آزادکشمیر میں تبدیلی کی سرگوشیاں!

تحریر : محمد اسلم میر


آزاد جموں و کشمیر مسلم لیگ( ن) کے صدر شاہ غلام قادر نے گزشتہ ہفتے اس خیال کا اظہار کیاتھا کہ پنجاب اور وفاق میں مسلم لیگ( ن) کی حکومت کے قیام کے بعد ان کی جماعت گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر میں بھی حکومتیں بنائے گی۔ شاہ غلام قادر کے اس بیان سے پاکستان پیپلزپارٹی آزاد جموں وکشمیر کے بعض لیڈروں کے اس بیان کی نفی ہوتی ہے

جس میں انہوں نے امید ظاہر کی تھی کہ مسلم لیگ ( ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے اتفاق کیا ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کی حکومتیں پاکستان پیپلزپارٹی کو دی جائیں گی۔ مسلم لیگ ( ن) آزاد جموں وکشمیر کے صدر شاہ غلام قادر کے علاوہ اُن کی پارٹی کے بعض سینئر رہنماؤں نے بھی تصدیق کی ہے کہ وفاق اور پنجاب میں حکومت سازی کے حوالے سے مسلم لیگ ( ن)اور پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کے درمیان جتنی ملاقاتیں ، مذاکرات اور نشستیں ہوئیں ان میں آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان کے حکومتی ڈھانچوں کی تبدیلی اور ان علاقوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کو حکومتیں دینے کا کہیں ذکر نہیں ہوا ۔ آزاد جموں و کشمیر میں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ( ن) پاکستان تحریک انصاف کے فارورڈ بلاک کے ساتھ مل کرحکومت کر رہی ہیں۔ فارورڈ بلاک کے ارکان کی قیادت وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کر رہے ہیں جو تاحال نئی جماعت قائم نہیںکر سکے تاکہ فارورڈ بلاک کے ارکان اسمبلی کو نئی جماعت کے پلیٹ فارم پر متحد رکھ سکیں۔

ادھر پاکستان پیپلزپارٹی، جس کے پاس فارورڈ بلاک کے بعد قانون ساز اسمبلی میں پندرہ ارکان ہیں اور وہ مسلم لیگ ( ن) کے مقابلے میں اپنی عددی برتری کی بنیاد پر اگلا وزیر اعظم منتخب کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر بھی وزارت اعظمیٰ کے اب تک تین امیدوار سامنے آچکے ہیں جن میں پارٹی کے صدر چوہدری محمد یاسین ، سیکرٹری جنرل اور وزیر لوکل گورنمنٹ و دیہی ترقی فیصل ممتاز راٹھور اور سابق وزیر اعظم حاجی محمد یعقوب خان شامل ہیں، جبکہ جماعت کے اندر ایک خاموش طبقہ سپیکر قانون ساز اسمبلی چوہدری محمد لطیف اکبر کو بھی وزیر اعظم بنانے کیلئے لابنگ میں مصروف ہے۔

مسلم لیگ ( ن) کو آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی میں نو ارکان کی حمایت حاصل ہے جبکہ اندرون خانہ جماعت کی سینئر قیادت فارورڈ بلاک کے چند سینئر رہنماؤں کے ساتھ بھی رابطے میں ہے، جو موجودہ حکومت میں تبدیلی سے زیادہ اگلا انتخاب مسلم لیگ ( ن) آزاد جموں وکشمیر کے ٹکٹ پر لڑنا چاہتے ہیں اور مسلم لیگ ( ن) کی قیادت نے فارورڈ بلاک کے چند ارکانِ اسمبلی کو نہ صرف اگلے انتخابات میں ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے بلکہ انہیں حکومت کی ممکنہ تبدیلی کے بعد تگڑی وزارتوں کی یقین دھانی بھی کرائی گئی ہے۔ فارورڈ بلاک کے بیشتر ارکان قانون ساز اسمبلی کی ایک معقول تعداد اس وقت بھی مسلم لیگ (ن) آزاد جموں وکشمیر کی سینئر قیادت کے ساتھ رابطے میں ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ بھی فارورڈ بلاک میں سے اپنا حصہ وصول کرنے کیلئے آزاد جموں وکشمیر کے ایوان صدر کی طرف دیکھ رہی ہے۔ آزاد جموں وکشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اس وقت مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزِ نگاہ بن چکے ہیں۔ گو کہ صدر آزاد جموں و کشمیر آئینی سربراہ ہیں اور انتظامیہ کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں تاہم ان کا بیٹا وزیر ہاؤسنگ و فزیکل پلاننگ یاسر سلطان ، قریبی رشتہ دار چوہدری ارشد ، محترمہ صبیحہ صدیق اور چوہدری اخلاق براہ راست اُن کے اثر میں ہیں۔ یہ چار ارکان قانون ساز اسمبلی صدر آزاد جموں وکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے قریب سمجھے جاتے ہیں اور جہاں صدر آزاد کشمیر چاہیں یہ چار ارکان قانون ساز اسمبلی اسی طرف جائیں گے۔ آزاد جموں وکشمیر میں کسی بھی ممکنہ تبدیلی کے حوالے سے صدر آزاد جموں وکشمیر بیرسٹر سلطان محمود کا ایک اہم کردار ہو گا جسے پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز کسی صورت نظر انداز نہیں کر سکتی ہے۔

آزاد جموں و کشمیر کی سیاست میں پاکستان پیپلزپارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ ( ن) پاکستان تحریک انصاف کی آزاد  جموں و کشمیر میں باقیات کے حوالے سے بھی تشویش میں مبتلا ہے کہ اگر اس جماعت کو پورے ملک میں کہیں کا نہیں رکھا گیا تو آزاد جموں وکشمیر میں فارورڈ بلاک کی صورت ان کے ارکان اسمبلی کو کس مقصد کیلئے اکٹھا رکھا گیا ہے؟صدر پاکستان مسلم لیگ ( ن) آزاد جموں و کشمیر شاہ غلام قادر نے پاکستان میں عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کے درمیان ہونے والی پیشرفت کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ حالیہ انتخابات میں منقسم مینڈیٹ نے سیاسی قیادت کو بڑی آزمائش میں ڈال دیا، لیکن دونوں جماعتوں کی قیادت نے ایک بار پھر سیاسی بصیرت اور جمہوری سوچ کا ثبوت دیتے ہوئے ملکی استحکام اور جمہوریت کی بقاکیلئے عمدہ فیصلے کیے ہیں اور اس سے وفاق سمیت چاروں صوبوں میں مضبوط حکومتوں کے قیام میں مدد ملے گی۔مسلم لیگ (ن) کے صدر شاہ غلام قادر نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صدرمحمد شہبا ز شریف کے وزارت عظمیٰ اور محترمہ مریم نواز شریف کے وزیراعلیٰ پنجاب کا منصب سنبھالتے ہی ملکی حالات میں نمایاں تبدیلی آئے گی اور اس کے ثمرات آزاد جموں وکشمیر میں بھی پہنچ جائیں گے۔آزاد جموں و کشمیر میں مسلم لیگ ( ن)   مرکزی قیادت کی پالیسی کو اپناتے ہوئے نہ صرف جماعت کی قومی سطح کی پالیسی کو آگے بڑھائے گی بلکہ آزاد جموں و کشمیر میں کارکنان کو ایک نکاتی ایجنڈے پر بھی اکٹھا کیا جائے گا کہ وہ جماعت کی مرکزی لیڈرشپ کے فیصلوں کو قبول کریں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

رشتوں کا ادب واحترام،نبیﷺ کی سنت

’’ اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو‘‘(سورۃ النساء) صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے کے طور پر کرے، صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جب کوئی قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑے‘‘ (صحیح بخاری)

برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ

اگر کوئی آپ سے برائی کے ساتھ پیش آئے تو آپ اس کے ساتھ اچھائی کے ساتھ پیش آئیں، ان شاء اللہ اس کے مثبت نتائج دیکھ کر آپ کا کلیجہ ضرور ٹھنڈا ہو گا۔

منافقانہ عادات سے بچیں

حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ چار عادتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ چاروں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے اور وہ اسی حال میں رہے گا، جب تک کہ اس عادت کو چھوڑ نہ دے۔

مسائل اور ان کا حل

بیماری کی صورت میں نمازیں چھوٹ جائیں تو کیا حکم ہے ؟ سوال : بیماری کی صورت میں نمازیں قضاء ہوجائیں تو کیا حکم ہے ؟(محمد مہتاب) جواب :ان کی قضاء شرعاً لازم ہے۔

9مئی سے متعلق اعتراف کتنا مہنگا پڑے گا؟

پاکستان تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔ پی ٹی آئی بھی اپنی مشکلات میں خود اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ۔ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے اور پی ٹی آئی قیادت پر آرٹیکل 6 لگانے کا اعلان کیا گیا تو بانی پی ٹی آئی نے بیان داغ کر حکومتی پلان کیلئے سیاست کی حد تک آسانی پیدا کردی مگر سیاسی جماعت پر پابندی موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے آسان کام نہیں۔

پاکستان کا سیاسی بحران اور مفاہمت کی سیاست

پاکستان کا سیاسی بحران بڑھ رہا ہے ۔ حکومت، مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان ماحول میں کافی تلخی پائی جاتی ہے ۔ پی ٹی آئی پر بطور جماعت پابندی لگانے اور بانی پی ٹی آئی ‘ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پر غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔