عوام،ووٹ یا دمادم مست قلندر

تحریر : طلحہ ہاشمی


جس گلی جاؤ، جس کسی سے ملو، پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ حکومت کون بنا رہا ہے؟ پھر اس کے بعد رائے زنی کا طوفان کھڑا ہوجاتا ہے کہ نواز شریف کے ساتھ کیا ہو؟ خان صاحب کا کیا بنے گا، مریم نواز پنجاب کی وزیر اعلیٰ تو حمزہ شہباز کو کھڈے لائن لگا دیا؟ چلیں وفاق میں تو جس کسی بھی حکومت بنے گی لیکن یہ تو طے ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی ہی کی حکومت بنائے گی۔

اپوزیشن نام کی چیز صرف دکھائی دے گی، کر کچھ بھی نہ پائے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا سندھ کے عوام کو سکھ کا سانس نصیب ہوگا؟ انہیں بجلی، گیس، پانی، صحت اور صفائی، تعلیم و تربیت ملے گی یا ہر بار کی طرح اس بار بھی نعرے اور وعدے اگلے الیکشن کے لیے اٹھا رکھے جائیں گے؟ 

تازہ الیکشن کے بعد ایک بار پھر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو صوبے میں اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی نے صحت، تعلیم اور روزگار دینے کا وعدہ کیا تھا، ایم کیو ایم نے وفاق میں( ن) لیگ کو حمایت کی یقین دہانی کرادی، بدلے میں بظاہر اس کی تان اختیارات اور وسائل کی نچلی سطح تک منتقلی پر ٹوٹ رہی ہے۔ پہلے ہم صوبے کے چند اہم مسائل پر نظر ڈالتے ہیں، پھر سیاسی بات بھی کرلیں گے۔صوبے کے تعلیمی نظام کو دیکھیں تو سرکاری سکولوں کے علاوہ نجی سکولوں کا بھی جم غفیر ہے، سندھ کے نجی سکولوں کی طلبہ شماری رپورٹ کے مطابق گیارہ ہزار سات سو چھتیس نجی سکول قائم ہیں، ان میں دس ہزار سات سو انگلش میڈیم، چار سو انہتر اُردو اور چار سو اکیانوے سندھی میڈیم ہیں۔ عوام کو نجی سکولوں میں بھاری فیسیں دے کر اپنے بچوں کو پڑھانا ہے تو سرکار کیا کر رہی ہے؟ کیا بہتر تعلیم مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں ؟ سرکاری تعلیمی نظام درست کرنا کس کا فرض ہے؟ یکساں نظام تعلیم کی فراہمی کا انتظام کون کرے گا؟ اگر پنجاب اور سندھ کے تعلیمی اداروں کا موازنہ کریں تو شرم آتی ہے، گھوسٹ سکول، گھوسٹ اساتذہ، بہت سے سکول تباہی و بربادی کی داستان سناتے ہیں، سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے طلبہ کو جس سطح کا تعلیمی معیار فراہم کیا جاتا ہے، وہ تو سب کو معلوم ہی ہے، کیا ہم قوم بنانے کی خواہش رکھتے ہیں یا طبقاتی نظام کو ہی آگے بڑھاتے رہیں گے؟

اسی طرح نظام صحت بھی زبوں حالی کا شکار ہے۔ سندھ حکومت نے کچھ اچھے ہسپتال بھی بنائے ہیں لیکن کیا یہ ہسپتال صوبے کے کروڑوں عوام کو صحت کی سہولیات مہیا کرنے کے لیے کافی ہیں؟ کراچی میں چند بڑے ہسپتال حکومت کے زیر نگرانی ہیں، جن میں اندرون سندھ سے لے کر بلوچستان تک کے عوام فائدہ اٹھاتے ہیں، لیکن اگر ان ہسپتالوں کا ایک چکر لگا لیں تو ہفتوں نیند نہیں آتی۔ ہزاروں مریض اور بستر محدود، دوائیں غائب، ناکافی عملہ کام کے دباؤ کا شکار اور سارا غصہ غریب عوام پر نکالتا ہے۔ عوام کے پاس علاج کے لیے پیسے نہیں، وہ اپنی مایوسی عملے پر انڈیل دیتے ہیں۔ عملہ دوائیں نہ ہونے کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیتا ہے تو عوام عملے پر دوائیں غائب کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اصل ذمہ دار کون ہے؟

یوں تو پورے صوبے ہی کو تجاوزات اور سرکاری زمینوں پر قبضے کا سامنا ہے تاہم کراچی تو قبضے کے لیے بے مثال شہر بن چکا ہے۔ شہر کا کوئی فٹ پاتھ یا سڑک ایسی نہیں جہاں تجاوزات نہ ہوں۔ کوئی محلہ ایسا نہ ہوگا جہاں سرکاری زمین پر کوئی قابض نہ ہو، کوئی ایک سڑک ایسی بتا دیں جسے پارکنگ لاٹ نہ بنا دیا گیا ہو۔یقیناً سڑکوں پر گاڑیاں کھڑی کرنے والے عوام ہی کا حصہ ہوتے ہیں لیکن یہ بہت چھوٹا سا حصہ ہیں جو اپنے ہی جیسے دوسرے لوگوں کا حق مارتے ہیں۔ سڑکوں کو ٹریفک کی روانی کے لیے صاف رکھنا کس کی ذمہ داری ہے؟ تجاوزات کی صفائی کون کرائے گا؟

کراچی سمیت سندھ بھر میں چوری چکاری عام ہے، لیکن اندرون سندھ لوگوں کو اغوا کرنا اور کراچی میں ڈکیتوں کا دندناتے پھرنا بھی سوالیہ نشان ہے۔ گزشتہ برس کراچی میں ڈکیتی مزاحمت کے دوران ایک سو کے قریب افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ خواتین تک کو نہیں بخشا جاتا۔ ابھی دو روز قبل ہی کورنگی کے علاقے میں خاتون صحافی کو لوٹ لیا گیا۔ کیا پولیس نام کی کوئی چیز ہے؟ یعنی تعلیم، صحت، تجاوزات اور قانون کی حکمرانی کیا صوبے میں کہیں ہے؟

اب آجاتے ہیں سیاست کی طرف، سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ایک دوسرے کی حریف ہیں لیکن یہ دونوں جماعتیں وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنانے میں مدد کا وعدہ کرچکی ہیں اور پورا بھی ہوجائے گا، یعنی سندھ اور کراچی کی بات ہو تو دونوں فریقوں کی زبان سن کر بندہ کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے اور وفاق میں باہم (ن) لیگ کی مددگار ہوں گی۔سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ہی زیادہ سیٹوں والی جماعتیں ہیں یقیناً حکومت اور اپوزیشن بھی یہی بنائیں گے تو کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ  جس طرح وفاق میں مل کر بیٹھیں گے اسی طرح صوبے کے لیے بھی مل بیٹھیں؟ عوام کو درپیش تعلیم، صحت اور امن و امان کے مسائل حل کریں۔ عوام کو ایک ایسی زندگی دینے کی تگ و دو کریں جس کا خواب ستر سال سے آنکھوں میں بسا ہے۔ اس خواب سے اب سڑاند آنے لگی ہے، یہ بدبو عوام کے ذہن کو خاصا متاثر کرچکی ہے جس کا نتیجہ الیکشن میں دوسری جگہوں پر آزاد امیدواروں کی جیت کی شکل میں نظر آیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام کا ذہن بند ہوجائے، پھر نہ آزاد امیدوار، نہ پارٹی امیدوار، صرف دما دم مست قلندر!!

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

رشتوں کا ادب واحترام،نبیﷺ کی سنت

’’ اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو‘‘(سورۃ النساء) صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے کے طور پر کرے، صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جب کوئی قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑے‘‘ (صحیح بخاری)

برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ

اگر کوئی آپ سے برائی کے ساتھ پیش آئے تو آپ اس کے ساتھ اچھائی کے ساتھ پیش آئیں، ان شاء اللہ اس کے مثبت نتائج دیکھ کر آپ کا کلیجہ ضرور ٹھنڈا ہو گا۔

منافقانہ عادات سے بچیں

حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ چار عادتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ چاروں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے اور وہ اسی حال میں رہے گا، جب تک کہ اس عادت کو چھوڑ نہ دے۔

مسائل اور ان کا حل

بیماری کی صورت میں نمازیں چھوٹ جائیں تو کیا حکم ہے ؟ سوال : بیماری کی صورت میں نمازیں قضاء ہوجائیں تو کیا حکم ہے ؟(محمد مہتاب) جواب :ان کی قضاء شرعاً لازم ہے۔

9مئی سے متعلق اعتراف کتنا مہنگا پڑے گا؟

پاکستان تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔ پی ٹی آئی بھی اپنی مشکلات میں خود اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ۔ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے اور پی ٹی آئی قیادت پر آرٹیکل 6 لگانے کا اعلان کیا گیا تو بانی پی ٹی آئی نے بیان داغ کر حکومتی پلان کیلئے سیاست کی حد تک آسانی پیدا کردی مگر سیاسی جماعت پر پابندی موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے آسان کام نہیں۔

پاکستان کا سیاسی بحران اور مفاہمت کی سیاست

پاکستان کا سیاسی بحران بڑھ رہا ہے ۔ حکومت، مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان ماحول میں کافی تلخی پائی جاتی ہے ۔ پی ٹی آئی پر بطور جماعت پابندی لگانے اور بانی پی ٹی آئی ‘ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پر غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔