بچے کی اچھی صحت کی نشانیاں

تحریر : تحریم نیازی


بچے کی ابتدائی زندگی کے چند دنوں کے دوران اس کے پاخانے کا رنگ سیاہی مائل ہوتا ہے۔ جب یہ سیاہی مائل مادہ بچے کے جسم سے خارج ہو جاتا ہے تو پاخانے کی رنگ تازہ پھینٹے ہوئے انڈے کی زردی کی طرح نظر آتی ہے۔ بوتل سے دودھ پینے والے بچے کے مقابلے میں ماں کا دودھ پینے والے بچے کے پاخانے کا رنگ زیادہ زرد ہوتا ہے۔ پاخانے میں سفید پھٹکیاں نہیں ہونی چاہئیں۔

 اوّل اوّل بچہ چوبیس گھنٹوں میں دو یا تین دفعہ پاخانے کرتاہے۔ جب بچہ ماں کے دودھ کا عادی ہو جاتا ہے تو وہ دن میں عموماً ایک مرتبہ یا ہر دوسرے یا تیسرے دن پاخانہ کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماں کا دودھ بچہ آسانی سے ہضم کر لیتاہے۔ اس دود ھ میں کم و بیش کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی جو ضائع ہونے والی ہو۔ ماں کیلئے اس حقیقت کا سمجھنا بڑا ضروری ہے۔ اکثرمائیں اور بالخصوص پہلے بچے والی مائیں اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتی ہیں کہ اگر بچہ دیر کے بعد پاخانہ کرتا ہے تو ان کے خیا ل میں بچے کو قبض ہے چنانچہ وہ قبض دور کرنے کیلئے دوا استعما ل کرتی ہیں۔ حالانکہ بلاوجہ دوا کا استعمال کرنا غلطی ہے۔ جب تک بچہ بظاہر تندرست نظر آتا ہے، اس کی صحت کی رفتار میں کوئی رکاوٹ نہیں پائی جاتی، اگر وہ خوب سوتا ہے خوش رہتا ہے اور شگفتہ دکھائی دیتا ہے۔ اور پاخانہ کرنے کی وجہ سے اس کا معدہ بھی صاف رہتا ہے۔ ماں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اسے قبض نہیں ہے۔ 

انفرادی طورپر بچوں کی نشوونما کی رفتار میں بڑا فرق پایا جاتا ہے مثلاً بعض بچے چلنے سے پہلے بولنا شروع کر دیتے ہیں اور بعض بولنے سے پہلے چلنا سیکھ جاتے ہیں۔ اکثر بچے ایک سال کی عمر میں چند دانت نکال لیتے ہیں۔ اگر بچے کی نشوونما کی رفتار میں نمایاں طورپر کمی پائی جاتی ہے تو ماں کو پریشانی کا ازالہ کرنے کیلئے ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنا چاہیے لیکن ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنے سے پہلے خود ماں کو بچے کی پرورش کے متعلق اپنی روش کا جائزہ لینا چاہیے۔

بچے کے منہ سے جب پہلی مرتبہ اپنے باپ کیلئے بابا یا ابو یا ماں کیلئے ما ں کا لفظ نکلتا ہے تو اسے قدرتی طورپر خوشی ہوتی ہے۔ ان الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بچہ دنیا میں سب سے پہلے اپنا تعلق براہ راست ماں اور باپ سے ظاہر کرتا ہے اور اس بنا پر وہ ماں کی گو د کو اپنی جائے پناہ سمجھتا ہے۔

 بعض بچے جب آٹھ یا نو مہینوں کے ہوجاتے ہیں تو ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنی قوت گویائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں اکثر پہلے بولنا شروع کر دیتی ہیں۔ ڈیڑھ دو سال کی عمر میں بعض لڑکیوں کی زبان میں اس قدر روانی پیدا ہو جاتی ہے کہ سننے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔

پیدائش سے چار پانچ ماہ کے بعد بلکہ ا س سے بھی پہلے ماں بچے سے پیار کرنے کے ساتھ اس سے باتیں بھی کرتی جاتی ہے، گھر کی بڑی بوڑھیاں بھی ا س سے باتیں کرتی ہیں وہ گو ان باتوں کا جواب نہیں دے سکتالیکن ماں اور قریبی رشتہ داروں کی جو محبت بھری آوازیں اس کے کانوںکے اندر داخل ہوتی ہیں وہ یقینا بے اثر نہیں رہتیں۔ اس عمر کا کمسن بچہ گو ما ں کی باتوں کو خوب پہچانتا ہے کیونکہ وہ بچے کے ساتھ سایے کی طرح لگی رہتی ہے اوراس کا آرام کا خیال رکھتی ہے۔ اس امر کا خیال رکھا جائے کہ جب بچہ بولنا شروع کر دے تو کبھی اس کی باتوں کا جواب لفظوں کو بگاڑ کر نہ دیاجائے۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

دھوکے کی سزا

کسی گائوں میں ایک دھوبی رہتا تھا،جو شہر سے لوگوں کے کپڑے گدھے پر لاد کے گائوں لاتا اور دھونے کے بعد اسی پر لاد کے واپس شہر پہنچاتا تھا۔دھوبی کی کمائی کا یہی ذریعہ تھا اور وہ اس قدر کما لیتا کہ با آسانی گزر بسر کر سکے۔

زمین کی گردش رُک جائے تو کیا ہو؟

پیارے بچو!زمین اپنے محور کے گرد ایک ہزار میل فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار سے گھو م رہی ہے،تاہم اس وقت کیا ہو گااگر اس کی گرد ش اچانک رُک جائے؟اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا ہوا تو اس کے اثرات انتہائی تباہ کُن ہوں گے۔ماہرین کے مطابق اگر زمین کا گھومنا اچانک تھم جائے تو ہر وہ چیز جو کسی دوسری چیز سے بندھی ہوئی نہیں ہے ۔اچانک مشرق کی جانب ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُ ڑنے لگے گی۔اس کے اثرات فضا پر بھی مرتب ہوں گے اور ہوائیں اتنی طاقتور ہو جائیں گی جیسے کسی ایٹم بم کے دھماکے کے بعد ہو سکتی ہیں۔

جانوروں کی دنیا

بٹیر دیہی علاقوں میں پایا جانے والا ایک خوبصورت پرندہ ہے۔اس کا تعلق پرندوں کے گالی فورمز خاندان سے ہے۔پرندوں کے اس بڑے خاندان میں مرغی،مور اور تیتر بھی شمال ہیں۔

پہیلیاں

ایک کھیتی کا دیکھا یہ حال نہ کوئی پتا نہ کوئی ڈال نہ ہی ڈالا بیج نہ جوتا ہل

اقوال زریں

٭… جوش کی بجائے ہوش سے کام لو۔ ٭… نادان کی صحبت میں مت بیٹھو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی باتیں تمہیں اچھی لگنے لگیں۔ ٭…خوش رہنا چاہتے ہو تو کسی کا دل نہ دکھائو۔

ذرامسکرایئے

باپ بیٹے سے: یہ تم کیسی ماچس لائے ہو ایک تیلی بھی نہیں جل رہی؟ بیٹا: ایسا کیسے ہو سکتا ہے ابو ، میں تو ایک ایک تیلی چیک کر کے لایا ہوں سب جل رہی تھیں۔٭٭٭