پنجاب کی وزارت اعلیٰ مریم نواز کی صلاحیتوں کا امتحان

تحریر : سلمان غنی


انتخابی عمل کے نتیجہ میں ملک میں حکومت سازی کے عمل پر غورو خوض جاری ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے اعلان نے ملک میں مخلوط حکومت کی راہ ہموار کردی ہے اور قومی اور پنجاب اسمبلی میں بڑی جماعت کے طور پر پارٹی کے لیڈر نوازشریف نے وزارت عظمیٰ کیلئے شہبازشریف اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے مریم نواز کا نام تجویز کیا ہے۔

 دوسری جانب پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پی ٹی آئی کی جانب سے پیپلزپارٹی سے مذاکرات اور ڈائیلاگ نہ کرنے کے اعلان کو بنیاد بناتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی حکومت سازی کی پیشکش قبول کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے وزیراعظم کی حمایت کریں گے۔ البتہ انہوں نے حکومت میں براہ راست شمولیت کی بجائے اپنی جماعت کو آئینی عہدوں تک محدود کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ایوانِ صدر میں آصف علی زرداری ہوں۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے ایوانِ صدر کے ساتھ آئینی عہدوں پر دلچسپی پر ابھی مسلم لیگ( ن) کا باضابطہ جواب تو نہیں آیا لیکن واقفانِ حال مُصر ہیں کہ اس فارمولا کو بعض ذمہ دار حلقوں کی تائید و حمایت بھی حاصل ہے اور فیصلہ یہی ہوا کہ ملک کو آگے لے جانے کیلئے سب کو مل کر چلنا چاہئے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان حکومت سازی کے عمل میں طے شدہ فارمولا کو حتمی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پانچ اور چھ سالہ معینہ مدت کے عہدوں پر تو پیپلزپارٹی اپنے لوگوں کو لا بٹھائے اور مسلم لیگ (ن) مشکل حالات میں حکومت کا بوجھ اٹھائے۔ موجودہ صورتحال میں مسلم لیگ (ن) مذکورہ فارمولا پر کار بند ہو سکے گی۔ فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن ایک بات جو  حقیقت پر مبنی ہے کہ حالیہ انتخابات کے نتیجہ میں سامنے آنے والے مینڈیٹ سے مرکز میں حکومت بنانا اور چلانا بہت مشکل نظر آ رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ خود جاتی امرا میں ہونے والی ایک اعلیٰ سطحی مشاورت میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) حکومت سازی کے عمل میں شریک ہونے کے بجائے مرکز میں اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی اور پنجاب میں حکومت بنا ئے گی۔ لیکن کہا جا رہا ہے کہ نوازشریف کی صدارت میں ہونے والے مذکورہ فیصلہ پر اسلام آباد کی سطح پر پریشانی کے آثار نظر آئے اور نوازشریف کو یہ باور کروایا گیا کہ مسلم لیگ (ن) کو موجودہ صورتحال میں قربانی دینا ہوگی ۔ اس کیلئے کسی اور جماعت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا اور مسلم لیگ (ن) ہی آئی ایم ایف سمیت عالمی مالیاتی اداروں سے معاملات طے کرنے کی پوزیشن میں ہے؛چنانچہ مسلم لیگ (ن) اپنے فیصلہ پر نظرثانی پر مجبور ہوئی اور اس طرح سے وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری لینے پر تیار ہوئی۔ ماہرین پیپلزپارٹی کی جانب سے حکومت میں حصہ دار نہ بننے کے اعلان کو اس کی سیاسی چالاکی قرار دے رہے ہیں اور پیپلزپارٹی اس آپشن کو بروئے کار لا کر حکومت اور اپوزیشن دونوں کردار ایک ہی وقت میں ادا کرنا چاہتی ہے۔ ان ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی خواہشات اپنی جگہ لیکن ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا کہ پیپلزپارٹی صرف آئینی عہدوں تک محدود رہے۔ پیپلزپارٹی کو کابینہ میں حصہ لینا پڑے گا اور مشکل حالات میں حکومت کا بوجھ مل کر اٹھانا ہو گا۔دوسری جانب ایم کیو ایم انتخابات کے بعد حکومت سازی کے عمل میں بہت سنجیدہ نظر آ رہی ہے ۔ انتخابات کے بعد ایم کیو ایم کی لیڈر شپ کے دورۂ لاہور کو مرکز اور سندھ کی حکومت میں اس کی نمائندگی کے حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ نئی ممکنہ اتحادی حکومت میں مسلم لیگ (ق) سمیت دیگر چھوٹی جماعتوں کو بھی حصہ دار بنایا جا رہا ہے۔

جہاں ایک طرف مرکز میں حکومت سازی کے حوالے سے گمبھیر صورتحال ہے تو دوسری جانب تین بڑے صوبوں میں تینوں بڑی جماعتوں پی ٹی آئی ، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی حکومتیں بنتی نظر آ رہی ہیں، جبکہ بلوچستان کی حکومت حسب ِروایت مخلوط ہو گی۔ تین صوبوں میں مختلف جماعتوں کی حکومتوں کا ایک فائدہ تو یہ ضرور نظر آ رہا ہے کہ تینوں پر اپنی کارکردگی اور عوام کیلئے ریلیف کا بوجھ ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ تینوں صوبوں میں مختلف جماعتوں کی حکومتوں میں کارکردگی کے حوالے سے مقابلہ ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ( ن) نے پنجاب کے محاذ پر وزارت اعلیٰ کے منصب پر اپنی پارٹی کی چیف آرگنائزر مریم نواز کو نامزد کیا ہے اور یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی خاتون وزیراعلیٰ ہوں گی۔ ایک بڑے صوبے کی وزیراعلیٰ کے طور پر یہ ان کی لیڈر شپ کا بھی امتحان ہوگا ۔ مسلم لیگ (ن) کی سیاست میں پنجاب کوہم حیثیت حاصل ہے ۔یہاں نوازشریف، شہبازشریف اور حمزہ شہباز بھی وزارت ِاعلیٰ کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں ۔ اس لیے کارکردگی میں مریم نواز کا مقابلہ کسی اور سے نہیں اپنے ہی خاندان کے وزرائے اعلیٰ سے ہوگا۔  قطع نظر اس بات کے کہ مریم نواز نے مشکل صورتحال میں جرأت و بہادری کی تاریخ رقم کرتے ہوئے خود کو منوایا اور کسی حد تک مہنگائی زدہ عوام کی آواز بھی بننے کی کوشش کی لیکن وزارت اعلیٰ جیسے بڑے منصب پر ان کی انتظامی صلاحیتوں کا امتحان ہوگا کیونکہ اس سے پہلے نہ تو وہ کسی حکومتی منصب پر رہی ہیں اور نہ ہی اس سے پہلے وہ ایوانوں کا حصہ بن سکیں ۔اب وہ ایک ایسی صورتحال میں پنجاب کی وزیراعلیٰ بنیں گی کہ انہیں منتخب ایوان میں ایک بڑی اور کڑی اپوزیشن کا سامنا کرنا ہوگا۔  پنجاب جیسے بڑے صوبہ میں انہیں ڈیلیور کرنا ہوگا اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو پنجاب کے محاذ پر ڈیلیور کرتا ہے اس کیلئے اسلام آباد پہنچنا آسان ہوتا ہے اور پنجاب کے کامیاب وزرائے اعلیٰ ہی وزارت عظمیٰ کی صف میں پہنچے ہیں ، لہٰذا مریم نواز کیلئے پنجاب کی وزارت اعلیٰ اعزاز سے بڑھ کر امتحان ہوگا اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے ساتھ پارٹی کی چیف آرگنائزر کے طور پر ان پہ اپنی جماعت کے سیاسی مستقبل کا انحصار بھی ہوگا ۔ اس حوالے سے ان کی اصل طاقت بیورو کریسی نہیں ان کے سیاسی ساتھی، منتخب اراکین اور کارکن ہوں گے ۔انتخابات کے نتیجہ میں بننے والے حالات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ سیاسی محاذ ٹھنڈا نہیں گرم ہوگا اور جس طرح انتخابی عمل میں اصل میدان پنجاب میں لگا ہے اس طرح  انتخابات کے بعد بھی پنجاب کا کردار پاکستان کی سیاست میں اہم ہوگا ۔ نوازشریف کی بیٹی کے طور پر وہ سیاسی مخالفین کا ہدف بھی ہوں گی کیونکہ وہ انہیں نوازشریف کی سیاسی وارث سمجھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ اُن کی سیاسی صلاحیتوں کا امتحان ہوگا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

دھوکے کی سزا

کسی گائوں میں ایک دھوبی رہتا تھا،جو شہر سے لوگوں کے کپڑے گدھے پر لاد کے گائوں لاتا اور دھونے کے بعد اسی پر لاد کے واپس شہر پہنچاتا تھا۔دھوبی کی کمائی کا یہی ذریعہ تھا اور وہ اس قدر کما لیتا کہ با آسانی گزر بسر کر سکے۔

زمین کی گردش رُک جائے تو کیا ہو؟

پیارے بچو!زمین اپنے محور کے گرد ایک ہزار میل فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار سے گھو م رہی ہے،تاہم اس وقت کیا ہو گااگر اس کی گرد ش اچانک رُک جائے؟اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا ہوا تو اس کے اثرات انتہائی تباہ کُن ہوں گے۔ماہرین کے مطابق اگر زمین کا گھومنا اچانک تھم جائے تو ہر وہ چیز جو کسی دوسری چیز سے بندھی ہوئی نہیں ہے ۔اچانک مشرق کی جانب ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُ ڑنے لگے گی۔اس کے اثرات فضا پر بھی مرتب ہوں گے اور ہوائیں اتنی طاقتور ہو جائیں گی جیسے کسی ایٹم بم کے دھماکے کے بعد ہو سکتی ہیں۔

جانوروں کی دنیا

بٹیر دیہی علاقوں میں پایا جانے والا ایک خوبصورت پرندہ ہے۔اس کا تعلق پرندوں کے گالی فورمز خاندان سے ہے۔پرندوں کے اس بڑے خاندان میں مرغی،مور اور تیتر بھی شمال ہیں۔

پہیلیاں

ایک کھیتی کا دیکھا یہ حال نہ کوئی پتا نہ کوئی ڈال نہ ہی ڈالا بیج نہ جوتا ہل

اقوال زریں

٭… جوش کی بجائے ہوش سے کام لو۔ ٭… نادان کی صحبت میں مت بیٹھو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی باتیں تمہیں اچھی لگنے لگیں۔ ٭…خوش رہنا چاہتے ہو تو کسی کا دل نہ دکھائو۔

ذرامسکرایئے

باپ بیٹے سے: یہ تم کیسی ماچس لائے ہو ایک تیلی بھی نہیں جل رہی؟ بیٹا: ایسا کیسے ہو سکتا ہے ابو ، میں تو ایک ایک تیلی چیک کر کے لایا ہوں سب جل رہی تھیں۔٭٭٭