نمبرزگیم،پنجاب میں ن لیگ سیف زون میں آگئی

تحریر : سلمان غنی


عام انتخابات کے نتائج کی روشنی میں حکومت سازی کا عمل آگے بڑھ رہا ہے۔ وفاقی سطح پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان اتفاق رائے کے بعد صدارتی منصب کیلئے آصف علی زرداری جبکہ وزارت عظمیٰ کیلئے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف امیدوار ہوں گے۔

طے شدہ فارمولا کے تحت چیئرمین سینیٹ، پنجاب اورخیبر پختونخوا کے گورنر پیپلزپارٹی کے جبکہ قومی اسمبلی کے سپیکر اور سندھ اور بلوچستان کے گورنر(ن) لیگ کی مرضی سے تعینات ہوں گے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان حکومت سازی کیلئے ہونے والے اتفاق رائے کے بعد اب مخلوط حکومت میں ایم کیو ایم ،استحکام پاکستان پارٹی، مسلم لیگ( ق) اور دیگر کو بھی شامل کرتے ہوئے انہیں بھی حکومتی ذمہ داریوں میں شامل کیا جائے گا۔ حکومت سازی کا عمل ایک مشکل صورتحال میں سرانجام پا رہا ہے کیونکہ انتخابی عمل کے بعد انتخابات میں دھاندلی کے الزامات نے ایک نئی صورتحال پیدا کی ہے۔ شاید ہی کوئی جماعت ایسی ہو جسے تحفظات نہ ہوں لہٰذا دھاندلی کے الزامات کی فضا میں حکومت سازی کا عمل مشکل نظر آ رہا تھا اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان چھ نشستوں کے بعد ایک مرحلے پر ڈیڈ لاک کی کیفیت بھی پیدا ہوتی نظر آ ئی لیکن دونوں جماعتوں کی لیڈر شپ نے مشاورت اور کچھ لو کچھ دو کے فارمولا کے تحت حکومت سازی پر اتفاق کرکے خدشات کا خاتمہ کردیا ۔ مذکورہ اتفاق رائے میں ذمہ دار حلقوں نے بھی اپنا مثبت کردار ادا کیا۔البتہ یہ بات الارمنگ ہے کہ پیپلزپارٹی نے حکومت سازی پر تو اتفاق کر لیا اور اہم آئینی مناصب اپنے نام کرلیے لیکن کابینہ میں شمولیت سے معذرت کر لی ، یوں اہم فیصلوں کا بوجھ مسلم لیگ (ن) کے سر آ گیا ۔ کیا مسلم لیگ (ن) کی حکومت معاشی چیلنجز سے نمٹ پائے گی، اس کا اندازہ تو آنے والے چند روز میں ہو جائے گا البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ چیف ایگزیکٹو کے عہدے کیلئے نامزد شہبازشریف کو مقتدرہ کی بھرپور سپورٹ حاصل ہو گی کیونکہ بگڑتی معاشی صورتحال اور پاکستان کو دیوالیہ پن سے بچانے کیلئے ایس آئی ایف سی کا پلیٹ فارم اہم ہوگا اور وزارت عظمیٰ کیلئے نامزد شہبازشریف مذکورہ پلیٹ فارم کا پہلے ہی حصہ رہ چکے ہیں۔اس نازک معاشی صورتحال میں جیسی حکومت کی ضرورت تھی وہ وجود میں آ رہی ہے اور مذکورہ حکومت میں شامل ہونے والی جماعتوں کو اچھی طرح ادراک ہے کہ آنے والے حالات میں اصل چیلنجز کیا ہیں اور ان میں ان کا کردار کیا ہوگا ۔ آئی ایم ایف سے نئے پروگرام کیلئے مارچ سے مذاکرات شروع ہوں گے۔ نئی حکومت کے سامنے ایک مشکل بجٹ کا مرحلہ بھی درپیش ہوگا جس میں نئے ٹیکسوں کیلئے اصلاحات اور اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔ حالات کا رخ بتا رہا ہے کہ بڑے فیصلے تومسلم لیگ( ن) کی حکومت کو ہی کرنے ہیں۔مسلم لیگ (ن) کو عوام کے ریلیف کیلئے بندوبست ضرور کرنا ہوگا ، خصوصاً بجلی، گیس کے بے بہا بلوں سے نجات کیلئے کچھ اقدامات ضرور کرنا ہوں گے اور اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت اس حوالے سے ممکنہ اقدامات نہ کر سکی اور حکومت کے ثمرات عوام تک نہ پہنچے تو اسے سیاسی نقصان کیلئے تیار رہنا ہوگا ۔اس لئے کہ اس کا سامنا بڑے معاشی چیلنجز سے ہی نہیں ایک ایسی اپوزیشن سے بھی ہو گا جو مزاحمتی سیاست پر کاربند ہے اور اس کی جانب سے آنے والے ایجنڈا سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انتخابات کے نتیجہ میں بننے والی حکومت کو دل سے تسلیم کرنے کی بجائے اسے ٹارگٹ کرنے کیلئے پہلے روز سے سرگرم ہو گی ۔ اس سیاسی دبائو سے نمٹنے کا ذریعہ معاشی بحالی اور ترقی کے عمل کے ساتھ مہنگائی زدہ، مسائل زدہ عوام کے دکھوں کا مداوا ہے۔

 وفاق کے بعد پنجاب کے سیاسی محاذ پر بھی حکومت سازی کا عمل شروع ہے ۔یہاں مسلم لیگ (ن) نے اپنی چیف آرگنائزر مریم نواز کو وزارت اعلیٰ کیلئے امیدوار نامزد کیا ہے اور( ن) لیگ نے پنجاب اسمبلی میں اپنی اکثریت کا اظہار اپنی جماعت کے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں کر دیا ہے جس کے حوالے سے اطلاعات ہیں کہ (ن) لیگ کو پنجاب اسمبلی میں خصوصی نشستوں کے ساتھ تقریباً 210تک نشستیں حاصل ہو چکی ہیں جبکہ پنجاب میں پیپلزپارٹی اور( ق) لیگ بھی (ن) لیگ کی اتحادی ہوں گی۔ بظاہر تو یہاں ایوان میں نمبرزایشوز نہیں ہوں گے لیکن ابھی سے اشارے مل رہے ہیں کہ سیاسی مخالفین کا سیاسی محاذ پر بڑا ٹارگٹ مریم نواز ہوں گی۔مریم نواز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے مشکل حالات میں اپنی والدہ کلثوم نواز کے ہمراہ جس سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا اس میں مقدمات بھی تھے، جیلیں اور دیگر صعوبتیں بھی لیکن انہوں نے ہر طرح کے خوف سے بالاتر ہو کر سیاسی محاذ پر جو جرأت مندانہ کردار ادا کیا اس سے ان کی جماعت کے اندر بھی پذیرائی ہو ئی اور سیاسی محاذ پر بھی ان کو ایک نمایاں مقام ملا، لیکن پارلیمانی سیاست میں یہ ان کا پہلا تجربہ ہوگا اور ان کے پاس پنجاب جیسے بڑے صوبے کا سب سے بڑا منصب ہوگا ۔انہیں نئی پیدا شدہ صورتحال میں بڑے فیصلے بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہوں گے، اس کیلئے انہیں اپنی ٹیم کیلئے خالصتاً سیاسی اپروچ کے حامل جہاندیدہ افراد کا چنائو کرنا ہوگا، اس لئے کہ جس طرح انتخابات میں بڑا میدان پنجاب میں لگا اب پھر سے پنجاب کو ہی سیاسی اکھاڑا بنانے کی تیاریاں ہیں۔ پنجاب مسلم لیگ (ن) کی سیاست کا مرکز رہا ہے مگر انتخابی عمل میں انہیں خاطر خواہ نتائج نہیں ملے۔ کیا وہ پنجاب حکومت کے ذریعہ مسلم لیگ (ن) کی طاقت بڑھا پائیں گی، اس کا انحصار ان کی حکومتی کارکردگی پر ہوگا۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے برسراقتدار آنے کے بعد بڑا امتحان تو رمضان المبارک میں گراں فروشوں، منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں سے ہی شروع ہوجائے گا ۔ اگر رمضان المبارک میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں اعتدال پر رہیں  تو یہ حکومت کی کامیابی کی بنیاد ثابت ہو گی۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف کے سیاسی کردار کا جہاں تک سوال ہے تو آج بھی مسلم لیگ (ن) کی سیاسی طاقت اور فیصلہ سازی میں بڑا کردار انہی کا ہے اور بظاہر حکومتوں میں اسلام آباد اور لاہور کاکردار اہم ہوگا مگر ’’ جاتی عمرہ‘‘ کے سیاسی کردار کو نظرانداز کرنا مشکل ہوگا جہاں نوازشریف اپنے رفقا کے ساتھ اپنی حکومتوں کی کامیابی کیلئے مشاورت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

رشتوں کا ادب واحترام،نبیﷺ کی سنت

’’ اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو‘‘(سورۃ النساء) صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے کے طور پر کرے، صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جب کوئی قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑے‘‘ (صحیح بخاری)

برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ

اگر کوئی آپ سے برائی کے ساتھ پیش آئے تو آپ اس کے ساتھ اچھائی کے ساتھ پیش آئیں، ان شاء اللہ اس کے مثبت نتائج دیکھ کر آپ کا کلیجہ ضرور ٹھنڈا ہو گا۔

منافقانہ عادات سے بچیں

حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ چار عادتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ چاروں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے اور وہ اسی حال میں رہے گا، جب تک کہ اس عادت کو چھوڑ نہ دے۔

مسائل اور ان کا حل

بیماری کی صورت میں نمازیں چھوٹ جائیں تو کیا حکم ہے ؟ سوال : بیماری کی صورت میں نمازیں قضاء ہوجائیں تو کیا حکم ہے ؟(محمد مہتاب) جواب :ان کی قضاء شرعاً لازم ہے۔

9مئی سے متعلق اعتراف کتنا مہنگا پڑے گا؟

پاکستان تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔ پی ٹی آئی بھی اپنی مشکلات میں خود اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ۔ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے اور پی ٹی آئی قیادت پر آرٹیکل 6 لگانے کا اعلان کیا گیا تو بانی پی ٹی آئی نے بیان داغ کر حکومتی پلان کیلئے سیاست کی حد تک آسانی پیدا کردی مگر سیاسی جماعت پر پابندی موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے آسان کام نہیں۔

پاکستان کا سیاسی بحران اور مفاہمت کی سیاست

پاکستان کا سیاسی بحران بڑھ رہا ہے ۔ حکومت، مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان ماحول میں کافی تلخی پائی جاتی ہے ۔ پی ٹی آئی پر بطور جماعت پابندی لگانے اور بانی پی ٹی آئی ‘ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پر غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔