دادا جان کی عدالت

تحریر : اسد بخاری


سمیرا سات سال کی تھی اس میں دو برُی عادتیں تھیں۔ پہلی یہ کہ وہ درمیان میں ضرور بولتی تھی، چاہے کوئی بھی شخص دوسرے فرد سے بات کر رہا ہو۔ اس کی دوسری بری عادت یہ تھی کہ وہ ہر کسی کی باتیں سنتی، چاہے وہ باتیں سننے والی ہوتیں یا نہیں۔ بڑوں کی آپس کی باتیں ہوتیں یا بچوں کی، وہ سن کر دوسروں کو بتاتی، چاہے بتانے والی ہوتیں یا نہیں۔ وہ سب کو بتا دیتی کہ گھر میں کون آ رہا ہے، کون جا رہا ہے، کیا پک رہا ہے، کیا منگوایا جا رہا ہے۔

اس کے ان ہی عادتوں کی وجہ سے گھر کے باقی بچے اس سے دور ہوتے جا رہے تھے۔ وہ اسے اپنے ساتھ کھلاتے نہ اس کے سامنے کوئی بات کرتے۔ یہ نوبت آ گئی کہ گھر کے تمام بچوں نے منصوبہ بنایا کہ سمیرا کا مکمل بائیکاٹ کریں گے اور اس سے کسی قسم کی بات نہیں کریں گے۔ 

سمیرا کو پہلے تو سمجھ نہ آیا کہ آخر اس کے آنے کے بعد سب بچے چپ کیوں ہو جاتے ہیں۔ سب اشاروں ہی اشاروں میں بات کرکے ادھر اُدھر کیوں اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ نہ اس کے ساتھ کوئی کھیلتا ہے نہ ہی اس کے سامنے کوئی بات کرتا ہے۔ بچوں کی اس حرکت کو سمیرا کے علاوہ دادا جان بھی نوٹ کر رہے تھے۔ اب سمیرا سب سے الگ تھلگ بیٹھی رہتی، کوئی اس کے ساتھ کھیلتا نہ بات کرتا۔

دادا جان نے سب بچوں کو بتایا کہ اس اتوار وہ کہانی نہیں سنائیں گے بلکہ ایک چھوٹی سی عدالت لگائیں گے۔ جہاں جس بچے کو جو بھی کوئی مسئلہ ہو، وہ آکر ان کو بتا سکتا ہے اور وہ اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ سب بچوں نے آپس میں بات کی کہ کیوں نہ دادا جان سے سمیرا کی شکایت کی جائے۔

اتوار والے دن گھر میں ایک چھوٹی سی عدالت لگی، سب بچے جیسے تیار بیٹھے تھے، دادا جان کو اپنی اپنی بات بتانے کیلئے۔ سب سے پہلے عمران نے بات شروع کی ’’دادا جان ہم سب کو آپ سے سمیرا کی شکایت کرنی ہے‘‘۔

ہم سب سے کیا مطلب؟ کیا سب کو سمیرا سے ہی شکایت ہے اور گھر میں کسی سے نہیں ہے‘‘۔دادا جان نے حیران ہوتے ہوئے عمران اور باقی سب بچوں سے پوچھا۔

’’جی جی! ہمیں سمیرا کی ہی شکایت کرنی ہے‘‘ علی اور نادیہ نے ایک ساتھ کہا۔ اس سے پہلے کہ دادا جان کچھ بولتے، ایک دم سمیرا بیچ میںبول پڑی۔ ’’میری ہی کیوں اور کیا شکایت کرنی ہے میری‘‘۔

’’دادا جان! یہ پھر بیچ میں بولی ہے‘‘۔ علی نے ایک دم کہا۔

’’پھر بیچ میں بولی سے کیا مطلب، میں پہلے کب بولی تھی، بس ابھی تو بولی ہوں اور سب کان کھول کے سن لو، جس نے بھی میری شکایت دادا جان سے کی،میں اس کے سارے راز دادا جان کو بتا دوں گی، سمجھے سب‘‘۔ سمیرا نے بدتمیزی سے کہا۔

’’بتا دو، بتا دو دادا جان اور باقی سب کو بھی، ویسے کون سے راز ہیںہمارے بلکہ تم پہلے ہی سب کو سب کچھ بتا تو چکی ہو۔ اب کیا بچا ہے بتانے کو تمہارے پاس؟‘‘ نادیہ نے سمیرا سے کہا۔

’’بھئی بچو! تم تو آپس میں ہی لڑنے لگ گئے۔ یہ تو عدالت کے اصول کیخلاف ہے۔ اب سب چپ کرکے بیٹھ جائو، میں جس کا نام لوں، صرف وہی  بولے گا اور اپنا مسئلہ بیان کرے گا۔ سب سے پہلے حرا بتائے گی کیونکہ وہ بچوں میں سب سے بڑی ہے‘‘۔ حرا نے دادا جان کو سمیرا کی دونوں عادتوں کے بارے میں بتایا۔ پھر کیا علی، کیا نادیہ، کیا سعدیہ، ارسلان، عمران سب نے ایک ہی بات کہی۔

 دادا جان چپ بیٹھے سمیرا کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر انہوں نے سمیرا کو بولنے کا موقع دیا۔ ’’کیا یہ بات صحیح ہے سمیرا‘‘ دادا جان نے سمیرا سے پوچھا۔

’’میں ایسی نہیں ہوں دادا جان! اور تم سب کو تو میں دیکھ لوں گی، اس سے پہلے کہ سمیرا آگے کچھ بولتی، دادا جان ایک دم بیچ میں بول پڑے’’بیٹی سمیرا میں مسلسل نوٹ کر رہا ہوں کہ آپ بہت بدتمیزی سے سب سے بات کر رہی ہیں۔ ہمیں لگ رہا ہے کہ ہماری تربیت میں کہیں کمی رہ گئی ہے مگر کہاں رہی ہے، یہ سمجھ میں نہیں آ رہی۔ آخر آپ سب کی باتیں ادھر اُدھر کیوں بتاتی ہیں؟ آپ اپنی باتیں حرا کو اپنے ماں، باپ کو کسی بڑے کو تو بتا سکتی ہیں نا اور ہر کسی کی بات بریکنگ نیوز کی طرح ایک دم سب کو بتا کے آپ کو ملتا کیا ہے اور بیچ میں بولنا میرا مطلب ہے کسی کی بات کاٹنا، یہ تو غیر اخلاقی بات ہوئی۔ گھر میں باقی اور بچے بھی ہیں، وہ تو ایسی حرکتیں نہیں کرتے۔ صرف آپ ہی کیوں سب کی آپس کی اپنی باتیں ہیں، بڑوں کی اپنی اور بچوں کی اپنی اور اس طرح سے تو آپ تنہا رہ جائیں گی کیونکہ سب لوگ یا تو اٹھ کے چلے جاتے ہوں گے یا آپ کو دوسرے کمرے میں بھیج دیتے ہوں گے تاکہ آپ نہ باتیں سنیں اور نہ ہی بیچ میں بولیں اور ایک اہم بات تو مجھے بتائیں، کیا آپ کی سکول کی یا محلے کی سہیلیاں آپ کو اپنے گھر کی باتیں بتاتیں ہیں جیسے آپ انہیں بتاتی ہیں‘‘۔ دادا جان نے سمیرا سے پوچھا۔

’’نہیں، وہ تو کبھی نہیں بتاتیں‘‘ سمیرا نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔

’’تو پھر آپ کیوں گھر کی اور دوسری باتیں سب کو بتاتی ہیں‘‘؟ دادا جان نے پھر سوال کیا۔ اس مرتبہ سمیرا خاموش تھی اور اس کی آنکھوں میں دو موٹے موٹے آنسو آ گئے۔

’’اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہو گی؟ یا میں عدالت برخاست کروں‘‘ دادا جان نے سمیرا سے پوچھا۔

’’دادا جان! اب میں کسی کی بھی باتیں نہیں سنوں گی، چھپ کر بھی نہیں اورنہ ہی کسی کو بتائوں گی۔ بتانی ہوئیں تو امی کو یا کسی بڑے کو بتائوں گی اور جب کوئی بات کر رہا ہوگا تو اپنی باری آنے تک چپ رہوں گی اور بڑوں کی باتوں میں بیچ میں بالکل نہیں بولوں گی‘‘۔ سمیرا نے پرعزم انداز سے کہا۔

’’ شاباش سمیرا تمہیں ہماری باتیں سمجھ آ گئیں، یہ تو بہت اچھی بات ہوئی اور جو تمہیں آج سمجھایا ہے، یہ باتیں ہمیشہ یاد رکھنا، ٹھیک ہے‘‘۔ دادا جان نے خوشی سے کہا اور سب بچے وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

رشتوں کا ادب واحترام،نبیﷺ کی سنت

’’ اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو‘‘(سورۃ النساء) صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے کے طور پر کرے، صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جب کوئی قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑے‘‘ (صحیح بخاری)

برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ

اگر کوئی آپ سے برائی کے ساتھ پیش آئے تو آپ اس کے ساتھ اچھائی کے ساتھ پیش آئیں، ان شاء اللہ اس کے مثبت نتائج دیکھ کر آپ کا کلیجہ ضرور ٹھنڈا ہو گا۔

منافقانہ عادات سے بچیں

حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ چار عادتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ چاروں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے اور وہ اسی حال میں رہے گا، جب تک کہ اس عادت کو چھوڑ نہ دے۔

مسائل اور ان کا حل

بیماری کی صورت میں نمازیں چھوٹ جائیں تو کیا حکم ہے ؟ سوال : بیماری کی صورت میں نمازیں قضاء ہوجائیں تو کیا حکم ہے ؟(محمد مہتاب) جواب :ان کی قضاء شرعاً لازم ہے۔

9مئی سے متعلق اعتراف کتنا مہنگا پڑے گا؟

پاکستان تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔ پی ٹی آئی بھی اپنی مشکلات میں خود اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ۔ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے اور پی ٹی آئی قیادت پر آرٹیکل 6 لگانے کا اعلان کیا گیا تو بانی پی ٹی آئی نے بیان داغ کر حکومتی پلان کیلئے سیاست کی حد تک آسانی پیدا کردی مگر سیاسی جماعت پر پابندی موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے آسان کام نہیں۔

پاکستان کا سیاسی بحران اور مفاہمت کی سیاست

پاکستان کا سیاسی بحران بڑھ رہا ہے ۔ حکومت، مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان ماحول میں کافی تلخی پائی جاتی ہے ۔ پی ٹی آئی پر بطور جماعت پابندی لگانے اور بانی پی ٹی آئی ‘ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پر غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔