متعدد اہم ملکوں کا سفر کیا۔اقبالؒ شناسی اور تالیف و تحقیق کے علاوہ خطوط نویسی میں ان کا نام بطور سند پیش کیا جاتا ہے، ان کی جسٹس جاوید اقبال،انتظار حسین،جگن ناتھ آزاد،حکیم محمد سعید، عاشق حسین بٹالوی،غلام جیلانی برق، رشید حسن خان،مشفق خواجہ،محمد طفیل، ڈاکٹر سید عبداللہ اور ڈاکٹر وحید قریشی سمیت درجنوں نابغوں سے خط کتابت رہی۔ان خطوط میں کئی اہم موضوعات اور کتب زیر بحث رہیں لہٰذا یہ خطوط اپنی جگہ ایک مستند تاریخ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی پہلی کتاب ’’اقبال کی طویل نظمیں‘‘  1974شائع ہوئی۔ان کی کم و بیش پچاس کے قریب کتابیں شائع ہوئیں۔

رفیع الدین ہاشمی 9 فروری 1940ء کو مصریال (ضلع چکوال) میں پیدا ہوئے۔ دادا عالم شاہ دیندار کسان تھے۔وہ مختلف مدرسوں میں زیر تعلیم رہے۔ان کے والد محمد محبوب شاہ دہلی کے مدرسہ فتح پوری میں زیر تعلیم رہے، جبکہ چچا عبدالرحمٰن نے مولانا شبیر احمد عثمانی کی شاگردی اختیار کی اور ڈابھیل سے فارغ التحصیل ہو کر طب کا پیشہ اختیار کیا۔ رفیع الدین ابھی چھ برس کے تھے جب والدہ کا انتقال ہو گیا، چنانچہ ان کی پرورش دادی اور چچی نے کی۔ بچپن میں ہی حفظ قرآن کی سعادت نصیب ہوئی، ساتھ سکول کی تعلیم بھی جاری رہی۔ انبالہ مسلم ہائی سکول، سرگودھا سے 1957ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا،اس دوران وہ چچا سے عربی و فارسی کی ابتدائی کتب کریما، پند نامہ، گلستان و بوستان بھی پڑھ چکے تھے۔ گھر میں رکھی ہوئی علامہ اقبالؒ کی کتاب ’’بانگ درا‘‘ کا مطالعہ شروع کر دیا، جس کے شروع میں دی گئی بچوں کی نظمیں ’بچے کی دعا‘ ، ’ہمدردی‘ اور ’ماں کا خواب‘ وغیرہ شوق سے پڑھتے اور یہ نظمیںان کو زبانی یاد ہوگئیں۔

انٹرمیڈیٹ کیلئے گورنمنٹ کالج سرگودھا میں داخلہ لیا۔ کالج کے ’حلقہ ادب‘ میں باقاعدگی سے شریک ہوتے، ادب و تنقید کا ابتدائی ذوق یہیں سے پیدا ہوا اور وہ خود بھی افسانے لکھنے لگے۔ ان کے پسندیدہ افسانہ نگاروں میں پریم چند، علی عباس حسینی اور بعد کے دور میں انتظار حسین کے نام شامل ہیں۔ 1960ء میں ایف اے کا امتحان درجہ اوّل میں پاس کیا۔مولانا مودودی کی تصانیف کا مطالعہ بھی اسی دور میں کیا اور ان کی فکر سے متاثر ہوئے۔1963ء میں پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے بی اے کا امتحان دیا، پھر گورنمنٹ کالج سرگودھا میں ایم اے اردو کی کلاس میں داخلہ لے لیا۔ اورینٹل کالج کے نامور اساتذہ سے اکتساب فیض کرنے کی خواہش دل میں مچلتی رہتی، چنانچہ کچھ عرصے بعد وہاں مائیگریشن کرا لی۔

یہاں انہیں ڈاکٹر سید عبداللہ، سید وقار عظیم اور ڈاکٹر وحید قریشی جیسے اساتذہ سے پڑھنے کا موقع ملا۔ کہا کرتے تھے، ’’یہ وہ لوگ تھے جن کی تحریریں اور لیکچر بھی بہت پسند تھے اور ان سے مل کر بھی بہت اچھا لگتا۔ وہ اپنے شاگردوں کی تعلیم و تربیت پر پورا دھیان دیتے تھے‘‘۔ اپنی شخصیت کی تشکیل میں سیّداسعد گیلانی کا بھی بہت اہم کردار سمجھتے تھے، جن سے ان کا خاصا ملنا جلنا تھا۔ اورینٹل کالج میں وہ یونیورسٹی کے مجلے محور کے مدیر اعلیٰ مقرر ہوئے۔

زمانہ طالب علمی کے دوران ان کی کچھ صحافتی مصروفیات بھی رہیں۔ ایک اخبارکے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ ماہنامہ تعمیر انسانیت اور ہفت روزہ آئین سے بھی وابستہ رہے۔ ان کو اپنے مزاج کے مطابق تدریس کا شوق تھا۔ اس لیے 1966ء میں ایم اے کرنے کے بعد جھنگ میں ایک نجی کالج میں اردو کے لیکچرار کی حیثیت سے منسلک ہو گئے۔ چشتیاں، مری اور سرگودھا کے سرکاری کالجوں سے بھی وابستہ رہے۔ 1982ء میں اپنی مادر عملی اورینٹل کالج لاہور سے جڑ گئے اور اپنی ریٹائرمنٹ تک یہ تعلق برقرار رہا۔ اقبال اکادمی کیلئے بھی خدمات انجام دیں۔ کئی ملکی و بین الاقوامی کانفرسوں میں شرکت کی۔ 1969میں شادی ہوئی۔ دوسرے اعزازت کے علاوہ حکومت پاکستان نے 2014  میں خدمات کے اعتراف میں صدارتی تمغہ امتیاز سے نوازا۔ ان کی تحقیقی خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔کئی مشاہیر کے خطوط مرتب کیے، مختلف شخصیات پر مضامین لکھے اور ان کا ایک قابل قدر حوالہ سفرنامہ نگاری بھی ہے۔

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو علامہ اقبالؒ سے دلچسپی سکول کے زمانے سے ہی پیدا ہوگئی تھی، جب ’’بانگ درا‘‘ میں بچوں کی نظمیں پڑھنے کا موقع ملا۔ پھر اردو کے نصاب میں اقبالؒ کا کلام بڑے ذوق و شوق سے پڑھا۔ ایف اے کے دوران بال جبریل کا مطالعہ کیا۔ اس کا بہت سا حصہ انہیں یاد ہوگیا۔ وہ بتاتے تھے، ’’بی اے کے امتحان میں علامہ اقبالؒ کی شاعری اور نثر کا ایک پورا پرچہ تھا، اور اس طرح یہ میرا پسندیدہ مضمون بن گیا۔ اس دوران شعور کے ساتھ یہ احساس پیدا ہو گیا تھا کہ وہ کتنی بڑی ادبی اور علمی شخصیت تھے‘‘۔ یونیورسٹی کے اساتذہ نے ان کا ذوق دو آتشہ کر دیا اور اس طرح اقبالیات ہی ان کا میدان قرار پایا۔ صرف اقبالیات پر ان کی کتابوں کی تعداد بیس سے زیادہ ہے۔

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے ایک مضمون کا اقتباس ملاحظہ کریں۔’’بانگِ درا میں شامل بچوں کے لیے بیشتر نظمیں‘ انگریزی شاعری سے ماخوذ ہیں‘ مگر ’’پرندے کی فریاد‘‘ پر ’’ماخوذ‘‘ کی وضاحت درج نہیں ہے۔ پروفیسر حمیداحمد خاں مرحوم کی تحقیق یہ ہے کہ اقبال ؒکو اس نظم کی تحریک‘ معروف انگریز شاعر ولیم کوپر کی ایک نظم سے ہوئی اور انھوں نے اس نظم میں کوپر کی آزاد ترجمانی کی ہے‘ لیکن اس سے قطع نظر‘ کہ یہ کوپر سے ماخوذ ہے یا ایک طبع زاد تخلیق ہے، اقبالؒ کی یہ نظم معنی خیز ضرور ہے۔ یہ بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں‘ یعنی 1901ء سے 1905ء تک کے درمیانی عرصے میں لکھی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب غلام ہندستان‘ برطانوی استعمار کے شکنجے میں بری طرح جکڑا ہوا تھا اور غلامی کے خلاف کھل کر فریاد کرنا بھی مشکل تھا۔ اس لیے ہمارے بعض نقادوں کا خیال ہے کہ اس نظم کے ذریعے، ’گفتہ آید درحدیثِ دیگراں‘ کے مصداق‘ علامہ نے اہل وطن کی غلامی پر احتجاج کیا ہے۔ ہم اقبالؒ کے شارحین اور نقادوں سے اتفاق کریں یا اختلاف‘ یہ مْسلّم ہے کہ علامہ ہرنوع کی غلامی کے خلاف تھے۔ غلامی، سیاسی اور مادی و معاشی ہو یا روحانی اور ذہنی، براہ راست ہو یا بالواسطہ، غیروں کی ہو یا اپنوں کی‘ اقبالؒ اسے انسانیت کی توہین سمجھتے ہیں اور ان کیلئے کسی کی خودساختہ حکمرانی، کسی کا من مانا اقتدار یا کسی کا جبری تسلط ناقابلِ قبول تھا۔ ان کا عقیدہ تو یہ تھا کہ قوت، طاقت اور حکمرانی کا سرچشمہ نہ عوام ہیں، نہ خواص، نہ اشرافیہ، نہ کوئی فردِ واحد بلکہ صرف اور صرف باری تعالیٰ کی ذات ہے‘‘۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

دھوکے کی سزا

کسی گائوں میں ایک دھوبی رہتا تھا،جو شہر سے لوگوں کے کپڑے گدھے پر لاد کے گائوں لاتا اور دھونے کے بعد اسی پر لاد کے واپس شہر پہنچاتا تھا۔دھوبی کی کمائی کا یہی ذریعہ تھا اور وہ اس قدر کما لیتا کہ با آسانی گزر بسر کر سکے۔

زمین کی گردش رُک جائے تو کیا ہو؟

پیارے بچو!زمین اپنے محور کے گرد ایک ہزار میل فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار سے گھو م رہی ہے،تاہم اس وقت کیا ہو گااگر اس کی گرد ش اچانک رُک جائے؟اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا ہوا تو اس کے اثرات انتہائی تباہ کُن ہوں گے۔ماہرین کے مطابق اگر زمین کا گھومنا اچانک تھم جائے تو ہر وہ چیز جو کسی دوسری چیز سے بندھی ہوئی نہیں ہے ۔اچانک مشرق کی جانب ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُ ڑنے لگے گی۔اس کے اثرات فضا پر بھی مرتب ہوں گے اور ہوائیں اتنی طاقتور ہو جائیں گی جیسے کسی ایٹم بم کے دھماکے کے بعد ہو سکتی ہیں۔

جانوروں کی دنیا

بٹیر دیہی علاقوں میں پایا جانے والا ایک خوبصورت پرندہ ہے۔اس کا تعلق پرندوں کے گالی فورمز خاندان سے ہے۔پرندوں کے اس بڑے خاندان میں مرغی،مور اور تیتر بھی شمال ہیں۔

پہیلیاں

ایک کھیتی کا دیکھا یہ حال نہ کوئی پتا نہ کوئی ڈال نہ ہی ڈالا بیج نہ جوتا ہل

اقوال زریں

٭… جوش کی بجائے ہوش سے کام لو۔ ٭… نادان کی صحبت میں مت بیٹھو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی باتیں تمہیں اچھی لگنے لگیں۔ ٭…خوش رہنا چاہتے ہو تو کسی کا دل نہ دکھائو۔

ذرامسکرایئے

باپ بیٹے سے: یہ تم کیسی ماچس لائے ہو ایک تیلی بھی نہیں جل رہی؟ بیٹا: ایسا کیسے ہو سکتا ہے ابو ، میں تو ایک ایک تیلی چیک کر کے لایا ہوں سب جل رہی تھیں۔٭٭٭