نسیم امرو ہوی:علم و ادب کے گل خوش رنگ

تحریر : محمد ارشد لئیق


نسیم ا للغات کا نام سنتے ہی جس بڑی ادبی شخصیت کا نام ذہن میں آ تا ہے، وہ نامور شاعر، ماہرِ لسانیات اور صحافی نسیم امروہوی ہیں جو 28 فروری 1987ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے ۔

 ان کا اصل نام سید قائم رضا نقوی تھا اور ان جیسے بلند قامت ادیب ہی ہوتے ہیں جو علم و ادب کا نام زندہ رکھتے ہیں۔

نسیم امروہوی 24 اگست 1908ء کو ایک علمی اور مذہبی حوالے سے معروف گھرانے میں پیدا ہوئے۔ نسیم امروہوی نے عربی اور فارسی کے علاوہ منطق، فلسفہ، فقہ، علمْ الکلام، تفسیر اورحدیث کی تعلیم حاصل کی اور ادب میں مرثیہ گوئی کیلئے مشہور ہوئے۔شروع میں انھوں نے قائم تخلص رکھا۔ 1923ء میں نسیم تخلص اختیار کیا۔ ہندوستان سے ہجرت کر کے 15مئی1950ء کو لاہور آ گئے۔ اردو کی سب سے بڑی لغت کی تعمیر وتشکیل کے سلسلے میں اپریل 1961ء سے ترقی اردو بورڈ کراچی سے ان کا تعلق قائم ہوا۔ یہاں انھوں نے 18برس تک اردو لغت کی تحقیق وتدوین میں کام کیا۔ عظیم تر اردو لغت کی ذمہ داری قبول کرکے اردو زبان کی اہم خدمت انجام دی، اس لغت کی تکمیل ہماری لغت کی تاریخ میں یقیناً سنگ میل ثابت ہوئی۔ یکم ستمبر1979ء کو اس ادارے سے ریٹائر ہوگئے۔ اس کے بعدانھوں نے کراچی کی سکونت ترک کرکے کوٹ ڈیجی (سندھ) کا رخ کیا۔

نسیم امروہوی نے اپنی صلاحیتوں کا مناسب استعمال کرکے اردو ادب میں گراں قدر اضافہ کیا اور انھوں نے تمام صنف سخن میں طبع آزمائی کی ۔شاعری میں مرثیہ نگاری ان کا خاص میدان تھا اور اس سرزمین میں انقلابی تخیل سے کام لینا انہی کاخاصا تھا۔وہ سیکڑوں مرثیے کہہ چکے ہیں۔

تمام خلق کا خدمت گزار ہے پانی

رگوں میں خون بدن میں نکھار ہے پانی

گلوں میں حسن چمن میں بہار ہے پانی

نمو کی بزم میں پروردگار ہے پانی

انھوں نے متعدد علمی وادبی کتابیں تصنیف کیں، جن میں ''روح انقلاب،ساز حریت، برق وباراں(طویل مسدس)،نسیم اردو،نسیم اللغات، رئیس اللغات، مراثی نسیم(حصہ اوّل ،دوم، سوم) ، تاریخ خیر پور، فرہنگ اقبال(اردو)، فرہنگ اقبال (فارسی) شامل ہیں۔

امروہہ صدیوں سے برصغیر پاک و ہند میں اپنا ایک مقام رکھتا ہے، اس کی شہرت صحت بخش اور معتدل آب و ہوا کی وجہ سے نہیں، دلی سے قربت کی وجہ سے نہیں، آبادی میں مسلمانوں کی اکثریت کی وجہ سے نہیں، آم اور رہو مچھلی جو اس کی وجہ تسمیہ ہیں اس کی وجہ شہرت نہیں۔ شیخ سدّو کی تاریخی مسجد، بائنکا کنواں یا صدیوں پرانا مراد آبادی دروازہ وہ نشانات نہیں جن سے اس کو شہرت حاصل ہوئی۔

امروہہ کی شہرت امرہہ والوں سے ہے جو ہمیشہ علم و ادب میں نمایاں رہے ہیں اور اس میدان میں اپنی مخصوص روایات رکھتے ہیں۔اردو زبان نے جس وقت سے جنم لیا اسی وقت سے اہل امروہہ اس کی خدمات میں پیش پیش رہے۔ ادب اور شعر میں امروہہ کا مقام وہ ہے کہ مولانا محمد حسین آزاد جیسی شخصیت نے شیخ غلام ہمدانی مصحفی کے لئے ''امروہہ پن‘‘ کے الفاظ استعمال کرکے اس قصبہ کی انفرادی حیثیت کو ظاہر کیا اور مصحفی کے مخصوص طرز بیان، ان کی وضعداری، متانت اور سنجیدگی، قدرت کلام اور زودگوئی پر مہر ثبت کی، ان سیکڑوں اہل امروہہ میں سے جنہوں نے اردو زبان کو پروان چڑھانے میں حصہ لیا۔ ثاقب لکھنوی کے استاد سید مومن حسین صفی سرزمین امروہہ ہی کے فرد تھے۔مرثیہ کے میدان میں سید جواد حسین شمیم امروہوی کا نام تا ابد زندہ رہے گا۔ سید قائم رضا نسیم امروہوی آپ ہی کے پوتے اور آپ کے فرزند سید برجیس حسین برجیس امرہوی کے بیٹے تھے۔ سید ابو الحسن مرضی سپش امروہوی اور سید ظفر حسین منتظر بھی اساتذہ کی فہرست میں ایک نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ نسیم امروہوی کے ہمعصروں میں سید محمدعبادت کلیم، سید مصور حسین نجم امروہوی مرحوم، حیات امروہوی مرحوم، رئیس امروہوی اور سید تبارک سعید وہ لوگ ہیں جنہوں نے اردو زبان کی خدمات انجام دیں۔

امروہہ و ادب کا گہوارہ رہا ہے، یہاں شعراء کی طرح نامور علماء بھی پیدا ہوتے رہے ہیں اور علم و ادب کی روایت مسلسل جاری رہی ہے۔ یہاں اتنا کہنا کافی ہے کہ امروہہ کی مذہبی، ثقافتی اورسماجی زندگی کچھ ایسی تھی کہ کسی قسم کی تقریب علم و ادب سے خالی نہ ہوتی تھی۔اسی ماحول میں سید قائم رضا نے پرورش پائی اور پندرہ سال کی عمر میں 1923ء میں پہلا مرثیہ کہا ور بجا طور پر شاعر آل محمدﷺ کہلانے کے مستحق ہیں۔ مرثیہ گوئی سید قائم رضا نے ورثہ میں پائی۔ امروہہ کے ماحول نے ان کی شاعری کی سمت کا تعین کیا، وہاں کی زبان نے ان کے کلام میں وہ لطافت پیدا کی کہ آج وہ نسیم امروہوی ہیں۔

نسیم امروہوی کا مرثیہ ملک کی اس فضا کا پتہ دیتا ہے جس سے ان کے دور کے اکثر ترقی پسند تعلیم یافتہ نوجوان متاثر ہو رہے تھے۔ اسی فضا میں ان کی ذہنیت اور کردار نے نشوونما پائی اور ان کے نظریات کی داغ بیل پڑی اس فضا کے ساتھ ہی نسیم کے گرد و پیش، امروہہ کا علمی و ثقافتی ماحول ان کی شخصیت کی تعمیر اور نظریات کی تشکیل میں کار فرما رہا اور اسی نے ان کے ذہن میں وہ مخصوص فکری رجحانات پیدا کئے جنہوں نے ان کے نظریات کو نکھار کر ان میں عمومیت کی جگہ خصوصیت پیدا کر دی اور وہ ایک نوجوان شاعر کی حیثیت سے اس انفرادیت کے حامل ہو کر دنیا کے سامنے آئے جو بھی ان کے مخصوص ماحول نے عطا کی تھی۔

مذکورہ ماحول نے نسیم کو کیا کیا دیا تھا؟اس بارے میں مختصراً کہیں گے کہ وہ '' نظریہ انقلاب‘‘ ہے جسے مرثیہ کے میدان میں نسیم امروہوی کا مخصوص اور بنیادی نظریہ کہا جا سکتا ہے، لیکن اس فضا اور اس ماحول کو ظاہر کرنے کے لئے جس کا ذکر کیا گیا اوّل ہم ان کے پہلے مرثیہ مرثیہ کے مطلع کا پہلا مصرعہ ہے: ''تجھ میں اے باغ وطن اب گل خوشرنگ نہیں‘‘۔ حاضرین مجلس اہل امروہہ تھے '' اور اہل وطن کے الفاظ سے بظاہر ان کو ہی مخاطب کیا گیا ہے لیکن معاشرے کی جو تصویر کھینچی گئی وہ کسی ایک شہر یا قصبہ کی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی صحیح تصویر تھی۔یہ وہ دور تھا جب برصغیر کے مسلمانوں کی وہ جاگیریں جن کی آمدنی پر ان کے اعلیٰ متوسط طبقہ کی رئیسانہ زندگی کا دارومدار تھا عام طور پر تلف ہو چکی تھیں۔ گنے چنے جاگیردار، تعلقہ دار اور والیان ریاست رہ گئے تھے۔ ان کے علاوہ ان نام نہاد رئوساد امراء میں سے اکثر کی املاک ختم ہو چکی تھیں، جن کے امداد سلطنت مغلیہ یا اس کے زوال میں جائیدادیں حاصل کرکے ان کی آمدنی کے ذرائع فراہم کر گئے تھے۔ چونکہ ان لوگوں کو ذاتی کوشش اور جدوجہد کے بغیر تمول کی زندگی حاصل تھی اس لئے ان کی قوت عمل معطل ہو گئی تھی۔ البتہ اس فارغ البالی سے اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ فکر معاش سے آزاد ہونے کی وجہ سے ہی لوگ اس قابل ہوئے کہ اپنی تفریح طبع اور ذہنی تعیش کیلئے فنون لطیفہ کی طرف متوجہ ہوں۔ آخر میں ان کی نظموں کے چند اشعار قارئین کیلئے پیش کئے جا رہے ہیں۔

جب کوئی ناؤ ڈگمگاتی ہے

آس جب دل کی ٹوٹ جاتی ہے

سب خدائی نظر پھراتی ہے

صرف امید کام آتی ہے

 

کسان تو ہی ہمیں پیٹ بھر کھلاتا ہے

ہمارے واسطے خود جان کو کھپاتا ہے

اٹھائے کاندھے پہ ہل کو یہ شان ہے تیری

ہری بھری جو ہو پتی وہ جان ہے تیری

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

رشتوں کا ادب واحترام،نبیﷺ کی سنت

’’ اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو‘‘(سورۃ النساء) صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے کے طور پر کرے، صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جب کوئی قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑے‘‘ (صحیح بخاری)

برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ

اگر کوئی آپ سے برائی کے ساتھ پیش آئے تو آپ اس کے ساتھ اچھائی کے ساتھ پیش آئیں، ان شاء اللہ اس کے مثبت نتائج دیکھ کر آپ کا کلیجہ ضرور ٹھنڈا ہو گا۔

منافقانہ عادات سے بچیں

حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ چار عادتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ چاروں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے اور وہ اسی حال میں رہے گا، جب تک کہ اس عادت کو چھوڑ نہ دے۔

مسائل اور ان کا حل

بیماری کی صورت میں نمازیں چھوٹ جائیں تو کیا حکم ہے ؟ سوال : بیماری کی صورت میں نمازیں قضاء ہوجائیں تو کیا حکم ہے ؟(محمد مہتاب) جواب :ان کی قضاء شرعاً لازم ہے۔

9مئی سے متعلق اعتراف کتنا مہنگا پڑے گا؟

پاکستان تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔ پی ٹی آئی بھی اپنی مشکلات میں خود اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ۔ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے اور پی ٹی آئی قیادت پر آرٹیکل 6 لگانے کا اعلان کیا گیا تو بانی پی ٹی آئی نے بیان داغ کر حکومتی پلان کیلئے سیاست کی حد تک آسانی پیدا کردی مگر سیاسی جماعت پر پابندی موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے آسان کام نہیں۔

پاکستان کا سیاسی بحران اور مفاہمت کی سیاست

پاکستان کا سیاسی بحران بڑھ رہا ہے ۔ حکومت، مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان ماحول میں کافی تلخی پائی جاتی ہے ۔ پی ٹی آئی پر بطور جماعت پابندی لگانے اور بانی پی ٹی آئی ‘ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پر غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔