یادرفتگاں:جوش ملیح آبادی شاعر حریت و فطرت

تحریر : محمدارشدلئیق


پاکستان ہجرت کرکے آئے تو برصغیر کے طول و عرض میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا تھا انہوںنے تخلص جوش بلاوجہ اختیار نہ کیا ہو گا، غالباً اپنی فطرت کے ہیجان انگیز عناصر کا انہیں شروع ہی سے شدید احساس تھا

جوش ملیح آبادی بیسویں صدی کے ان باکمال شاعروں میں سے تھے، جن کی نظیر زمانہ پھر پیدا نہیں کر سکے گا۔ ان کے ساتھ ساتھ ایک پورے دور کا خاتمہ ہو گیا۔ نصف صدی سے بھی زیادہ مدت تک جوش نے اپنی شاعری کا جزر و مد اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ قبول عام و لطف سخن کو خداداد کہا گیا ہے۔ شاید اس لئے کہ تخلیق خواہ وہ کسی طرح کی ہو، اس کا گہرا تعلق وہبی صلاحیت سے ہے۔ قبول عام میں تو پھر بھی زمانے کی روش، مذاق و معیار، نیز شخصیت کے بانکپن یا بوالعجبی کا کچھ نہ کچھ دخل ضرور رہتا ہوگا۔ لیکن لطف سخن تو تمام و کمال اس تخلیقی اظہار کے فروغ سے عبارت ہے جو شاعر کے عہد میں یا اس کے بعد حلقہ شام و سحر سے آزاد ہونے یا جاوداں ہونے کی قوت رکھتا ہو۔

 کون نہیں جانتا کہ بیسویں صدی میں ٹیگور اور اقبال ؒ کے بعد جتنی عزت، شہرت اور مقبولیت جوش کو نصیب ہوئی، کسی دوسرے شاعر کے حصے میں نہیں آئی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ 1956ء میں جب جوش بھارت سے پاکستان ہجرت کر کے آئے تو دونوں ملکوں یعنی پورے برصغیر کے طول و عرض میں جوشؔ کے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔

 کیا یہ امر غور طلب نہیں کہ قطع نظر اس ذاتی واقعے کے بیانیہ شاعری کا وہ انداز، جس کے جوش اتنے زبردست ترجمان تھے، تاریخی اعتبار سے یہ اعزاز بھی انہیں کو نصیب ہونے والا تھا، کیونکہ آزادی کے بعد کے چند برسوں میں کیا یہ انداز اپنی بساط طے نہیں کر رہا تھا؟ جب زمانہ بدلتا ہے تو مذاق بھی بدلتا ہے۔ ادبی تبدیلیاں اگرچہ خاموشی سے رونما ہوتی ہیںلیکن کئی بار یہ سیاسی طوفانوں اور تہلکوں سے کم ہوش ربا اور روح فرسانہیں ہوتیں۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ آزادی کی ایک دہائی کے اندر اندر ہی پاکستان اور ہندوستان میں اُردو شعرو ادب کی سطح پر دور رس تبدیلیوں کے آثار سامنے آنے لگے۔ چنانچہ جب مذاق بدلنے لگا تو انقلاب کی صدا لگانے والے خود ایک انقلاب کی زد میں آ گئے۔ ہماری شاعری کی تاریخ ان تبدیلیوں کی خاموش تماشائی ہے۔ گوش ِنصیحت نیوش ہو یا نہ ہو، دیدہ عبرت نگاہ تو خون کے آنسو رو بھی چکی اور رُلا بھی چکی۔

جوش اس قدر جلد روایت پارینہ بن جائیں گے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ تاہم وہ ہماری کتابِ شعر کا ایسا باب ہیں جس کے بعض نقوش کی چمک آسانی سے ماند ہو گی۔ جوش کی اٹھان میں بلا کا زور تھا۔ انہوں نے اپنا تخلص جوش بلاوجہ اختیار نہ کیا ہوگا۔ غالباً اپنی فطرت کے ہیجان انگیز عناصر کا انہیں شروع ہی سے شدید احساس تھا۔ ان کے یہاں ابتدا ہی سے ایک زبردست قوت نمو، تخلیقی اپج، پھٹ پڑنے اور بے اختیار بہا لے جانے کی کیفیت ملتی ہے۔ وہ ایک بگولے کی طرح اٹھے اور طوفان بن کر چھا گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے اپنی تہلکہ خیزیوں سے ایوان شعر کے درو دیوار کو لرزا دیا۔ 

وہ سرتا سر ایک رومانی شاعر تھے اور شدید باغی۔ ایسا باغی جو بالآخر خود اپنی ہی آگ کی نذر ہو گیا۔ مشاقی، پرُگوئی، شوکتِ الفاظ اور قادر الکلامی ان پر ختم تھی۔ ان کی شاعری سے لگتا ہے کہ وہ جس موضوع یا منظر کو جیسا چاہتے آناً فاناً نظم کر دیتے تھے۔ لفظوں کا ایسا بڑا جادوگر انیسؔ کے بعد دوسرا پیدا نہیں ہوا۔ زبان کے ساتھ ان کا رویہ انتہائی حاکمانہ اور آمرانہ تھا۔ یوں لگتا تھا کہ ہزاروں لاکھوں الفاظ قطار اندر قطار ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ اور ادنیٰ سا اشارہ پاتے ہیں سر جھکائے شعر میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں۔ جوشؔ کے لہجے میں ایسا طنطنہ اور مردانگی تھی، اور ان کی آواز میں ایسی گھن گرج، کڑک اور دبدبہ تھا کہ معلوم ہوتا تھا گویا ہمالیہ لرز رہا ہے، یا زلزلہ آ گیا ہے’’ شعلہ و شبنم‘‘ کے بعد ان کا یہ شعر بلاوجہ زبان زد خاص و عام نہیں ہو گیا تھا:

کام ہے میرا تغیر، نام ہے میرا شباب

میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب

یوں وہ شاعر انقلاب کے ساتھ ساتھ شاعر شباب بھی کہے جانے لگے۔ بیک وقت شاعر انقلاب اور شاعر شباب ہونا جوش ہی کا کمال تھا۔ تضاد کا یہ سلسلہ جوش کی پوری شاعری میں ملتا ہے۔ جوش کو اس پر فخر بھی تھا۔ انہوں نے اپنے مجموعوں کے نام ’’شعلہ و شبنم، سنبل و سلاسل، سیف و سبو، حرف و حکایت، فکر و نشاط، جنون و حکمت، سرود خروش، الہام و افکار، عرش و فرش، آیات و نغمات اور سموم و صبابلاوجہ نہیں رکھے۔

 جوشؔ کی پوری شاعری میں یہی کیفیت ہے کہ ایک جذبہ دوسرے کی نفی کرتا ہے اور ایک رنگ دوسرے کو بے رحمی سے کاٹتا ہے لیکن جوش اب پُل کے دوسری طرف جا چکے ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ وقت کے اس ظلمات میں ان کی شاعری کا جو چہرہ ابھرتا ہے، وہ کیسا ہے اور صرصر وسموم کے اس دشت سے گزرنے کے بعد جس کا نام دینا ہے، جوش کی شاعری کے وہ کون سے نقوش ہیں جو اب بھی روشن ہیں۔

اس کے جواب کیلئے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، جوش اپنے وقت سے آگے نہ سہی، اپنے وقت کی آواز ضرور تھے اور یہ سعادت معمولی نہیں، خلافت تحریک اور اس کے بعد سے یہ برصغیر سیاسی بیداری اور قومی جوش و خروش کے جس اُبال سے گزر رہا تھا، جوش کی شاعری اس کی فطری نقیب بن گئی تھی۔ آزادی کے ترانے چھیڑنے والوں میں جوش اکیلے نہیں تھے۔ شبلی حسرت موہانی، چکبست، اکبر الہ آبادی، اقبالؒ، ظفر علی خاں اور کئی دوسرے شعراء سامراج دشمنی کی فضا تیار کر چکے تھے لیکن جوش کی آواز جوش کی آواز تھی۔ ان کی باغیانہ تڑپ اور گھن گرج سب سے الگ تھی۔ شاعر انقلاب کہلانے کا اعزاز کسی کو ملا تو صرف جوش ؔ کو۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ شاعری کی سطح پر آزادی کے قافلہ سالاروں میں سے تھے اور جس مجاہدانہ جوش و خروش اور ہمت و پامردی سے انہوں نے سامراج دشمنی اور انقلاب کے ترانے گائے اور انگریز کے خلاف بغاوت کی آگ کو سینوں میں دہکایا، وہ دونوں ملکوں کی قومی تاریخ کا حصہ ہے۔ شاعر شباب کا معاملہ تو وہ ذرا کمزور ہے۔ ان کی شدید جذباتیت سے جتنا فائدہ ان کی انقلابیت اور بغاوت پسندی کو پہنچا، اس نسبت سے اتنا یا اس سے زیادہ نقصان کی عشقیہ شاعری کو پہنچا، جسم و جمال کے تذکروں میں لذت اندوزی اور ہوس پرستی سے آگے نہ دیکھ سکنے کی وجہ بھی یہی تھی۔ تاہم باغیانہ لے سے ہٹ کر ان کی شاعری کا اگر کوئی اور روشن پہلو ہو سکتا ہے تو وہ ان کا حسن فطرت سے بے پناہ لگائو ہے، لگتا ہے قدرتی مناظر کی کشش سے ان پر ربودگی کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔جوش کی شاعری کے اس پہلو کی طرف اتنی توجہ نہیں ہوئی جتنا اس کا حق ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

دھوکے کی سزا

کسی گائوں میں ایک دھوبی رہتا تھا،جو شہر سے لوگوں کے کپڑے گدھے پر لاد کے گائوں لاتا اور دھونے کے بعد اسی پر لاد کے واپس شہر پہنچاتا تھا۔دھوبی کی کمائی کا یہی ذریعہ تھا اور وہ اس قدر کما لیتا کہ با آسانی گزر بسر کر سکے۔

زمین کی گردش رُک جائے تو کیا ہو؟

پیارے بچو!زمین اپنے محور کے گرد ایک ہزار میل فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار سے گھو م رہی ہے،تاہم اس وقت کیا ہو گااگر اس کی گرد ش اچانک رُک جائے؟اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا ہوا تو اس کے اثرات انتہائی تباہ کُن ہوں گے۔ماہرین کے مطابق اگر زمین کا گھومنا اچانک تھم جائے تو ہر وہ چیز جو کسی دوسری چیز سے بندھی ہوئی نہیں ہے ۔اچانک مشرق کی جانب ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُ ڑنے لگے گی۔اس کے اثرات فضا پر بھی مرتب ہوں گے اور ہوائیں اتنی طاقتور ہو جائیں گی جیسے کسی ایٹم بم کے دھماکے کے بعد ہو سکتی ہیں۔

جانوروں کی دنیا

بٹیر دیہی علاقوں میں پایا جانے والا ایک خوبصورت پرندہ ہے۔اس کا تعلق پرندوں کے گالی فورمز خاندان سے ہے۔پرندوں کے اس بڑے خاندان میں مرغی،مور اور تیتر بھی شمال ہیں۔

پہیلیاں

ایک کھیتی کا دیکھا یہ حال نہ کوئی پتا نہ کوئی ڈال نہ ہی ڈالا بیج نہ جوتا ہل

اقوال زریں

٭… جوش کی بجائے ہوش سے کام لو۔ ٭… نادان کی صحبت میں مت بیٹھو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی باتیں تمہیں اچھی لگنے لگیں۔ ٭…خوش رہنا چاہتے ہو تو کسی کا دل نہ دکھائو۔

ذرامسکرایئے

باپ بیٹے سے: یہ تم کیسی ماچس لائے ہو ایک تیلی بھی نہیں جل رہی؟ بیٹا: ایسا کیسے ہو سکتا ہے ابو ، میں تو ایک ایک تیلی چیک کر کے لایا ہوں سب جل رہی تھیں۔٭٭٭